نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہی علم و ادب کا نوحہ||رضاعلی عابدی

میں سنہ بیاسی میں ان سے ملنے گیا تھا، میرا آنا انہیں خوب یاد تھا اور میری کتاب ’’کتب خانہ‘‘ کہیں ان کے ہاتھ لگی تھی جس سے متاثر ہوکروہ چند سطریں لکھنے بیٹھیں اور بات چھ صفحات تک پہنچی اور اپنی اس عادت سے خود بھی محظوظ ہوئیں۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صالحہ عابد حسین کا نام اردو زبان اور ادب کی تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے گا۔ ان کا نام ایسے اعلیٰ علمی اور ادبی گھرانے سے وابستہ ہے جس نے اپنے ورثے کو زمانے کے حوادث سے بچا کر رکھا لیکن وقت کی ایک کروٹ نے ان کے کئےکرائے پر پانی پھیر دیا۔ یہا ں میں صالحہ عابد حسین کا وہ خط نقل کر رہا ہوں جس کا پہلا نصف گزشتہ تحریر میں نقل ہو چکا ہے۔ یہ ان کے دکھوں کی داستان ہے جو وہ اس خط میں لکھتی چلی گئیں اور اس طرح تاریخ کے اس دردناک واقعہ کو محفوظ کر گئیں۔ وہ اس کے تین سال بعد انتقال کرگئیں اور چھ صفحوں کے اس خط کے ذریعے ادب کے اوراق پر اپنے کرب اور درد کا گہرا نشان ڈال گئیں۔خط پر تاریخ نو ستمبر سنہ انیس سو پچاسی لکھی ہے۔

میں سنہ بیاسی میں ان سے ملنے گیا تھا، میرا آنا انہیں خوب یاد تھا اور میری کتاب ’’کتب خانہ‘‘ کہیں ان کے ہاتھ لگی تھی جس سے متاثر ہوکروہ چند سطریں لکھنے بیٹھیں اور بات چھ صفحات تک پہنچی اور اپنی اس عادت سے خود بھی محظوظ ہوئیں۔ لیجئے پڑھئے:

’’میرے والد کے ذاتی کتب خانے میں دس ہزار کتابیں تھیں، سنہ سینتالیس کے فسادات کے بعد جب ہم اپنا گھر دیکھنے پانی پت گئے تو کتابوں کا تو ذکر ہی کیا، ان کتابوں کا ایک ورق بھی سلامت نہ تھا۔ مولانا حالی کے کتب خانے کی کہانی بھی ایسی ہی دردناک ہے۔ اول تو انہوں نے اپنی زندگی میں وکٹوریا میموریل مڈل اسکول لڑکوں کے لئے قائم کیا تھا تو بہت سی کتابیں (جو غالباً عام فہم اور اردو میں ہوں گی) اُسے دے دی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کا گھر وغیرہ اور گھر کا سب سامان ان کے نواسے خواجہ فرزند علی کے پاس آیا۔ وہ مرحوم زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے مگر نانا کی الفت کتابوں میں شاید منتقل ہو گئی۔ سنا ہے کہ انہوں نے مولانا کے کاغذات، مسودے اور کتابیں بند کمرے میں رکھی تھیں۔سنہ ۴۷ سے پہلے ان کا بھی انتقال ہو گیا اور سنہ ۴۷ کے بعدوہ کتابیں بھی اسی گھر میں دفن ہوگئیں یا ضائع کردی گئیں۔نثار احمد فاروقی صاحب جو شاید سنہ پچاس اکیاون کے لگ بھگ دلی یونیورسٹی کے لائبریری سیکشن سے وابستہ تھے وہ بتاتے ہیں کہ انہیں معلوم ہوا کہ پانی پت میں ردّی میں مولانا کا کتب خانہ بنیوں کے ہاں ورق ورق بک رہا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ وہ گئے اور جو بھی سرمایہ باقی بچا تھا وہ بنیوں وغیرہ سے خرید کر کسی طرح دلّی لائے اور دلی یونیورسٹی کو دے دیا۔

تو جناب یہ وہ زخم ہیں جن سے لہو رستا ہے اور اس لئے اور بھی آپ کی کتاب ’’کتب خانہ‘‘ کو پڑھ کر دل پر گہرا اثر ہوا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بزرگوں کی چیز عزیز ہوتی ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں لوگ نہیں مانتے کہ علم اور کتاب چھپا کر رکھنے کی چیز نہیں۔ یہ رفاہ عام کے لئے ہوتی ہے۔ جتنے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اس کی قدر و قیمت بڑھے گی۔

میں تو خیر ایک بیمار، عمر رسیدہ، تقریباً جاہل انسان ہوں اور سوا اس کے کہ دل کڑھاؤں اور کچھ نہیں کر سکتی مگر جب تک آپ جیسے نوجوان باقی ہیں اور ہمارے علمی ادبی ذخیرے کے قدر دان تلاش کر سکتے ہیں اور زیدی صاحب جیسے لوگ جو اس عمر میں بھی کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں تو مایوسی کے اندھیرے میں روشنی کی کرن دمک اٹھتی ہے۔

خدا کرے آپ کی یہ کتا ب جس مقصد کے لئے لکھی گئی ہے اس میں کامیاب ہو اورہماری کتابیں اورجو علم و ادب کے بے بہا اوراق بر صغیر میں بکھرے پڑے ہیںان کی حفاظت کچھ نہ کچھ ہو سکے۔ ورنہ تو دنیا میں سبھی کو فنا ہے، کیا انسان اور کیا اس کا علم و ادب سب ہی کو خاک میں پنہاں ہونا ہے۔ دیکھئے یہ لکھنے کا مرض بھی کیسا ہوتا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر چار سطر کا خط لکھنے بیٹھی تھی اور چھ صفحے لکھ ڈالے۔ خدا کرے خط آپ کو مل جائے، جواب تو ضرور دیں گے نا؟

ہاں ایک بات اور۔ آپ تو ایسے ملک میں ہیں جہاں علم و ادب کی، کتاب کی قدر و قیمت جانی پہچانی جاتی ہے تو جہاں تک ہوسکے وہاں کے لوگوں کے تعاون سے جن کتابوں کو وہ خرید سکیں محفوظ کرا دیجئے۔ ہم لوگ تو آج کل اپنے بچے تک امریکیوں اور انگریزوں کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ زندہ رہ جائیں۔ کتابوں کو زندہ رکھنے کی بھی کیا یہی صورت ہوگی، دنیا میں سب سے ناپائیدار چیز انسان ہے مگر کتابیں بچ جائیں تو ہزاروں سال اپنے لکھنے والوں اور خدمت کرنے والوں کا نام نہیں تو کام ضرور زندہ رکھیں گی۔

سمع خراشی کی معذرت۔ اہلِ لندن خاص کر افتخار عارف کو(جنہوں نے ہندوستان میں ہم سے ملنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے بہت چاہنے والے یہاں تھے)میری دعا پہنچا دیجئے۔ خاکسار، صالحہ عابد حسین اور اب ایک ذرا سے تبسّم کا اہتمام۔ میں ریڈیو سے وابستگی کے زمانے میں سامعین کے خط اور ان کے جواب نشر کیا کرتا تھا۔سنہ اسّی کے دوران میں نے یہ خط نشر کیا جس کے پڑھنے کا لطف خط کے اندر ہی موجود ہے، تمہید ضروری نہیں:

اجمیر (انڈیا)،۵ ستمبر ۱۹۸۱ء

مکرمی جناب رضا علی صاحب، آداب

عرض یہ ہے کہ ماہ اکتوبر ۱۹۸۰کے ایک پیر کے روز میرا ایک خط آپ کے پروگرام انجمن میں نشر ہوا تھا، شاید آپ کو یاد ہوگا، میں نے بی بی سی سننے والے سبھی سامعین سے درخواست کی تھی کہ وہ میرے حق میں ﷲ تعالیٰ سے دعاکریں کہ وہ مجھے اولاد کی دولت عطا فرمائے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ﷲ تعالیٰ نے نہ جانے کس سامع کی دعا سے میری التجا قبول فرمائی اور 23اگست 81کو میرے گھر میں ایک چاند سی بیٹی پیدا ہوئی۔

میں ان سب کا بہت بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے حق میں دعا کی اور ساتھ ہی انجمن کا بھی جس نے میری مایوسیوں کو خوشی میں بدل دیا۔ میں نے اپنی بیٹی کا نام بی بی سی کی ایک اناؤنسر کے نام پر ہی رضوانہ رکھا ہے۔ امید ہے سامعین اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی دعا کریں گے۔

آپ کا عزیز سامع مشرف خاں ۔ شور گراں محلہ۔ اجمیر۔ راجستھان

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author