نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست بند گلی میں؟||عاصمہ شیرازی

کیا عجب ہے کہ حکومت بغیر لائحہ عمل حکمرانی کا خواب لیے بیٹھی ہے اور اپوزیشن لائحہ کے ساتھ بھی بے عمل ہے۔ اس دلچسپ صورتحال میں وہ جو چپ چاپ بیٹھے ہیں، دراصل بند گلی میں ہیں۔ فارمولے کی تلاش ہے جبکہ سب فارمولے ناکام معیشت کے سامنے بے بس ہیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برف میں دبی آوازوں کو کس نے سُنا ہو گا۔ سرد لہجوں کی چیخوں میں زندگی کی رمق تو تھی مگر آواز برفیلی۔ اے ایس آئی نوید اقبال کے آخری الفاظ کانوں میں گونج رہے ہیں کہ کبھی سسٹم بن جائے نا تو مزا آ جائے۔

کیسا سسٹم؟ سسٹم ہی تو نہیں بن پایا گذشتہ 70 برسوں میں اور سسٹم کیسے بنے گا؟ کیسے سوالات ہیں کہ جواب سب کے پاس ہیں مگر الفاظ نہیں۔ سانحے ہوتے رہیں گے اور ہم شاید سسٹم بننے کی آس برف کی ڈھیری میں رکھ کر رخصت ہو جائیں گے۔۔ بے حسی کا ماتم ہے، بے بسی کا نوحہ ہے اور نااہلی کا المیہ۔

تبدیلی کا جو خواب ساڑھے تین سال قبل دکھایا گیا اُس میں ایک جوابدہ حکومت، ایک ذمہ دار نظام اور ایک حساس معاشرے کا وجود اہم تھا۔ گذشتہ ساڑھے تین سال میں ہر طرح کی تنزلی کا شکار معاشرہ معاشرتی بے حسی کا بھی نشان بن چکا ہے۔

مری کے عوام کے رویے کا کیا شکوہ۔۔۔ یہ بے حسی ہمارا قومی تمغہ بنتی جا رہی ہے۔ طرز حکمرانی کس چڑیا کا نام ہے اور بے عملی کیا ہوتی ہے اس کا عملی ثبوت اس سانحے میں دیکھنے کو مل چکا۔

کاش کوئی کمیٹی بے حسی پر بھی بیٹھ جائے تاکہ حکومتیں محض نوٹس نہ لیں بلکہ احساس کر لیں۔ مذاق نہ اُڑائیں کہ عوام تفریح کے لیے وہاں گئے ہی کیوں؟ کوئی کمیشن یہ جانچ کر لے کہ عوام کے لیے تفریح کے مواقع ہیں یا عوام ہی حکمرانوں کے لیے تفریح کا سامان بن چکے ہیں۔

ملکِ عزیز میں بسنے والوں کے شب و روز جس تکلیف میں ہیں اُس کا احساس تو شاید کسی کے پاس نہیں لیکن اب جب معاشی اُفتاد ٹوٹ پڑی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ہر چیز برف تلے دب گئی ہے۔ معیشت، سیاست اور ان سے جُڑی ریاست بھی۔

ریاست کو کن حالات سے گُزرنا پڑے گا اس کا اندازہ ہے مگر احساس نہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی شرائط کے معاشی طوفان کا سامنا تو دوسری جانب سیاسی راستے مسدود ہو رہے ہیں۔ معاشی حالت ملک کو سیاسی بند گلی میں داخل کر چکی ہے۔

مری برفباری

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

حزب اختلاف خالی لفظوں سے خود کو اُمید دلا رہی ہے جبکہ حکومت خود اپنے معنی کھو رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا اور میڈیا سکرینوں کو کنٹرول کر کے بے معنی بحثوں میں الجھا کر نہ جانے کس طرح کا رعب حکمرانی ہے جو دکھایا جا رہا ہے۔

سیاست کے طالبعلم کے طور پر یہ جاننے کی کوشش ہے کہ پیش منظر کیا ہو گا مگر یہی وہ نکتہ ہے جو ہر بار وہیں واپس لا کھڑا کرتا ہے جہاں راستے نہیں محض گول چکر ہے۔

ملک کو سخت معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ مالیاتی بل یا منی بجٹ پارلیمنٹ میں ہے۔ آئی ایم ایف اگلا پیکج موخر کر چکی ہے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ اپوزیشن بل منظور کروانا چاہتی ہے جبکہ حکومت بل لٹکانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن اس بل کو حکومت کے گلے کا پھندا بنانا چاہتی ہے جبکہ حکومت اسے کسی اور کے گلے ڈالنا چاہ رہی ہے۔

کیا عجب ہے کہ حکومت بغیر لائحہ عمل حکمرانی کا خواب لیے بیٹھی ہے اور اپوزیشن لائحہ کے ساتھ بھی بے عمل ہے۔ اس دلچسپ صورتحال میں وہ جو چپ چاپ بیٹھے ہیں، دراصل بند گلی میں ہیں۔ فارمولے کی تلاش ہے جبکہ سب فارمولے ناکام معیشت کے سامنے بے بس ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر گھر نہیں چلتا اور اُن کی شرائط پر ملک کی خودمختاری نہیں چلتی۔ ماہر معیشت قیصر بنگالی کے بقول اس بند گلی سے نکلنے کے دو راستے ہیں، ایک بجٹ خسارہ کم ہو۔۔۔ جو ہو نہیں سکتا جب تک کہ غیر ترقیاتی بجٹ کم نہ کیا جائے جس کا براہ راست اثر دفاعی بجٹ پر پڑ سکتا ہے یا دوسری صورت تجارتی خسارے کو کم کرنے میں ہے جس پر اس ملک کی اشرافیہ تیار نہیں ہو گی۔

سو ہر دو صورتوں میں پاکستان کو کمپرومائز کرنا پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف شرائط مزید سخت ہونے کی صورت ماہرین اس کا اشارہ نیوکلئیر پروگرام پر ممکنہ کمپرومائز کی جانب بھی کرتے ہیں۔

شہباز

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

آخری اطلاعات آنے تک پیپلز پارٹی 27 فروری کو لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے، کس برتے پر؟ وجہ تاحال نامعلوم ہے۔ امکان ہے کہ مسلم لیگ ن بھی کوئی اشتراک کرے تاہم اپوزیشن کی لابی میں دبے لفظوں یہی کہتے سُنا ہے کہ لانگ مارچ کے بعد حکومت کون بنائے گا؟

یہ بھی دلچسپ ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت کا گیند بھی ایک دوسرے کی جانب اُچھال رہی ہیں جبکہ اس بند گلی میں پہلے کون داخل ہو گا اس کا علم کسی کو بھی نہیں۔

اماں بابا چور دُھراں دے، پتر دی وڈیائی

دانے اُتوں گُت بگُتی، گَھر گَھر پَئی لڑائی

اساں قضیے تاہیں جالے، جد کنک اُنھاں ڑرکائی

کھائے خیرا، تے پھاٹیے جُما، اُلٹی دستک لائی

اماں بابے دی بھلیائی، اوہ ہُن کم اساڈے آئ

بابا بلھے شاہ فرما گئے ہیں کہ ہم تو تب سے پھنسے ہیں جب سے اُنھوں (اماں باوا) نے گندم کھائی تھی، کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی لیکن اماں باوا کے کام اب ہمارے آگے آ رہے ہیں۔

جناب جس کے بھی کام ہیں اب قوم کے آگے آ رہے ہیں۔ اس بند گلی سے ملک کو کون نکالے گا کہ سسٹم چل پڑے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

About The Author