نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تعلیم کے مسئلہ پر توجہ کی ضرورت (2)||ظہور دھریجہ

تعلیم کے معاملے میں جو قدم اٹھائے جا رہے ہیں اُس سے تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سندھ کے بچے اپنی سندھی ماں بولی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے بچوں کو آپ اُن کی ماں بولیوں سے محروم رکھتے ہیں تو یکسانیت کیسے پیدا ہو گی؟

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔جب تک انگریزی کا متبادل تیار نہیں ہوتا ، تعلیمی اداروں میں انگریزی کو برقرار رکھنا چاہئے کہ اردو میڈیم کی وجہ سے غریب کے بچوں کا پہلے بھی بہت نقصان ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ماں بولیوں میں تعلیم کے فلسفے کو بھی آگے بڑھانا چاہئے ۔ اگر ہم اپنے وسیب کی بات کریں تو قدم قدم پر مشکلات ہیں۔
سرائیکی واحد بے نصیب زبان ہے جو کہ خدا کے سہارے پڑھائی جا رہی ہے۔ سرائیکی حکومت کی تعلیمی ترجیحات میں شامل نہیںکیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی توجہ کے لئے خصوصی طور پر جس بات کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میٹرک سرائیکی کا نصاب منظور ہے مگر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ابھی تک کتاب پرنٹ نہیں کرائی اور نہ ہی سکولوں میں اساتذہ تعینات کئے گئے ہیں ۔اس کے ساتھ فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر سرائیکی کی کتاب کی طباعت کے لئے بھی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے ساتھ وسیب کے 95فیصد کالجوں میں سرائیکی لیکچررز کی اسامیاں خالی ہیں ،
وزیراعلیٰ اور حکومت پنجاب اس بارے خصوصی توجہ کرے اور اگر فوری طور پر تمام کالجوں میں نہیں تو کم از کم اس سال میل اور فی میل زیادہ سے زیادہ کالجوں میں سرائیکی لیکچررز کی اسامیاں فل کی جائیں اس کے ساتھ غازی یونیورسٹی ڈی جی خان ،سرگودھا یونیورسٹی ،خواتین یونیورسٹی ملتان اور خواتین یونیورسٹی بہاول پور میں سرائیکی شعبہ جات کی منظوری دی جائے تاکہ جس طرح ملک کی یونیورسٹیوں میں پنجابی ، سندھی ، پشتو ، بلوچی اور براہوی پڑھائی جا رہی ہے اسی طرح وسیب کے لوگ اپنے وسیب کا علم اپنی ماء بولی میں حاصل کر سکیں۔
 یکساں نصاب تعلیم ایک مسئلہ ہے جبکہ اس سے بھی بڑا مسئلہ سماجی تفریق کا ہے۔ سماجی تفریق دراصل شرف انسانی کے خلاف ہے۔ اس بناء پر کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم عمران خان نے درست اور بجا کہا تھا کہ یکساں نصاب تعلیم سماجی تفریق کے خاتمے کیلئے نا گزیر ہے اگر یکساں نصاب تعلیم صحیح معنوں میں نافذ ہو جاتا ہے تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ مدارس کی فرقہ وارانہ تعلیم میں کمی آئے مگر جہاں تک سماجی تفریق کا تعلق ہے تو اُس کیلئے طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایک بچے نے گائوں کے اُس سکول میں تعلیم حاصل کرنی ہے جہاں بیٹھنے کو ٹاٹ میسر نہیں اور دوسرے بچے کو سکول کیلئے آنے جانے کیلئے بڑی گاڑیاں استعمال ہونی ہیں اور بچے نے ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنی ہے تو اس طرح سماجی تفریق کس طرح ختم ہو گی؟
 تعلیم کے معاملے میں جو قدم اٹھائے جا رہے ہیں اُس سے تبدیلی نظر نہیں آتی۔ سندھ کے بچے اپنی سندھی ماں بولی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دوسرے صوبوں کے بچوں کو آپ اُن کی ماں بولیوں سے محروم رکھتے ہیں تو یکسانیت کیسے پیدا ہو گی؟
جہاں تک یکساں نصاب کا تعلق ہے تو بڑے ایجوکیشن ہائوسز اُس سے انکار کر رہے ہیں اور ویسے بھی یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا پہلے بھی بہت سے اعلانات ہوئے مگر عملی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔ یکساں نصاب سے زیادہ ضرورت طبقاتی تعلیم کے خاتمے اور ماں بولی میں تعلیم کا اجراء ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاوں گا کہ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
 یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی ماں بولی کو آئوٹ کرنے کا مقصد بچے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ ہم بچوں کو اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اس کی لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں ، پھر انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے ، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے،
ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ اجلاس میں وزیراعظم نے تعلیمی نصاب میں تصوف کو شامل کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ نصاب کا تعین کرتے وقت یقینی بنایا جائے کہ ہماری نوجوان نسل کو اسلامی و مشرقی اقدار ، صوفیاء کرام اور ان کے فلسفے کے بارے میں آگاہی فراہم ہو ۔ وزیراعظم کی طرف سے تصوف کی تعلیم کی ہدایت کا خیر مقدم ہو نا چاہئے کہ آج کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ صرف اور صرف صوفیاء کی انسان دوستی کی تعلیم سے کیا جا سکتا ہے ۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے بھی ہر ضلع میں صوفی یونیورسٹی اور تصوف اکیڈمیوں کا اعلان ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود یونیورسٹیوں میں صوفی چیئرز قائم کی جائیں اور ان سے انسان دوستی کے حوالے سے تحقیق اور ریسرچ کا کام لیا جائے ۔ نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ عرض کروں گا کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خواجہ فرید چیئرز سال ہا سال سے قائم ہیں مگر آج تک ان کو فنکشنل نہیں کیا جا سکا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواجہ فرید چیئرز کو فوری طور پر فنکشنل کیا جائے ۔
اس کے ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر جو کہ راقم الحروف نے پانچ سال کی عدالتی جدوجہد کے بعد قائم کرایا ، میں آٹھ شعبے نان فنکشنل ہیں ، یونیورسٹی کی طرف سے ہر سال بجٹ کی کتاب میں بجٹ بھی آتا ہے اور آسامیاں بھی ، مگر ہر سال بجٹ لیپس ہو جاتاہے۔ نئے وائس چانسلر اور گورنر کو اس بارے فوری قدم اٹھانا چاہئے ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author