نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیر اعلیٰ کی دربار فرید کوٹ مٹھن آمد||ظہور دھریجہ

خواجہ فرید کو صوفی اور مناظر فطرت کا شاعر کہا جاتا ہے۔ خواجہ فرید کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے عین عروج کے دور میں ’’اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے‘‘ کا پیغام دے کر خود کو حریت پسند شعراء کی فہرست میں شامل کرایا ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے گزشتہ روز دربار فرید کوٹ مٹھن حاضری دی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ دربار فرید کے توسیع منصوبے پر کام ہو گا۔ جس پر 13 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔
کوٹ مٹھن پہنچنے پر وزیر اعلیٰ کا بھرپور استقبال ہوا اور خواجہ فرید کے عقیدت مندوں نے ان کو سرائیکی میں ’’ست بسم اللہ آئے وے سئیں، سجن آون اکھیں ٹھرن‘‘ کہہ کر خوش آمدید کہا اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خواجہ فرید کا سرائیکی کلام امن اور محبت کا پیغام ہے جسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے 124ویںعرس کی تین روزہ تقریبات کوٹ مٹھن میں اختتام پذیر ہو گئیں ۔تقریبات میں لاکھوں عقیدت مندوں نے شرکت کی ۔ کرونا کے باعث تقریبات پر پابندیاں عائد ہیں ۔ مگر وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی ہدایت پر عرس کی رسومات ادا کرنے کی اجازت دی گئی ۔ ختم شریف میں سجادہ نشین دربار عالیہ اجمیر شریف سید بلال چشتی اور دیگر مشائخ نے شرکت کی ۔
سجادہ نشین دربار خواجہ فرید ؒ خواجہ معین الدین کوریجہ نے دُعا کرائی ۔ اس موقع پر پیر آف کوٹ مٹھن خواجہ غلام فرید کوریجہ نے خواجہ فرید قومی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ عرس کے موقع پر حکومت کی طرف سے رحیم یارخان اور ضلع راجن پور میں ایک دن کیلئے تعطیل کی گئی ۔یہ حقیقت ہے کہ خواجہ فرید نے سات زبانوں میں شاعری کی مگر سب سے زیادہ پذیرائی ان کے سرائیکی کلام کو ملی ، خواجہ فرید کا کلام ایک سو سال سے سرائیکی وسیب کے دلوں پر راج کر رہا ہے ، ان کے پائے کا شاعر سو سال بعد بھی پیدا نہیں ہوا، علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق علامہ صاحب خواجہ فریدؒ کے مداح تھے ، آخری عمر میں خواجہ فرید کا دیوان ان کے سرہانے رہتا تھا اور وہ دیوان پڑھتے رہتے اور زارو قطار روتے رہتے تھے ۔ خواجہ فرید کی سرائیکی شاعری بارے علامہ اقبال نے فرمایا کہ خواجہ فرید کے کلام میں مجھے عالمگیریت نظر آتی ہے مگر افسوس کہ یہ کلام خاص علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا ۔
خواجہ فرید کو صوفی اور مناظر فطرت کا شاعر کہا جاتا ہے۔ خواجہ فرید کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے عین عروج کے دور میں ’’اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے‘‘ کا پیغام دے کر خود کو حریت پسند شعراء کی فہرست میں شامل کرایا ہے۔
خواجہ فرید کو کسی ایک نقطہ نظر یا زاویہ نگاہ سے دیکھنا غلطی ہو گی، اُن کی شاعری کے اَن گنت حوالے ہیں، اُن کو ہم چولستان کا شاعر بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی شاعری میں روہی چولستان کا بہت تذکرہ ہے، خواجہ فرید کا ایک معتبر اور بڑا حوالہ اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کا حوالہ ہے، اُن کی شاعری میں جگہ جگہ ماں دھرتی سے محبت کے حوالے ملتے ہیں جس کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ وسیب قومی شاعر ہیں، یہ بھی دیکھئے کہ گل اور گلزار سے سب محبت کرتے ہیں مگر خواجہ فرید نے اپنی سر زمین کی گردوغبار اور کانٹوں سے بھی محبت کی ہے: ہر ہر قطرہ آب ہے کوثر گرد غبار ہے مشک تے عنبر کرڑ کنڈا شمشاد صنوبر خار دی شکل بہار دی ہے وسیب کے دو مشہور صحرا چولستان اور تھل میں ریت کے پہاڑ ہیں، خواجہ فرید نے ریت کے پہاڑوں کو ’’کوہ طور‘‘ سے تشبیہ دے کر ریت کے ان پہاڑوں کے تقدس میں اضافہ کیا ہے،
اس کے ساتھ پہاڑوں کے درمیان والے حصے کو خواجہ فرید نے وادی ایمن کہا ہے ، چند لائنیں دیکھیں: وادی ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہن کوہ طور جیسا کہ میں نے عرض کیا خواجہ فرید کو اپنے وسیب کی ایک ایک چیز سے پیار ہے، خواجہ فرید کو وسیب کے انسانوں کیساتھ ساتھ وسیب کے جمادات و نباتات سے بھی عشق تھا، وہ وسیب کے پرندوں اور حیوانوں سے بھی محبت کرتے تھے، انہوں نے ایک شعر میں یہ کہا کہ بھینسوں کے قدموں کی جو دھول ہے وہ میری آنکھوں کا سرمہ ہے، شعر دیکھئے: پاہ ہنباہ تے دھوڑ مِہیں دی ڈسدا نور اکھیں دا اسی طرح بھینس کے ساتھ ساتھ خواجہ فرید نے اپنے وسیب کے اونٹ کو دعا دی ہے کہ شالا اُسے کچھ نہ ہو وہ امن کے ساتھ رہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ اونٹ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں، شعر دیکھئے: ناز جمل جمیل وطن دے راہی راہندے راہ سجن دے شالا ہوون نال امن دے گوشے ساڈے ہاں دے ہن سرائیکی وسیب کے علاقے چولستان میں ایک خودرو بوٹی پیدا ہوتی ہے اُس کا نام ’’قطرن‘‘ ہے ، یہ خوشبودار بوٹی ہے، جب چولستان میں بارش ہو اور یہ بوٹی اُگ آئے تو ہر طرف خوشبو کی مہکار ہوتی ہے،
عرب شہزادوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب چولستان میں شکار کیلئے آتے ہیں تو یہ بوٹی جو کہ گھاس کی شکل میں ہوتی ہے کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس سے خوشبو کشیدکراتے ہیں اسی بوٹی کے بارے میں خواجہ فرید نے فرمایا : خوش قطرن عطروں بھنڑی کھا ساگ پُسی دی پنڑی نبھ ویندے وقت سکھیرے معروف شاعر احمد فراز نے کہا تھا ’’ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی، یہ خزانے ممکن ہے تجھے خرابوں میں ملیں‘‘ جب کہ اسی موضوع کو خواجہ فرید نے اس طرح ادا کیا ہے کہ اُن کے شعر میں لفظ خرابہ بھی نہیں آیا، ممکن والی بات بھی نہیں ہے اور جو تشبیہ دی ہے وہ اپنی ہی دھرتی سے ہے، شعر دیکھئے: اُٹھ درد مندا دے دیرے جتھ کرڑ کنڈا بوئی ڈھیرے علامہ اقبال کا ایک شعر خود شناسی کے حوالے سے ہے ،
علامہ صاحب فرماتے ہیں ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن‘‘ خواجہ فرید نے علامہ اقبال سے بہت عرصہ پہلے کہا : جو کئی چاہے فقر فنا کوں اپنے آپ کوں گولے اسی طرح بہت سی مثالیں موجود ہیں جو کہ تقابل کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مگر سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواجہ فرید کے اقوال پر عمل کیا جائے ۔ خواجہ فرید کو ایک بار پھر سے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اور آج کے انتہا پسندی کے دور میں صوفیاء کی تعلیمات اور ان کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author