نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان نہیں مردانستان||عاصمہ شیرازی

قصور تین ماہ کی فراک میں ملبوس بچی کا ہے اور قصور قبر میں لیٹی اُس عورت کا جو تمام عمر اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرتی رہی مگر نہیں جانتی تھی کہ قبر کی مٹی میں بھی اُس کے ٹھنڈے گوشت کو بھنبھوڑنے والے بھیڑیے موجود ہیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا جسم میری مرضی کے نعرے پر بِلبِلا اُٹھنے والے سارے مرد دیکھ لیں کہ عورت کے جسم پر کس کی مرضی ہے؟ اس نعرے کے خلاف میدان میں اُترنے والوں کو مینار پاکستان کے مناظر سے کافی اطمینان اور خوشی نصیب ہوئی ہو گی کہ اُن کے پیروکاروں نے کس طرح عورتوں کے جسم پر اپنی مرضی کے بھنگڑے ڈالے، آزادی کے جشن میں کس طرح روحوں کو پامال کیا۔

ہم منتظر تھے کہ بے حیائی پھیلاتے اشتہاروں، سُرخی پاؤڈر کے بل بورڈوں، رقص و سرود کی محفلوں پر تنقید کرتے مفتی حضرات ان بھنبھوڑتے، نوچتے انسان نما جانوروں پر فتوے لگاتے، مگر اس بار بھی موردِ الزام مکمل کپڑوں میں ملبوس ٹک ٹاکر ہی ٹھہری کیونکہ قصور تو اُسی کا تھا جو مینار پاکستان کے سائے تلے صرف مردوں کے پاکستان میں آزادی کی چند سانسوں کا جشن منانے چلی گئی۔

قصور چنگ چی رکشے میں بیٹھنے والی اُن لڑکیوں کا ہے جو ریاست مدینہ میں چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے محوِ سفر تھیں کہ اُس کی آزادی روند کر منھ پر مردانگی کی مہر لگا دی گئی۔ قصور موٹر سائیکل پر بیٹھی برقعے میں ملبوس اُس لڑکی کا ہے جسے اُس کے نگران کی موجودگی میں بھنبھوڑ ڈالا گیا۔

قصور اُس ماں بیٹی کا بھی تھا جو رکشے پر گھر جانے کے لیے نکلیں مگر راہ میں درندگی کا نشانہ بن گئیں کیونکہ اُن کے جسم پر اُن کی مرضی نہیں کسی شہ زور کا اختیار ہے۔ قصور اُس سولہ سالہ لڑکی کا ہے جو مفتی صاحب کو اسلام کا چوکیدار سمجھ بیٹھی اور ہوس کا نشانہ بن گئی۔

قصور تین ماہ کی فراک میں ملبوس بچی کا ہے اور قصور قبر میں لیٹی اُس عورت کا جو تمام عمر اپنی پاکیزگی کی حفاظت کرتی رہی مگر نہیں جانتی تھی کہ قبر کی مٹی میں بھی اُس کے ٹھنڈے گوشت کو بھنبھوڑنے والے بھیڑیے موجود ہیں۔

کیوں نہ پاکستان کے آئین میں لکھ دیا جائے کہ یہ ملک صرف مردوں کی آزادی کے لیے حاصل کیا گیا ہے؟ کیوں نہ آئین پاکستان میں شقیں ڈال دی جائیں کہ خبردار عورتیں باہر نکلنے پر نتائج کی ذمہ دار خود ہوں گی؟ کیوں نہ تعزیر لگا دی جائے کہ خواتین مرضی کے سانس لینے پر سنگسار کر دی جائیں گی۔

کیوں نہ پابندی عائد کر دی جائے کہ عورتوں کے نام قبروں کے کتبوں سے ہٹا دیے جائیں، اُن کے سماجی میڈیا پر بات کرنے پر، ٹی وی پر آنے پر، دفتروں میں جانے پر، تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے، اب آخر ٹک ٹاکر لڑکی کے واقعے کے بعد ٹک ٹاک بنانے اور پارکوں میں جانے پر پابندی تو عائد ہو ہی جائے گی۔

خواتین

،تصویر کا ذریعہEPA

کیوں نہ وطن عزیز کا نام ہی پاکستان سے تبدیل کر کے مردانستان رکھ دیا جائے؟

یقین مانیے کہ نو دن گُزر جانے کے باوجود اس تصور سے رُوح کانپ جاتی ہے کہ اُس لڑکی پر کیا گزری ہو گی جسے فُٹ بال کی طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی جانب اچھالا جا رہا تھا۔

ہوسناکی اور مردانگی کی فخریہ طور پر بنائی گئی ویڈیوز دیکھ کر اندازہ ہو جانا چاہیے کہ معاشرے میں عورت کو جینے کا کوئی حق نہیں۔

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح ان واقعات کے بعد عورتوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے کہیں ملک بھر کی جیلیں عورتوں سے ہی نہ بھر جائیں کیونکہ وہ اور صرف وہی دعوت گناہ کی مظہر ہیں۔ وہ وقت دور نہیں کہ جب عورتوں کی قبروں کے محافظوں کا الگ شعبہ بنانا پڑے اور کتبوں پر عورتوں کے نام لکھنے کے بجائے صرف نشانیاں ہی لکھی جائیں۔

About The Author