وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت برس پہلے کی بات ہے۔ ہم لوگ جوان تھے، حیرت اور امید کی جڑواں کرنوں میں دنیا دریافت کر رہے تھے۔ میرے نائجیرین دوست ابوبکر کوانگے نے مجھے ساﺅتھ لندن میں اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ ایسا ہی مختصر، بے ترتیب مگر دلچسپ گھر تھا جو ایک پڑھے لکھے جلاوطن کا ہوتا ہے۔ بن دھوئے برتن اور موسیقی کے آلات ساتھ ساتھ بکھرے تھے۔ کتابیں الماریوں سے باہر گرنے کو تھیں۔ کھڑکی سے آتی سہ پہر کی یکسانیت بھری روشنی میں میری نظر دیوار سے لٹکی ملگجی تصویروں پر ٹھہر گئی۔ مجھے پرانی تصویروں میں دلچسپی ہے جیسے کسی نے تاریخ، مقام اور رفتگاں کو جادو سے ایک نقطے پر قید کر لیا ہو۔ میں ایک تصویر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ کوئی 28 یا 30 برس کے عورت اور مرد کا جوڑا واضح طور پر غریب نظر آتا تھا۔ اٹنگا لباس اور کم خوراکی سے عبارت خدوخال۔ پوچھنے پر ابوبکر نے بڑے پیار سے کہا، میرے والدین ہیں۔ میری ماں اسکول ٹیچر اور میرا باپ وارڈ بوائے تھا۔ یہ تصویر 1960 کی ہے، ہمارا ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا اور یہ نسل غربت کے باوجود اپنے آزاد ملک کی تعمیر کے لئے پرجوش تھی اور پھر ہم لوگ خانہ جنگی، آمریت اور کرپشن کی دلدل میں چلے گئے۔ کمرے میں رائیگانی کی خاموشی چھا گئی۔ دو متصل نسلوں کے اس مشترک المیے پر سوچتے ہوئے نامعلوم کیوں میرا دھیان روانڈا کی طرف مڑ گیا۔ نائجیریا مغربی افریقہ کا گنجان آباد ملک ہے جبکہ روانڈا وسط افریقہ کا سمندری رسائی سے محروم چھوٹا سا ملک ہے، کل آبادی ایک کروڑ سے کچھ اوپر۔ 30 برس پہلے یہ ملک قتل عام، خانہ جنگی اور غربت کے لئے جانا جاتا تھا۔ آج روانڈا کو وسطی افریقہ میں تیز ترین معاشی ترقی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس صدی کے آغاز سے غربت کی شرح 57 فیصد سے کم ہو کر 39 فیصد رہ گئی ہے۔ شہریوں کی متوقع عمر دو عشروں میں 46.6 برس سے بڑھ کر 65.4 برس کو جا پہنچی ہے۔ 2001 سے 2014 تک اس ملک نے سالانہ 8 فیصد کی شرح سے ترقی کی اور اس کے بعد شرح ترقی 6 اور 7 فیصد رہی ہے۔ اس معاشی معجزے کو تناظر میں رکھنے کے لئے کچھ تاریخی حقائق دیکھنا ضروری ہیں۔
روانڈا میں دو بڑے قبیلے ہوتو اور توتسی آباد ہیں۔ ہوتو آبادی کا کوئی 85 فیصد اور توتسی قبیلہ 14 فیصد ہے۔ یہ ایک ڈھیلا ڈھالا قبائلی نظام تھا جہاں لوگ پرامن طور پر رہ رہے تھے۔ یہ ملک بلجیئم کی نوآبادی تھا۔ غیر ملکی حکومت نے اپنے تسلط کو دوام بخشنے کے لئے 1935 ءمیں قبائلی شناختی کارڈ کا نظام متعارف کروایا جس کے بعد کسی کے لئے اپنی قبائلی شناخت تبدیل کرنا ممکن نہ رہا۔ قبائلی بنیاد پر اقلیت اور اکثریت کے تصور نے جنم لیا۔ (اب اگر یہاں آپ کو برطانوی ہند میں 1905 ءکی تقسیم بنگال اور اس سے جنم لینے والی فرقہ وارانہ سیاست یاد آ جائے تو آپ کی تاریخ دانی کی داد دینے کے باوجود میں خود کو اس تقابل کا ذمہ دار نہیں سمجھوں گا۔ میں ایک ذمہ دار صحافی ہوں اور سرکاری ہدایات کی روشنی میں قلم کاری کرتا ہوں۔ ) بلجیئم کی استعماری قوت دانستہ اکثریتی ہوتو قبیلے کی سیاسی اور معاشی سرپرستی کرتی تھی جس سے قبائلی عصبیت نے جنم لیا۔ 1962 ءمیں روانڈا کو آزادی ملی تو ناگزیر طور پر ہوتو قبیلے کی بالادستی قائم ہو گئی۔ کوئی پانچ لاکھ توتسی شہریوں نے ہمسایہ ملک یوگنڈا میں پناہ لے کر روانڈا پیٹریاٹک فرنٹ کے نام سے حکومت مخالف تنظیم قائم کر لی۔ 1990 ءمیں اس جماعت نے روانڈا پر حملہ کر دیا۔ یہ مسلح تصادم بڑی حد تک غیر نتیجہ خیز تھا کہ 6 اپریل 1994 کو صدر ہیبریامنا کو قتل کر دیا گیا ۔ ہوتو صدر کے قتل سے ایسے فسادات شروع ہوئے جنہیں اقوام متحدہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد بدترین نسل کشی قرار دیا۔ صرف ایک ماہ کے اندر آٹھ لاکھ سے زائد افراد کلہاڑیوں اور چھروں سے تہ تیغ کر دیے گئے۔ 70 فیصد توتسی شہری صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ بالآخر جولائی 1994 میں توتسی تنظیم روانڈا پیٹریاٹک فرنٹ نے ملک پر قبضہ کر لیا۔ کوئی دو لاکھ ہوتو شہری انتقام سے بچنے کے لئے جلاوطن ہو گئے۔ 1994 سے ہی حقیقی اقتدار موجودہ صدر (سابق جنرل اور مسلح جدوجہد کے لیڈر) پال کاگامے کے ہاتھ میں تھا اگرچہ انہوں نے 2000 ءکے انتخاب میں کامیابی کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالا۔
توتسی قبیلے سے تعلق کے باوجود کاگامے نے فیصلہ کیا کہ قومی مفاہمت کی طرف بڑھے بغیر ملک کو خانہ جنگی کی تباہ کاریوں سے نکالا جا سکتا ہے اور نہ معاشی ترقی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلا قدم یہ تھا کہ قبائلی شناخت کی بجائے شہری مساوات کو تسلیم کیا جائے۔ آج روانڈا میں ہر فرد ہوتو یا توتسی کی بجائے روانڈا کے شہری کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنگی جرائم میں انصاف کے لئے عدالتیں قائم کی گئیں جن کی کارکردگی بڑی حد تک تسلی بخش رہی۔ ایک اہم قدم عورتوں کو سیاسی اور معاشی میدان میں شریک کرنا تھا۔ روانڈا کی موجودہ کابینہ میں نصف سے زائد عورتیں ہیں جب کہ انہیں تمام منتخب اداروں میں بڑی نمائندگی حاصل ہے۔ بچوں کی تعلیم اور عوام کے علاج معالجے کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ روانڈا دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کسی بھی مریض کے لئے دور دراز علاقوں میں ڈرون کے ذریعے ادویات پہنچائی جاتی ہیں۔ روانڈا میں ابتدائی تعلیم کا ایک ہی مقصد ہے، تمام بچوں کو خواندگی کے قابل بنانا۔ نتیجہ یہ کہ درمیانی معاشی استطاعت کا حامل یہ ملک صرف 25 برس بعد اب نالج بیسڈ معیشت کا حصہ بننے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ملک کی 40 فیصد معیشت بیرونی امداد پر کھڑی ہے لیکن حقیقی قوت عوام اور قیادت کے درمیان اعتماد سے حاصل ہو رہی ہے۔ روانڈا میں سب اچھا نہیں۔ کاگامے پر شخصی اقتدار، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صحافت پر پابندیوں کے ٹھوس الزامات ہیں۔ اہم بات یہ کہ معیاری تعلیم اور مضبوط معیشت کی موجودگی میں عوامی شعور خود ہی حکومتی بندوبست کے رخنے دور کر سکے گا۔ ایک دوست کو یہ قصہ سنایا تو انہوں نے معصومیت سے پوچھا، روانڈا میں قومی مفاد کا تعین کون کرتا ہے؟
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر