نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا کہنا تھا کہ بیویاں اگر نیب کا راستہ اپنا لیں تو کرپشن میں کمی ہو سکتی ہے بلکہ ان کی تجویز تو یہ بھی تھی کہ بچے بھی اینٹی کرپشن میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ باتیں ڈاکٹر روبینہ بھٹی کی کافی حد تک درست تھیں، اوپر سے انہوں نے مغرب سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور تعلق بھی سوشل سائنسز سے ہے، لہٰذا چاہتے نہ چاہتے ان کی بات ماننی پڑتی ہے لیکن کوئی ہماری بھی تو سنے، مانے یا نہ مانے، اجی اگر نیب بیویوں والے کاموں پر اتر آئے اور اینٹی کرپشن والے بچے بن جائیں تو پھر گلشن کا کاروبار کیسے چلے گا؟
یہ سب باتیں انسدادِ بدعنوانی کے عالمی دن پر ہورہی تھیں، یہ عالمی دنوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی دکھائی دیتی ہے یا ہم ہی ان باتوں سے انجان رہے۔ 9دسمبر انٹرنیشنل اینٹی کرپشن ڈے تھا اور 10دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن۔ دنوں کے ماننے اور منوانے پر کسی کو اعتراض نہیں مگر دنوں کو بھول جانے پر اعتراض تو ہو سکتا ہے، ماں کا عالمی دن بھی ہوتا ہے اور باپ کا بھی، واہ ہر دن کسی نہ کسی کا ہو گیا تو بیوی کا بھی کوئی عالمی دن شاید ہو اور بچوں کا بھی مگر واللہ ہمیں نہیں معلوم تاہم یہ جانتے ہیں کہ انصاف کا بھی عالمی دن ہوتا ہے۔ دن پِھریں تو ہمیں معلوم ہو۔ اگر کسی کے بس میں ہو تو یوم انسدادِ بدعنوانی سے ایک دن قبل ’’یومِ زوجین‘‘ اور اس سے ایک دن قبل ’’یومِ اطفال‘‘ منایا جا سکتا ہے تاکہ بدعنوانی کے مرض کے خلاف تین دن مسلسل ویکسی نیشن ہو سکے۔ یہ معاملہ چونکہ انتہائی سنجیدہ ہے اور ہم یہ کہنے کا رِسک نہیں لے سکتے کہ عام آدمی کی 70فیصد کرپشن کے پیچھے مکرمی شریکِ حیات اور عزیزی اطفال کا دباؤ ہوتا ہے ( قاری کا کالم نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔
عجیب اتفاق ہے کہ ہم سہمے اور ڈرے لوگ جب انسدادِ بدعنوانی کا دن اسٹوڈنٹس افیئر کے پلیٹ فارم سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں منا رہے تھے، عین اس وقت اسلام آباد کی عدالتِ اعلیٰ نیب سے پوچھ رہی تھی کہ آپ آصف علی زرداری کے خلاف ٹریکٹر کیس بغیر ثبوتوں کے کیسے چلا رہے ہیں؟ جواب یہ تھا کہ ثبوت گم ہو گئے ہیں۔ معزز عدالت نے یہاں تک کہا کہ نیب کا احتساب کون کرے گا؟ یہ تو روایت عام ہے کہ بد سے بدنام برا، سو ظاہر ہے نیب نے کاغذی گم شدگی بھی آصف زرداری ہی پر ڈال دی ہوگی، اس پر ہم زیادہ نکتہ چینی کی جسارت نہیں کر سکتے کہ نیب کا احتساب کون کرے گا یا کون نہیں کر سکتا مگر اتنا ضرور بتا دیتے ہیں کہ بدعنوانی مخالف دن کامیابی و کامرانی کے ساتھ ملک بھر میں نیب کے تعاون سے منایا گیا۔ اتفاق ابھی ختم نہیں ہوا، ہم جامعہ اِسلامیہ بہاولپور ہی تھے اور اگلے روز انسانی حقوق کا دن منایا جارہا تھا۔ گویا جگہ جگہ یہ تقریبات بھی جب اپنے شباب پر تھیں تو اسلام آباد سے عدل اور عادل کی بازگشت ملک بھر کے کوچہ و بازار اور نگر نگر تک پہنچی، سپریم کورٹ میں نیشنل مینجمنٹ کورس کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے عزت مآب چیف جسٹس نے کہا کہ ’’بیوروکریسی کی فیصلہ سازی میں تاخیر سے عدالتی بوجھ، عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے، بنیادی حقوق کی فراہمی ہی سے عوام اور بیوروکریسی میں فاصلہ کم ہوگا، بیوروکریسی اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، شفافیت اور قانون کے مطابق ادا کرے، بیوروکریسی کا کام پالیسیز پر عمل کرتے ہوئے عوامی شکایات کا ازالہ کرنا ہے‘‘!
میں سوچ رہا ہوں بیوروکریسی کا بھی کوئی عالمی دن ہوتا ہے؟ کسی دوست کو معلوم ہو تو ازراہِ کرم ہم بےخبروں کو بتائے، ہم نے قبلہ و کعبہ ڈاکٹر عشرت حسین کے سامنے شمعیں فروزاں کرنی ہیں، اس سلسلہ میں ہم اپنے دوست عبداللہ ملک سے معاونت لے لیں گے کیونکہ ان کی موم بتیوں والی این جی او ہمیشہ فعال ہوتی ہے۔ شمعیں روشن کرکے ہم ڈاکٹر صاحب سے التماس کریں گے کہ خدارا بتا دیجئے تین سال گزر گئے اور تبدیلی حکومت نے آپ کو بیوروکریسی کی اصلاحات کی ذمہ داری دی تھی، شمعیں اس لئے جلانی ضروری ہیں کہ کوئی بات اندھیرے میں نہ رہے کہ، خدا نخواستہ بیوروکریٹک ریفارمز میں کوئی پیشرفت تو نہیں ہو گئی؟
کئی دفعہ کسی اظہار سے قبل جب ہم اپنے عالم و فاضل، جید بیوروکریٹ اور ماہرِ قانون احباب سے رہنمائی لیتے ہیں کہ فلاں فلاں ریفارمز کیسے ممکن ہیں تو وہ ’’اینٹی کلاک وائز‘‘ چل پڑتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ بیوروکریسی میں ریفارمز ہو بھی جائیں تو کیا ہے، جب تک انصاف کے ایوانوں میں اصلاحات نہ ہوں۔ ان سب باتوں سے ہم گھوم جاتے ہیں، ہو سکتا ہے سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہوں مگر آئین کی دفعہ 10 (اے) تو خواجگان سے بزرگان اور حکمران سے ممبران تک سبھی کو فئیر ٹرائل اور ڈِیو پراسِس کی ذمہ داری سونپتی ہے۔ انسانی حقوق کا حصول ہو یا کسی مسیحا سے مسیحائی کے حصول کا معاملہ، ان سب کا ملنا اسی طرح ممکن ہے کہ زنجیری عمل (ریاستی امور کے چین ریکشن) میں کوئی تعطل پیدا نہ ہو۔ ایک جانب سب اداروں کے معاملات کے سِرے آپس میں جڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف عوام کے سب زخم آپس میں بُنے ہوئے ہیں۔ آپ جببیوروکریٹ کی تربیت ہی میں اکڑ ڈال دیں گے تو سیکریٹریٹ والے انسان کو انسان کہاں سمجھیں گے؟ محسوس تو یہ ہوتا ہے بیورو کریسی میں گڑ بڑ جگہ جگہ ہے لیکن سنگین جرم میں مبتلا بھی کتنے لٹکے یا کتنے لٹکائے گئے؟ کسی کو معلوم ہے کتنے بیوروکریٹ پچھلے ایک سال سے کورونا اور ڈینگی کے بہانوں سے عوام سے دور اور دفاتر سے غائب رہے؟ خطِ افلاس کے نیچے جب کسی ریاست کی 50فیصد سے زائد آبادی ہو تو وہاں انسانی حقوق، بیورکریٹ کا عوام دوست ہونا، انصاف کی فراہمی، اسپرین تک رسائی، پٹواری کے تساہل سے چھٹکارا اور پولیس محبت کی امید کا ایک مخصوص دن بھی میسر ہو ، یہ ممکن نہیں۔ عوام کے پاس یہاں 365دن ہی امتحان کے ہیں 364نہیں کہ ’’ایک عالمی دن‘‘ ہی کڑے امتحان کے بعد خوشگوار تبدیلی کی وجہ بن جائے!
خیر کوئی بات نہیں، بیویو، بیوروکریسی، نیب اور ’’وہ‘‘!
تم سب ہنساؤ یا رلاؤ، ہمیں تم سے پیار ہے!
بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر