فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت نے ہر شے کی تخلیق میں کوئی نہ کوئی مصلحت رکھی ہے کوئی نہ کوئی خصوصیت رکھی ہے، جیسے آسمان کی وسعتوں پر اڑتے شاہین کو جب تخلیق کیا تو اس کو خود داری کی صفت عطا کی۔ شاہین کو تیز نگاہ بلند پرواز عطا کی۔ شاہین غیرت مند اور پلٹ کر جھپٹتے ہیں ۔ اسی لیے اقبال کی شاعری میں شاہین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اقبال کے اس تصور شاہین پر پاکستان کے بلند پرواز سر بکف مجاہدین افلاک مکمل اترتے ہیں۔ ہمارے شاہینوں کی پرواز میں ایسی سبک رفتاری ہے جو آسمانوں کو تسخیر کرتی ہے۔ اپنی جانوں کے نذرانے دیکر اپنی فضاؤں کو محفوظ بناتی ہے۔ دشمن کی ہر چال ناکام بنادیتے ہیں۔
اپنی طاقت کے نشے میں چور اکھنڈ بھارت خواب دیکھنے والے ہندو انتہا پسند ملک نے چھ ستمبر کی تاریکی میں واہگہ سیکٹر پر اچانک حملہ کیا اور یہ دعوی کرڈالا کہ اس کے فوجی ناشتہ لاہور میں کریں گے مگر چشم فلک نے جو دیکھا وہ تارٰیخ کی کتابوں میں ان مٹ نقش بن کر چھپ گیا کہ 1965میں ناشتہ کی آس والوں کو پاک فضائیہ کی شاہینوں نے2019 میں چائے پلاکر آن بان شان سے رخصت کیا۔
جنگ ستمبر میں فضائیہ کا کردارپاکستان کی تاریخ کے ابواب میں سنہری حروف میں لکھا گیا۔ شمن چاہے عددی لحاظ سے کتنا ہی خوقد طاقت ور سمجھتا ہو لیکن عزم و جہاد کی قوت کا مقابلہ دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں کرسکتی، جنگ صرف ہتھیاروں سے لڑنے کا نام ہی نہیں بلکہ بلند حوصلوں و عظیم جذبوں سے بھی مزین ہے، یہ سبق ہمیں ہماری پاک فوج بالخصوص پاک فضائیہ نے دیا۔آغاز جنگ پر ہی پا فضائیہ نے بھارتی فضائیہ پر اپنے جذبے کی بر تری ثات کردی جب سرگودھا سمیت پاکستان کی فضائی حدود میں 130ویمپائر طیاروں کو فوراَ بھاگنا پڑا۔ پاک فضائیہ کے پائلٹوں کا شمار دنیا کے بہترین پائلٹس میں ہوتا ہےچھ روزہ جنگ میں پاک فضائیہ کے ہوا بازوں (پائلٹوں) نے بھی حصہ لیا۔ پاکستانی ہوا باز اردن، مصر اور عراق کی فضائیہ کی جانب سے لڑے اور اسرائیلی فضائیہ کے 3 جہازوں کو مار گرایا جبکہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور اسرائیلی پیش قدمی رکنے کی سب سے بڑی وجہ قرار پائے۔ جنگ ستمبر میں پہلے پٹھان کوٹ پر حملہ کیا گیا جہاں 14 طیارے تباہ کر دیئے گئے، ایک حملہ ہلواڑہ کے ہوائی اڈے پر بھیجا گیا، فضا میں تین اور دس کا خون ریز معرکہ ہوا جس میں سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ خواجہ یونس حسن شہید ہو گئے۔ صرف فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری واپس آئے لیکن ان شاہبازوں نے دشمن کے چھ ہنٹر مار گرائے تھے۔اسی شام پاک فضائیہ کی ایک پرواز آدم پور بھیجی گئی اور تین بھارتی طیاروں کو تباہ کر آئی۔ پھر جام نگر کے ہوائی اڈے پر بمباری میں ڈہ ملبے کا ڈھیر بن گیا لیکن سکوارڈن لیڈر شبیر عالم صدیقی اور ان کا نیوی گیٹر سکوارڈن لیڈر اسلم قریشی واپس نہ آ سکے۔
اگلے روز بی 57 بمبار طیاروں نے آدم پور پر حملہ کیا اور خوب تباہی مچائی۔ بمباروں کی ایک اور پرواز پٹھان کوٹ بھیجی گئی تا کہ وہاں کی رہی سہی کسر پوری کر آئیں، یہی پرواز وہاں سے واپس آئی تو اپنے اڈے سے بم لے کر ہلواڑہ چلی گئی۔ بھارتی ائیر فورس جنگ کے پہلے ہی دن 22 بمبار لڑاکا طیاروں سے محروم ہو گئی۔ بھارتیوں نے کراچی اور پنڈی پر ہوائی حملے کیا مگر کسی بھی فوجی یا فضائی ٹھکانے کو نقصان نہ پہنچا سکی۔
سات ستمبر بھارتی ایئر فورس نے مشرقی پاکستان میں چاٹ گام، جیسور اور کرمی ٹولہ ڈھاکہ پر راکٹ اور بم گرائے لیکن کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فضائیہ کا صرف ایک سکوارڈن تھا، جونہی بھارتی طیارے واپس گئے۔ شاہین کلائی کنڈہ کے ہوائی اڈے پر جا جھپٹے، بھارت نے اپنے ان لڑاکا طیاروں کو بڑے قرینے سے کھڑا کر رکھا تھا جو مشرقی پاکستان پر حملہ کر کے لوٹے تھے۔ شاہبازوں نے ان تمام طیاروں کو زمین پر نذرِ آتش کر دیا۔اسی روز ہمارا ایک فلائنگ آفیسر افضال شہید ہوا اور دشمن 14کینبر ا اور 02 ہنٹر طیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ سات ستمبر کو دشمن نے پاک فضائیہ کے اڈے سرگودھا کی طرف بھرپور توجہ دی اور بمباری کے لئے اپنے طیاروں کو غول در غول بھیجا۔ ان میں سے چار مسٹر زمینی توپچیوں کے نشانہ بنے۔ ایک F104 سے گرایا گیا اور پانچ سکوارڈن لیڈر ”محمد محمود عالم“ نے صرف ایک منٹ کے عرصے میں گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس روز کے بعدبھارتی ایئر فورس نے دن کے وقت سرگودھا پر حملہ کرنے کی کبھی جرات نہ کی۔ پاک فضائیہ نے فاضلکا سیکٹر چوینڈہ سیالکوٹ، جسر اور لاہور سیکٹر میں بھی بری فوج کی مدد کے لئے طیارے بھیجے جنہوں نے کئی ٹینک اور گاڑیوں تباہ کیں۔
مقبوضہ کشمیر کے ہوائی اڈے پر بھی حملے کیے گئے جہاں تین مال بردار طیارے تباہ کیے۔پہلے صرف دو دنوں میں بھارتیوں کو ساٹھ طیاروں سے محروم کر دیا گیا۔ 8 ستمبر کو جب بھارت نے بکتر بند ڈویژن سے چوینڈہ سیالکوٹ پر حملہ کیا تو اس روز کم و بیش بیس پروازیں صرف اسی محاذ پر بھیجی گئیں جنہوں نے درختوں کی بلندیوں تک نیچے اڑ اڑ کر بھارتی ٹینک اور گاڑیوں تباہ کیں ورنہ لوہے اور آگ کے اس سیلاب کو روکنا آسان نہ تھا۔
پاک فضائیہ کے شاہینوں نے نہ صرف چونڈہ، سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر انڈین آرمی کے دستوں پر تباہ کن بمباری کی بلکہ دشمن کے ہوائی اڈوں، جودھپور، آدم پور، انبالہ، پٹھان کوٹ، ہلواڑہ، جام نگر اور دیگر کو کچھ اس طرح سے نشانہ بنایا کہ سولہ ستمبر تک انڈین ایئر فورس کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ دن کے وقت اس کا کوئی طیارہ نظر نہیں آتا تھا اور اب شاہینوں کو اپنا شکار ڈھونڈنے کے لئے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی تھی مثلاً ایم ایم عالم کو دریائے بیاس سے کافی دور جب دو ہنٹر نظر آئے تو انھوں نے بھارتی فضاؤں میں داخل ہو کر انھیں مار گرایا۔
امرتسر کے قریب فلائیٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان نے ایک نیٹ مار گرایا۔انیس ستمبر کو چونڈہ میں جو نیٹ گرایا گیا، اس کے پائلٹ مہا دیو کو گرفتار کر لیا گیا۔ اکیس ستمبر کو ایک اور انڈین ہوا باز ”موہن لال“ کے جہاز کو گرا کر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ ج
نگ کے آخری روز کھیم کرن کی فضا میں بھارتی طیارہ تباہ کی گیا جس کا پائلٹ ہندوستان کے پہلا کمانڈر انچیف جنرل کری اپا کا بیٹا تھا۔ اس کا پائلٹ جونیئر کری اپا قیدی بنا لیا گیا۔ بائیس اور تیئس ستمبر کی درمیانی شب صبح تین بجے جنگ بندی ہو گئی۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل نور خان کا کہنا تھا کہ ”بھارت سے جنگ لڑنے کے بعد پاک ایئر فورس پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گئی ہے“۔ انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ”جنگ کے دوران میرے سامنے مسئلہ یہ نہیں تھا کہ پاک ہوا بازوں کو کیسے حملے کے لئے بھیجوں بلکہ دشواری یہ پیش آ گئی تھی کہ انھیں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کرنے سے کیسے روکوں“۔
بہرحال فضائی جنگ کا سکور یہ رہا کہ دشمن کے ایک سو دس طیارے مار گرائے گئے جن میں سے 35کو فضائی معرکوں میں گرایا گیا، 45کو زمین پر تباہ کیا گیا اور بتیس زمینی توپچیوں کا نشانہ بنے۔ یاد رہے کہ ان اعداد و شمار میں بھارت کے وہ پچیس طیارے شامل نہیں جو ایک امریکی نامہ نگار کے مطابق انبالہ کے ہوائی اڈے پر تباہ کیے گئے۔ اس طرح بھارت کے تباہ شدہ جہازوں کی تعداد135 بنتی ہے۔
شاہینوں نے150 ٹینک، 600 فوجی گاڑیاں اور گولہ بارود سے بھری 4 بھارتی ٹرینیں اور سو کے قریب توپیں تباہ کیں۔ در اصل حقیقی اعداد و شمار تو اس سے کہیں زیادہ ہیں لیکن پاک فضائیہ نے دشمن کی صرف اس تباہی کو اپنے ریکارڈ میں لکھا ہے جس کی دستاویزی گواہی حاصل ہوئی ہے۔ دیگر ذرائع تو دشمن کا نقصان اس سے دگنا بتاتے ہیں۔7 بھارتی ہوا بازوں کا جنگی قیدی بنایا گیا اور ایک جہاز کو صحیح سلامت اتار کر قبضے میں لیا گیا جسے سکوارڈن لیڈر برج پال سنگھ اڑا رہا تھا۔
پاک فضائیہ کے 14طیارے ضائع ہوئے۔ ان میں سے نو فضائی معرکوں، چار زمینی فائر اور ایک دشمن کی بارود سے بھری ریل گاڑی پر حملہ کرتے ہوئے اس ریل گاڑی کے بارود پھٹنے سے تباہ ہوئے۔ یہ دشمن کی فرضی طاقت کے سامنے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، دنیا کے تسلیم کیا کہ پاک فضائیہ زمینی، بحری اور فضائی سرحدوں کی ناقابل تسخیر نگہبان ہے۔ 1965 میں انڈین ایئر فورس کے وائس چیف آف ایئر سٹاف ”پی سی لال“ کے مطابق ”انڈین ایئر فورس کے اس وقت کے سربراہ ایئر مارشل ارجن سنگھ اور بھارتی آرمی کی قیادت کے مابین باہمی رابطے کا خطرناک حد تک فقدان تھا۔ ایک اور مغربی مبصر ”فرینک مورس“ نے ستمبر 1965 کے آخری ایام میں اپنے تبصرے میں کہا تھا کہ”بھارتی فضائیہ کا سربراہ ارجن سنگھ بھارتی فضاؤں اور اپنی ایئر فورس کے تحفظ میں پوری طرح ناکام رہا“۔
جنگ ستمبر میں پاکستان کی فتح پر آخر کیوں نا فخر کیا، شاہینوں نے ثابت کیا کہ وہ ملک و قوم کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے اور ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر