نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھولے اور سادہ حکمراں||رضاعلی عابدی

ہفتے بھر کا راشن خریدنے کے دن کبھی کے رخصت ہوئے۔ صبح خریدا ہوا راشن دوپہر کا ڈھلنا دیکھ لے تو غنیمت ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، گاؤں دیہات کے لوگ علاقے کے ڈاکٹر کے پاس اُسی وقت جاتے ہیں جب جیب میں کم سے کم دس ہزار روپےہوں۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں اگر سینکڑوں حکومتیں ہیں تو ظاہر ہے حکمران بھی سینکڑوں ہی ہوں گے۔ کچھ ذہین، کچھ فطین ، چند سمجھ دار اور کچھ نا سمجھ۔حکمرانوں کی ایک قسم اور بھی ہے۔

بھولے حکمران جنہیں ہم اپنے بزرگوں کی زبان میں سادہ بھی کہہ سکتے ہیں۔میر تقی میر نے اپنے بارے میں کہا تھا: کوئی سادہ ہی اُس کو سادہ کہے۔ ہمیں تو لگے ہے وہ عیار سا۔یعنی ایک قسم وہ بھی ہوئی جسے دنیا سادہ کہے لیکن اندر سے وہ عیار ہو۔پاکستان کے معاملے میں کچھ طے کرنا مشکل ہے۔ حکمرانی پر فائز افراد ہمیں تو بھولے ہی لگتے ہیں۔

کیسے خوش ہوکر، کتنے نہال ہوکر بلکہ ڈھول تاشے بجا کر ڈینگیں ہانکنے کے اندا ز میں صبح و شام کہتے ہیں کہ سمندر پار رہنے والے ہم وطن جھولیاں بھر بھر کر رقم پاکستان بھیج رہے ہیںاور یہ کہ سرکاری خزانے میں جو زرمبادلہ آرہا ہے وہ اوور سیز پاکستانیوں کی وطن سے محبت کا ثبوت ہےاور کچھ یوں کہہ رہے ہیں کہ جب سے ہماری حکومت آئی ہے،سمندر پار آباد پاکستانی پہلے سے زیادہ اپنی کمائی ہوئی رقم وطن ارسال کر رہے ہیں۔

اب انہیں کون سمجھائے، کوئی سمجھائے بھی تو کیا یہ سمجھ جائیں گے۔مشکل ہے۔ حیرت ہے ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں کہتا کہ جسے آپ وطن کہتے ہیں وہ گراں فروشی کا گڑھ بن چکا ہے، منافع کمانے والے کیسی کیسی عیاری سے کام لے کر دونوں ہاتھوں سے دولت بٹور رہے ہیں اور ہر شے، ہر خدمت، ہر نعمت اور ہر ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

اس کا اثریہ ہوا ہے کہ غیر وطن میں آباد عزیز و اقارب ، سمندر پار سے گھر چلانے کے جو اخراجات بھیجتے ہیں وہ روز بروز کم پڑتے جارہے ہیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ وطن کی کمر توڑ مہنگائی کے تلے کچلی ہوئی خلقت سمندر پار سے خرچا بھیجنے والوں سے التجائیں کر رہی ہے کہ خدا کے لئے زیادہ پیسے بھیجو ، یہ پور ے نہیں پڑ رہے ہیں،بچے اسکول سے اٹھالئے گئے ہیں،ڈاکٹر کا لکھا ہوا نسخہ مٹھی میں دبا کر ماں واپس گھر آگئی ہے کہ بیماری جھیلنے والے بچے خود ہی لوٹ پوٹ کرٹھیک ہو جائیں گے ۔

ہفتے بھر کا راشن خریدنے کے دن کبھی کے رخصت ہوئے۔ صبح خریدا ہوا راشن دوپہر کا ڈھلنا دیکھ لے تو غنیمت ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، گاؤں دیہات کے لوگ علاقے کے ڈاکٹر کے پاس اُسی وقت جاتے ہیں جب جیب میں کم سے کم دس ہزار روپےہوں۔

مجھے پتہ ہے آنکھیں دکھنے آگئی ہوں یا دانت میں درد ہو تو مریض سوچتا ہی رہتا ہے کہ پاس میں دس ہزار روپے ہو ں تو جانے کی ہمت کرے کیوں کہ مسئلہ صرف ڈاکٹر کا نہیں،اس کے لکھے ہوئے ٹیسٹ اور جان بچانے والی نہیں،جان نکال لینے والی دواؤںکا ہے کہ ان کی قیمت کون بھرے گا؟

ایسے ستم رسیدہ لوگوں کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ سمندر پار سے گھر کا خرچ بھیجنے والوں سے التماس کریں،گڑگڑائیں اور التجائیں کریں کہ جیسے بھی بنے زیادہ رقم بھیجو، بچے بھوکے سوگئے ہیں۔

اس حقیقت سے آنکھیں موند کر نظام چلانے والے اتنے سادہ لوح ہیں کہ جن حالات پر انہیں نادم اور شرمندہ ہونا چاہئے انہیں وہ اپنی لولی لنگڑی حکمرانی کا تمغہ امتیاز بنا کر اپنے سینے پر آویزاں کر رہے ہیں۔

مانا کہ کوئی خطہ یا علاقہ نہیں، پوری دنیا ایک بحران سے گزر رہی ہے لیکن اس دلدل سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں بھی مار رہی ہے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ انصاف ہو نا ہی کافی نہیں ، ہوتا ہوانظر بھی آنا چاہئے بالکل اسی طرح جان نکال لینے والی گرانی پر قابوپانے کے لئے ٹھوس اقدام ہونے چاہئیں، صرف چہرے پر غازہ مل دینے سے غریب محنت کش کے گھر میںچراغ جلنے سے رہے۔

مشکل وقت بارہا پڑے ہیں، گرانی نے کئی مرتبہ کمر توڑی ہے، ڈالر کی نیّا بار بار ڈولی ہے، تیل کی قیمتوں نے کتنی ہی مرتبہ آسمان کو چھوا ہےمگر لوٹ پوٹ کر استحکام بھی آیا ہے، تیل تو ایک بار اتنا سستا ہوچکا ہے کہ قریب تھا کہ مفت ملنے لگے ۔

مگر یہ نہیں ہوا کہ جو قیمت ایک بار بڑھ گئی وہ کبھی کم نہیں ہوئی۔دنیا میں یہ ہوتا رہتا ہے کہ جن چیزوں کے بغیر جیتا رہنا مشکل ہے وہ گراں ہوتی ہیں اور پھر سنبھل بھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں قیمتوں کے رجحان پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔

افراطِ زر کے پیمانے پر صاف نظر آتا ہے کہ کہاں معاملات بے قابو ہوئے جاتے ہیں۔ ماہرین تدبیریں اختیارکرتے ہیں اور ہم نے ہزار بار دیکھاہے کہ قومیں اور مملکتیں بحرانوں سے نکل کر سرخ رو ہوئیں۔

مگر جی اُس وقت دہلتا ہے جب ایسا کچھ نظر نہ آرہا ہو۔ جب الزام ایک دوسرے پر یا سابقہ حکومتوں کے سر تھوپنے کے سوا کچھ نہ ہورہا ہو۔یہ بات طے ہے کہ مملکت کے نظا م میں ریاست سب سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے جب ایسا ساری دنیا میں ہوتا ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں ہوتا۔

ہماری گردنوں پر پیر تسمہ پا کی طرح مڈل مین، آڑھتی، بچولئے اور نام نہاد مافیا کیوں سوار ہیں؟جہاں جس کا داؤ لگ رہا ہے وہ اپنے گھروں کے تہ خانے دولت کے انبار سے کیوں بھر رہا ہے؟

دھاندلی ہورہی ہے اور ہوتی ہوئی نظر بھی آرہی ہے مگر وہ آ ہنی ہاتھ کہاں ہے جو اٹھے، ضرب لگائے اور اس بلا کا سر کچل دے،ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author