ڈاکٹر عبدالواحد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ سقراط جب زہر کا پیالہ پی چکا تو اس کے شاگردکریٹو نے پوچھا کہ استاد بتا کہ ہم تیری تجہیزوتکفین کن رسموں کے مطابق کریں "میری تجہیز و تکفین” سقراط ہنسا اور پھر سنجیدہ ہو کر کہنے لگا کہ کریٹو !میں نے تم لوگوں کو تمام عمر سمجھایا کہ لفظوں کو ان کے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔کریٹو!یاد رکھو کہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔صحیح کہا تھا سقراط نے کہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے بلکہ میرےمطابق سب سے بڑا جرم بھی ہے۔پورا برصغیر پاک و ہند نسل در نسل غلامی کی وجہ سے بالخصوص سرائیکی وسیب الفاظ شناسائی اور شبدوں کے استعمال میں کریٹو سے بھی گئے گزرے ہوئے ہیں۔جو بات جس مقام پراورجس کے سامنے کہنی ہے یہ سلیقہ گفتگو اور یہ نوید فکر محمود نظامی جیسے درویشوں نے اس سرائیکی وسیب کے نوجوانوں میں لائی۔ کیونکہ یہ سلیقہ یہ نوید فکر نسل در نسل غلامی کی وجہ سے نوجوان سے چھین لی گئی تھی وہ اسےخدا کی مرضی اور قسمت کا لکھا سمجھ کرمان بیٹھے تھے اس درویش صفت انسان نے اسے کرید کر نکالا۔
عقیدے کی رو سے جسے ھم ‘روح’ سمجھتے ھیں ماھرین نفسیات اسے ذھن یا شعور (Mind) کہتے ھیں. دماغ بچے کیساتھ خام حالت میں پیدا ھوتا ھے. اسے اپنی زبان، خدا، مذہب وغیرہ کاکچھ پتہ نہیں ہوتا۔مگر یہ سب کچھ اسے مذہب عطاء کرتاہے ہمارے وسیب کے نوجوان کی بھی یہ شعوری سطح اور خیلات وتصورات کی دنیا علاقائی رسومات، مذہبی اطوار، معاشرتی بندھنوں کی تابعدار ہوچکی تھی۔ نیورو سائکالوجی (Neuropsychology) کے مطابق یہ تمام افعال ذھن سے پیدا ھوتے ھیں۔ ذہن حواس خمسہ سے چیزوں کو احساسات جذبات خیالات تصورات میں تبدیل کرتا ہے جسے شعور کہتے ہیں اسی لئے ایک بچے کو درسگاہ بھیجا جاتاہے کہ وہ شعور کو اجاگرکرپائے۔ تو اس شعور کی دنیا کو وسیب کے نوجوانوں کے سامنے محمود نظامی نے مشاہدات تصورات و خیالات اور نظریات کی رو سے اجاگر کرنے کی کوشش کی۔وہ محمود نظامی کو پی ایچ ڈی عالم نہیں تھا مگر کبھی سیاسی جلسوں میں سیاسی کارکنان کو ان کے سیاسی نظریات اور تصورات سے خوابیدہ کرتا تھا تو کبھی طالب علموں کو علم نشستوں میں سقراط ارسطو اور افلاطون کی مثال بن کر مظاہر کائنات دیکھاتا تھا اور کبھی مزدوروں کے درمیان بیٹھ کر وہ چی گوویرا کی جیسی جرات کا مظاہرہ کرتا تھا تو کبھی کسانوں اور ہاریوں کے ساتھ کپاس گندم اور گنے کے نرخوں پر سراپا احتجاج ہوا کرتا تھا تو کبھی عورتوں اور بیواؤں کے حقوق کے لیے معاشرے میں بنی ہوئی دیواروں پر کمند اچھالتا تھا۔ تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے فلسفے کی آبیاری کرتا پھرتا تھا
جس کا منشور عوامی اور جس کا رہن سہن اوڑھنا بچھونا معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی آواز بننا تھا۔ جسم ماده ھے تو اسکا شعور بھی اسی سے منسلک ہے۔ جب دماغ کے خلیئے مرنا شروع ہوتے ہیں تو موت آ جاتی ہے اور موت کیساتھ ذہن، شعور،سوچ بچار، احساس، یاداشت سب مر جاتے ہیں۔لیکن یہ سب اس وقت مر جاتے ہیں جب یہ اپنے لیے ہوتے ہیں جسمیں مادیت کا عمل دخل ہوتاہے یہ شعور اور تصورات خیالات، اور احساسات اسوقت امر ہوجاتے ہیں جب یہ عوامی شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ محمود نظامی بھی ایک عوامی شعور کا استعارہ بن چکاہے توپھرکون یہ افواہیں پھیلا رہاہے کہ محمودنظامی مرچکا ہے؟ وہ تو کوئی اور ہے جسکو ہم نے لحد میں اتارا ہے جیسے بابا بلے شاہ نے کہا بُلھے شاہ اساں مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور۔ محمود نظامی آج بھی زندہ ہے کبھی کسان کے ہل کی نوک میں تو کبھی طلباء کےعلمی شعورمیں تو کبھی مزدور کے بیلچے کی آواز میں تو کبھی سرائیکی صوبہ کے استعارےمیں تو کبھی بھٹو کے جیالے میں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر