رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونیورسٹی آف سندھ جام شورو میں سٹوڈنٹس افئیرز کے ڈائریکٹر کی یونیورسٹی طلباء کو کال اپ نوٹس کی ضیاءالحقی اس الزام کے ساتھ کہ ” آپ بغیر اجازت یونیورسٹی میں طلباء یونینز بنانے کی گستاخی کے مرتکب ہو رھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں جرنیل شاھی اور آمرانہ طرزِ حکومت کے نمائندوں کو سب سے زیادہ خوف ہمیشہ بلند ہوتی آوزوں سے لاحق رہا ھے ۔ پھر اگر بلند ہوتی یہ آوازیں توانا اور جوان ہوں تو استحصال کرنے والے خواہ ننگی آمرانہ قوت کے حکمران ہوں یا آمرانہ جمہوریت کے وہ ان آوازوں سے کچھ اور زیادہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔
ضیاءالحق آمریت نے ملک میں متبادل قیادت کے ابھرنے کی راہ مسدود کرنے کیلئے طلباء یونینز اور ان کے انتخابات پر پابندی لگائی ۔ ضیاء نذرِ آتش ہوا مگر بعد کی لولی لنگڑی جمہورتیں اس ضیائی راہ پر چلتی رہیں ۔ کافی عرصے بعد پیپلزپارٹی کی غالباً تیسری حکومت نے طلباء یونینز پر پابندی کو غیر آئینی قرار دیدیا ۔ مگر یہ اعلانِ آزادی کسی نیک نیتی اور پارٹی کے سوشلسٹ منشور کی سربلندی کی بجائے ایک ضیاءالحقی حربہ ثابت ہوا ۔ کیونکہ طلباء کے دباؤ کم کرنے کو یہ اعلان تو ہوا مگر اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے طلباء یونینز کے انتخابات کرانے پر پابندیاں اب تک بدستور چلی آ رھی ہیں ۔۔۔۔۔۔
پابندیوں کے ضیاءالحقی تسلسل کے جبر سے آزادی کی امنگ اب نوجوان طلباء میں انگڑائی لینے لگی ھے جس کا اظہار انہوں نے Revolutionary Students Front سمیت مختلف ترقی پسند طلباء تنظیمیوں کے ذریعہ سڑکوں پر "اب لال لال لہرائے گا، تو ہوش ٹھکانے آئیگا”۔ "اساڈا ہتھ اتھے رکھ "۔ ” ھم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے”، "تعلیم کی تجارت نہیں چلے گی نہیں چلے گی” اور ” تعلیم ھمارا حق ھے کوئی خیرات نہیں” کے بنیادی حقوق کے نعروں سے کیا تو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے ضیاءالحقی وارث یونیورسٹیوں اور کالجوں کی انتظامیہ کے سر میں درد ، پیٹ میں مروڑ اور دماغ میں فتور اٹھنے لگا ھے ۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو کی انتظامیہ کا طلباء کو کال اپ نوٹس اسی درد ، مروڑ اور فتور کا نتیجہ و شاخسانہ ھے ۔ المیہ یہ ھے کہ سندھ کی جام شورو یونیورسٹی نے طلباء کو اس دن بلا کر دھمکیاں دی ہیں کہ جب ضیاءالحق کی خبیث آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے والی پیپلزپارٹی کا یومِ تاسیس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ یونیورسٹی جامشورو انتظامیہ کے جابرانہ ، آمرانہ اور ضیاءالحقی نوٹس کے بعد طلباء تنظیموں کا ردِ عمل قابلِ فخر تھا ۔ Revolutionary Students Front کی قیادت اور اس کے ساتھیوں نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ اگر ” ہم پر اپنے اس حق کے بدلے میں یونیورسٹوں اور کالجوں کے دروازے بند کئے گئے تو ھم سڑکوں پر کلاسیں لگائیں گے” اور ” ھم کوئی بھی غلط کام نہیں کریں گے مگر اب کوئی غلط کام کرنے بھی نہیں دیں گے ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یونیورسٹیوں اور کالجوں کو گیدڑ بھبکیوں کے زور پر چلانے والے سامراجی دلالوں کے یہ گماشتے جان لیں کہ فیض احمد فیض نے ایسے ھی پرعزم نوجوانوں کیلئے ھی تو کہا تھا کہ ” جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں وہ تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر