دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایسے سروے سے ہم باز آئے||رضاعلی عابدی

دنیا ہے کہ کسی کی پروا کئے بغیر اپنی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہے اور سرپٹ چلی جارہی ہے۔ اب حالت یہ ہے ہماری بیرونی خلا میں ایک بہت بڑی چٹان گردش کر رہی ہے جو اگر خدا نخواستہ زمین پر آبادی والے علاقے پر گر پڑی تو بڑی تباہی مچائے گی۔ بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی عالمی ادارہ سروے کرا رہا تھا۔ سوال یہ تھا کہ سمندر پار رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے یا نہیں۔ہوتے ہوتے جواب دینے کی میری باری آگئی۔پچاس سال سے زیادہ گزرے، میں ایک وظیفے پر برطانیہ آیا۔ تین مہینے کا صحافت کا کورس تھا۔ بہت جی لگا کر کام کیا اور جی ایسا لگا کہ کچھ ہی عرصے بعد دوبارہ آیا اور ایسا آیا کہ پھر واپس نہیں گیا۔

تربیت کے دوران پوری کلاس نے مل کر ایک اخبار نکالا۔ سارے شاگردوں نے طے کیا کہ وہ اخبار کے لئے کیا لکھیں گے۔میں نے تجویز پیش کی کہ شہر برمنگھم جاؤں گا اور وہاں بڑی تعداد میں آباد پاکستانیوں سے پوچھوں گا کہ ان کا کیا خیال ہے، تمام عمر برطانیہ ہی میں رہیں گے یا واپس جائیں گے؟ ان دنوں وطن مکمل تھا، مشرقی پاکستان ہمارا تھا مگر ہم اُس کے نہ تھے۔

بہر حال میں اخباری فیچر کا سارا سازو سامان اکٹھا کر کے لایا۔ میں نے جتنے لوگوں سے سروے کیا، ہر پاکستانی کا ایک ہی جواب تھا:جی۔ واپس جائیں گے۔ ان کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔کچھ عرصے بعد میں دوبارہ گیا اور وہ بھی اس شان سے کہ وہیں کا ہو کر رہ پڑا۔وہ جتنے احباب نے بڑے یقین سے کہا تھا کہ وہ واپس جائیں گے، وہ سارے کے سارے وہیں موجود تھے۔کوئی واپس نہیں گیا۔اور ایسا بسا کہ برطانیہ کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔

شہر برمنگھم کو برمی گاؤں کہنے لگے جو دکان دار پنجابی یا اردو نہیں بولتا اس کی دکان پر نہ جاتے، یہاں تک کہ برمنگھم شہر کے پولیس والوں کو پنجابی اور اردو سیکھنی پڑی۔ٹی وی پر اردو پروگرام نشر ہونے لگے اور ناظرین کو اور باتوں کے علاوہ یہ بھی سکھایا گیا کہ ٹوائلٹ کی سیٹ پر کس طرح بیٹھنا چاہیے۔ (کچھ لوگوں کی اطلاع کے لئے: کُرسی کی طرح)۔

چلئے یہ باتیں پرانی ہوئیں۔اب خیر سے تیسری چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور اپنے لوگ وزارتوں اور سفارتوں پر فائز ہونے لگے ہیں۔اس سکون کی فضا میں یہ سوال گولے کی طرح گرا کہ سمندر پار آباد لوگوں کو وہیں بیٹھے بیٹھے پاکستان کے قومی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہئے یا نہیں؟اس پر وہی ہوا جو ہونا تھا۔

زبردست بحث چھڑی جس کی شاخ یہ سوال بن کر پھوٹی کہ میں جو بریڈفورڈ یا مانچسٹر میں پچاس سال سے آباد ہوں، کیا مجھے اب بھی گوجر خان یا لالہ موسیٰ کے معاملات میں ٹانگ اڑانا چاہئے جس کے ہر روز بدلتے حالات سے میں پوری طرح واقف بھی نہیں یا میں اب جس علاقے کا باشندہ ہوں وہاں روزگار، صحت، بچوں کی تعلیم اور جان و مال کی حفاظت کے معاملات پر اپنے ووٹ کے ذریعے اثر انداز ہوں اور جمہوریت کی نعمتوں سے فیض یاب ہوں۔

یہ لمبی بحث ہے اور اصل سوال کا جواب باقی ہے۔ سوال یہ تھا کہ سمندر پار آباد پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے؟جواب یہ ہے کہ جو کوئی اہل وطن کے طور طریقوں سے واقف ہے،اس کا سیدھا سادہ جواب ہوگا:نہیں۔ اول تو دور کے معاملات کو بھول جائیں اور اب جہاں قدم جما لئے ہیں اس کے بھلے کی تدبیر کریں۔

دوسرے، یہ بات کہتے ہوئے جی دکھتا ہے کہ اپنی طرف کے لوگ دھوکے، چالبازی اور جعل سازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ وہ باز نہیں آئیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے برطانیہ میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا نظام شروع ہوا۔جہاں تک مجھے یاد ہے، چار ہزار جعلی ووٹ پڑے ایک پاکستانی امیدوار کے نام۔ یہ تو خیر چھوٹی سی کارروائی تھی، لوگوں نے بڑے بڑے معاملات میں ایسے کمالات دکھائے ہیں کہ جعل سازی کے ماہرین بھی چیں بول گئے۔تفصیل میں جانا فضول ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ سمندر پار آباد پاکستانیوں کا کسی معاملے میں کوئی بھی موقف ہو، ایک بات ان کے دل و دماغ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثبت ہے اور وہ یہ کے ان دو چار حضرات نے وطن کو اچھی طرح نچوڑا ہے،ان کو ووٹ نہیں ڈالا جائے گا۔ ان کے اس رویے کے نتیجے میں الیکشن کے نتائج میں جھکاؤ آئے گا۔پرانے حکمران آتے ہی اس رعایت کو غارت کردیں گے۔بحث میں یہ بات ذہن میں رہے۔

چوتھی بات بھی تکلیف دہ ہے۔ برطانیہ میں آباد پاکستانی بعض معاملوں میں بلا کے جذباتی ہیں، اتنے کہ تشدد پر اترآتے ہیں اور ایک دنیا جانتی ہے کہ یہاں تو مسجد کی انتظامیہ کے انتخابات میں چاقو چل جاتے ہیں اور قتل تک ہوچکے ہیں۔ایسی باتوں سے دل دہلتا ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ کیا اچھا ہو کہ اب ہمیں چین سے رہنے دیا جائے۔ کون کون سے فوبیا ہمار ی جان کے لئے پہلے ہی عذاب بنے ہوئے ہیں۔اب یہ نئی بدعت کہیں ہمارے لئے نئی مصیبت نہ ثابت ہو۔

یہ جمہوری روایات پر قائم لوگ ایک نظام وَضع کرکے اس کی پاس داری کرتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کو جیساا نہوں نے سمجھاہے، ہم اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ دکھ سکھ میں اچھی بری گھڑی میں بڑھ کے ہاتھ تھام لینے والے یہ لوگ ہمارے مثالی معاشرے کی نظیر بن سکتے ہیں مگر ہم وہ مثالیں ڈھونڈنے کے لئے صدیوں پیچھے جانے کے خواہش مند ہیں۔

دنیا ہے کہ کسی کی پروا کئے بغیر اپنی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہے اور سرپٹ چلی جارہی ہے۔ اب حالت یہ ہے ہماری بیرونی خلا میں ایک بہت بڑی چٹان گردش کر رہی ہے جو اگر خدا نخواستہ زمین پر آبادی والے علاقے پر گر پڑی تو بڑی تباہی مچائے گی۔

چنانچہ سائنسدان راکٹ بھیج کراور اس پر بڑا دھماکہ کر کے اس کا مدار بدل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ چٹان جسے شہاب ثاقب بھی کہہ سکتے ہیں اپنا جھکاؤ بدل دے اور کرہ ارض سے نہ ٹکرائے۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح سوچتے ہیں اوریہ کون سی مخلوق ہے جسے نسلِ انسانی کو بچانے کی اتنی فکر ہے۔

ہم کچھ نہیں کرسکتے،فکر تو کرسکتے ہیں۔مگر کیسی فکر؟ کون سی؟ کس کی؟

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author