میر احمد کامران مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان کی پہچان گرد وگرماگداو گورستان بتانے والے غالباً ملتان کو ایک مخصوص اور محدود نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملتان تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لحاظ سے خطے میں موجود دیگر تمام علاقوں سے ممتاز اور منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ ملتان کا ایک مخصوص سیکولر قسم کامذہبی اور ثقافتی مزاج ہے جس میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ملتان کے لوگوں کی مذہبی رواداری نے ملتان میں نئی سماجی روایات کو جنم دیا ہے۔ملتان کی انفرادیت کے بے شمار پہلو ہیں جن میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہندوؤں کے سب سے بڑے مذہبی تہوار ہولی کا آغاز بھی اسی سرزمین سے ہوا۔ ملتان میں واقع سورج کنڈ کا مندر اس عظیم مذہبی رسم کے آغاز کی کھلی شہادت فراہم کرتا ہے(اس تاریخ ساز مندر سے تجاوزات کا خاتمہ کرکے اس کی اصل حالت میں بحالی کے بعد دنیا بھر سے ہندو زائرین کو اس جانب متوجہ کرکے ٹوؤرازم کے ذریعے کثیر زر مبالہ کمایا جا سکتا ہے)۔ اس کے علاوہ یہاں اولیاء کرام کی ایک کثیر تعداد کا یہاں آنا اور پھر باقی ماندہ زندگی اسی سر زمین میں پیامِ امن و محبت دیتے ہوئے بسر کرنا بھی ملتان ہی کا طرۂ امتیاز تسلیم کیا جاتا ہے۔ ملتان کی کپاس، ملتان کی گندم،ملتان کے آم،ملتانیوں کی تحمل مزاجی، شیریں زبانی اور بردباری نے اس مدینۃ الاولیاء کو کرۂ ارض کا سب سے پیارا اور میٹھا شہر ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ میرے شہرکی ان بے بہا خوبیوں میں ایک اور خوبی یہاں کی محافل نعت، محافل عزاداری، محافل سوز خوانی و نوحہ خوانی ، عاشورہ محرم والے دن تعزیہ بردار ماتمی جلوسوں کا پرامن انداز میں برآمد ہونا اور اختتام پذیر ہونابھی شامل ہے۔ملتان کی تعزیہ داری اس لئے بھی منفرد ہے کہ یہاں شیعہ اور سنی ملکر شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں۔ عاشورہ محرم کے احترام میں تقریباً سارا شہرتعزیوں، ذوالجناح اور علم کے جلوسوں میں شریک ہوتا ہے ۔جن میں زیادہ تر زائرین ہی ہوتے ہیں ۔ مسلکی تفریق سے بالا تر ہو کر منایا جانے والا یہ تہوار مذہبی کے ساتھ ساتھ ثقافتی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں عاشورہ والے دن تقریباً ایک سو سے زائد تعزیوں کے جلوس نکلتے ہیں۔تعزیہ داری کے لحاظ سے ملتان لکھنؤ کا ہم پلہ تصور ہوتا ہے۔ ملتان میں تعزیہ داری کی ابتداء اورارتقاء پر ایک نظر ڈالنے کیلئے ہمیں تاریخ کے جھروکے میں جھانکنا ہوگا۔
تعزیہ داری کا تاریخی و ارتقائی سفر:
بر صغیر میں تعزیہ داری کے کچھ ثبوت ہمیں تغلق عہد سے ملتے ہیں مگر اس کا باقاعدہ آغاز 803ہجری کے لگ بھگ امیر تیمور کے دور میں ہوا۔ امیر تیمور چنگیز خاں کی نسل سے تعلق رکھنے والاایک ترک نژاد فاتح وحکمران تھا جس نے لگ بھگ بیالیس ممالک کو زیر ِ نگیں کیاہوا تھا۔اس کے بعد آل تیمور یعنی مغلیہ عہد میں عزاداری کو وسعت ملی اور ریاستی سرپرستی میں اس کا فروغ ہونے لگا۔شہنشہاہ جہانگیر کی ایرانی نژاد ملکہ مہر النساء عرف نور جہاں کو اس سلسلے میں خصوصی شہرت حاصل ہے۔ عزاداری اور تعزیہ داری کے فروغ میں نوابین اودھ و لکھنؤکا بھرپور کردار نظر آتا ہے۔ ابتداً تعزیئے مٹی سے بنائے جاتے تھے پھر کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں کو تعزیہ سازی میں استعمال کیا جانے لگا۔رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں لکڑی ،کاغذ اور گتے کا استعمال ہونے لگا۔ اس ارتقائی سفر میں ہمیں موم کے تعزیئے، صندل کی لکڑی کے تعزیئے، جو اور چاول کے تعزیئے، مور کے پروں کے تعزیئے، سنگ مرمر کے تعزیئے، ابرق اور پھلوں سے تیار کئے جانے والے تعزیئے بھی نظر آتے ہیں۔ یوں تعزیہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا موجودہ شکل تک پہنچا ہے۔ اور آج کل تعزیوں کی تیاری میں سٹیل اور شیشے کا استعمال بھی بکثرت ہو رہا ہے۔حال ہی میں ریموٹ کنٹرول فولڈنگ تعزیئے بھی متعارف ہونے لگے ہیں۔ یہ اعزازبھی ملتان کا ہے ۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے آصف شاہ نے 2009ء میں دنیا کا پہلا فولڈنگ تعزیہ تیار کیا اور پھر اسے 143گ ب سمندری فیصل آباد لے گئے جہاں پر یہ ہر خاص و عام کی زیارت کیلئے رکھا جاتا ہے۔ ارتقاء کا یہ سفر کہاں جا کر رکے گا کچھ کہنا مشکل ہے۔ تعزیوں کی اتنی بے شمار ورائٹی میں ملتان کے تعزیوں کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ دنیا بھر میں کسی دوسری جگہ کے تعزیوں کو حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ ان میں استاد و شاگرد کے تعزیوں کو بے مثال اور لافانی لیڈنگ رول حاصل ہے۔
ملتان میں تعزیہ داری کا آغاز:
ملتان میں حضرت شاہ یوسف گردیزؒ کو اعزاء داری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔آپ 1088ء میں ملتان تشریف لائے ان کی آمد کے ساتھ ہی ملتان میں اعزاء داری کا آغاز ہوا۔ شاہ یوسف گردیزؒ کی موجودہ امام بارگاہ سے متصل ایک گھر جو وڈٖا گھر کے نام سے معروف تھا اس میں یہ مجالس اعزاء برپا کی جاتی تھیں۔اسی طرح امام بارگاہ حضرت شاہ شمس سبز واریؒ بھی مجالس اور ماتم کا مرکز تصور ہوتا تھا اسے تقریباً 400سال قدیم بتایا جاتا ہے۔ملتان میں حضرت شاہ شمس ؒکی آمد کے ساتھ ہی آستانہ خلیفہ واحد بخش المعروف ناصرہ آبادجھک اندرون پاک گیٹ کے بزرگ بھی تشریف لے آئے اور یہاں پر امام باڑہ کی بنیاد رکھی۔ ملتان میں ابتداًاعزاداری امام بارگاہوں تک محدود تھی۔دیوان ساون مل (1820ء) ملتان کا حکمران تھا اسکے زمانے میں مخدوم سیّد لعل شاہ ؒملتان تشریف لائے اور باقاعدہ تعزیہ داری کی بنیاد رکھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملتان میں پہلا باقاعدہ آستانہ پیر لعل شاہ موسوی المشہدی (جو حضرت شاہ عبدالطیف امام برّیؒ کے آخری سجادہ نشین تھے) نے تعمیر کروایا۔ اس کے بعد دوسرا بڑا نام گردیزی خاندان کے معروف زمیندار سیّد حامد گردیزی کا ہے جنہوں نے 1887ء میں باقاعدہ امام بارگاہ بنوائی۔ رفتہ رفتہ امام بارگاہوں سے یہ جلوسوںکی صورت میں باہرآنے لگے تو اس پر ہندوؤں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ عاشورۂ محرم کے موقع پر ہندوؤں کی جانب سے تعزیہ کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ احتجاج کے طور پر تین دن تک زیارتیں سڑک پر پڑی رہیں۔ اس موقعہ پر شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ فریقین یعنی ہندو مسلم میں تناؤ بڑھنے لگااور قریب تھا کہ فساد فی الارض پھیل جائے۔ ایسے میں دربارحضرت موسیٰ پاک شہید سے مخدوم صدر الدین گیلانی ؒ گھوڑے پر سوار نموادار ہوئے اور غصے سے کہا ’’ہونہہ‘‘۔! ان کا یہ کہنا تھا کہ دونوںفریق پسپا ہونے لگے۔ اس وقت سے یہ روایت بن گئی کہ دربارحضرت موسیٰ پاک شہید سے مخدوم صاحبان ہی استاد کے تعزیئے پر جاکر خصوصی دعا کرواتے ہیں اوریہ روایت آج بھی قائم ہے۔ اس کے بعد یہ تعزیہ جلوس کو لیڈ کرتا ہوا کارروان کو آگے لیکر بڑھتا ہے۔ اور اس کے بعد شاگرد کا تعزیہ، پھرمحلہ ماتم واہ سے واحد بخش المعروف فقیروں والا تعزیہ اور پھر یکے بعد دیگرے اٹھارہ تعزیئے پاک گیٹ چوک پہنچتے ہیں۔مذکورہ ہندو مسلم تناؤ کے بعد انگریز حکومت نے 1845ء میں تعزیوں کے باقاعدہ لائسنس اور ان کے روٹ کا تعین اور جلوس کے آغاز و اختتام کا وقت مقرر کر دیاتھا جس پر آج تک عمل درآمد کیا جاتا ہے
ملتان کے معروف آستانے:
تاریخی مقام اور مرتبے کے لحاظ سے ملتان کے معروف آستانوں کی تفصیل:
امام بارگاہ شاہ یوسف گردیز ؒ (اندرون بوہر گیٹ)، امام بارگاہ سیّد پیر لعل شاہ ؒ (عقب تھانہ چہلیک قدیر آباد) ، امام بارگاہ شاہ شمس ؒ (نزد علی چوک باوا صفرا روڈ)، امام بارگاہ ناصر آباد جھک (اندرون پاک گیٹ) ، امام بارگاہ زینبیہ (محلہ حسین آباد سوتری وٹ، یہ امام بارگاہ اپنے طرز تعمیر اور کنندہ کاری کے باعث انتہائی دلکش اور خوبصورت ہے)، آستانہ اُستاد والا (محلہ قاضی جلال کپڑی پٹولیاں اندرون پاک گیٹ)، آستانہ شاگرد والا (کارنر برجی النگ خونی برج)، آستانہ نو گزی قبر(اندرون بوہر گیٹ)، آستانہ کپڑی پٹولیاں جان محمد نمبر 1، جان محمد نمبر 2 (اندرون پاک گیٹ)، امام بارگاہ آستانہ سیّد حامد شاہ (محلہ گیلانیہ نزددربار موسیٰ پاک شہید اندرون پاک گیٹ)، امام بارگاہ حیدری کمیٹی (محلہ شاہ شکور اندرون دولت گیٹ)، امام بارگاہ کاشانہ شبیر لال کرتی (ملتان کینٹ)، امام بارگاہ حیدری (ممتاز آباد)،امام بارگاہ حیدریہ گلگشت کالونی، آستانہ فضل شاہ (سورج میانی)، امام بارگاہ جواد محل المعروف جوادیہ(اندرون دہلی گیٹ)، امام بارگاہ سیدمیر شاہؒ (محلہ تھلہ سادات بیرون دہلی گیٹ)، آستانہ پیر عنایت ولایت(اندرون حرم گیٹ)، امام بارگاہ سیّد عظیم شاہ (بیرون دہلی گیٹ)، امام بارگاہ حسین آباد المعروف آستانہ کاشی گراں(نزد دولت گیٹ)، امام بارگاہ یادگار حسینی مولوی اختر حسین والا(نزد چاہ مراد شاہ بیرون حرم گیٹ)،امام بارگاہ حسن بخش کمتر (نزد گل روڈ بیرون حرم گیٹ)، امام بارگاہ حسینی آستانہ حاجی والا (بھیڈی پوترہ نزد چوک شہیداں دربار حاجی شاہ بخاریؒ )، امام بارگاہ اللہ داد والا (بیرون پاک گیٹ محلہ جنڈی ویڑہ ٹبی کٹانیہ،امام بارگاہ واحد بخش والا(محلہ ماتم واہ نزد پل نقشبنداں بیرون پاک گیٹ)، امام بارگاہ درکھانہ والا (کڑی داؤد خان بیرون پاک گیٹ)، امام بارگاہ چنبہ شاہ(محلہ پیر گوہر سلطان نزد دربار بابا خیر شاہ بیرون دہلی گیٹ)، امام بارگاہ رمضان والا(محلہ آغا پورہ بیرون دہلی گیٹ)، امام بارگاہ و آستانہ سلطان والا(محلہ پیر کالو شاہ قصاب پورہ بیرون خونی برج)، آستانہ وارث شاہ(اندرون حسین آگاہی محلہ کمنگراں) ،امام بارگاہ ہیرا حیدری (وہاڑی روڈ نزد مسجد جعفریہ)، امام بارگاہ خلاصی لائن( نزد دولت گیٹ محلہ کھوکھراں)، امام بارگاہ لودھی پورہ عبداللہ والا (گل روڈ بیرون پاک گیٹ)، امام بارگاہ کوڑے شاہ والا، امام بارگاہ (جعفریہ محلہ باغ بیگی)، آستانہ بہادر شاہ، آستانہ تجل شاہ، آستانہ ابراہیم شاہ،آستانہ انجمن یادگار حسینی بوہر گیٹ المعروف حویلی مرید شاہ، امام بارگاہ مہاجرین (محلہ شاہ مہنگرا اندرون لوہاری گیٹ)، امام بارگاہ کوٹ قاسم، امام بارگاہ شیر شاہ، امام بارگاہ کالے منڈی، آستانہ بی بی پاک دامن والا، آستانہ عبداللہ والا (بستی دائرہ)اورآستانہ قاسم بیلہ وغیرہ۔(اگر کسی امام بارگاہ کو ذکر نہیں کرسکا مومن بھائی ناراض ہونے کی بجائے اس کی نشاندہی فرمادیں تاکہ اس تحقیق کو اپ ڈیٹ کیا جا سکے)۔
تعزیوں کے روٹ اور حکومتی اقدامات:
چوک خونی برج پاک گیٹ اور حرم گیٹ پرتعزیوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔یوم ِ عاشور کو استاد کا تعزیہ تقریبا ساڑھے بارہ بجے پاک گیٹ چوک پہنچتا ہے۔اس کے بعد شاگرد کا تعزیہ اورپھر محلہ ماتم واہ سے واحد بخش المعروف برخورداار والا تعزیہ ماتمی جلوس کے ساتھ پاک گیٹ پہنچتا ہے ۔ یہ تعزیئے جلوس کی شکل میں حرم گیٹ جاتے ہیں تو وہاں ان سے پہلے بھیڈی پوترا کا تعزیہ موجود ہوتا ہے۔ اس طرح خونی برج سے حرم گیٹ چوک کے درمیان تقریباً اٹھارہ تعزیوں کے جلوس نمودار ہوتے ہیں۔ ان جلوسوں کے ساتھ ماتمی سنگت، نوحہ خوانوں کی ٹولیاں ،ذولجناح اور علم کی زیارتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔تعزیوں کے روٹس پر پیچ ورک کا کام محرم کا چاند نظر آتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔عاشورہ والے دن کارپوریشن کی طرف سے جلوس کے راستے میں ریت کی ایک تہہ بچھائی جاتی ہے اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ ننگے پاؤں چلنے والے زائرین کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ضلعی حکومت کی طرف سے تھانہ حرم گیٹ کے احاطے میں مانیٹرنگ سیل بنایا جاتا ہے جس پر ضلع بھر کے انتظامی افسران اور عوامی نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماتمی حضرات کو کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کا سامنا ہونے کی صورت میں فرسٹ ایڈ کی سہولت بھی بہم پہنچائی جاتی ہے ۔ جلوس کے روٹس میں جگہ جگہ ٹھنڈے پانی ، دودھ اور شربت کی سبیلوں کے علاوہ چاول، حلیم دال روٹی وغیرہ کی خیرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ حرم گیٹ سے تعزیوں کا یہ جلوس شاہ رسال روڈ سے ہوتا ہوا بذریعہ سٹی سٹیشن ریلوے پل بی بی پاک دامن پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ان تعزیوں کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت کے لائسنسدار سنی العقیدہ مسلمان ہیں۔الغرض عاشورہ محرم کے دن کی یہ سرگرمیاں شیعہ سنی اتحاد کا عظیم مظہر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔بہشتی دروازہ دربارحضرت موسیٰ پاک شہید ؒپاک گیٹ:دربارحضرت بابا فریدؒ پاکپتن کے بہشتی دروازہ کے بارے میں تو ہر خاص و عام کو علم ہے۔ کیونکہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے اس کو ہمیشہ فوکس کیا جبکہ اس کے برعکس دربارحضرت موسیٰ پاک شہیدؒ کا بہشتی دروازہ ہمیشہ میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اس وجہ سے وہ پذیرائی حاصل نہ کر سکا جو اس کو ملنی چاہے تھی۔ نو محرم کو بعد نماز عشاء اس دروازہ کو کھولا جاتا ہے اور رات گئے تک اس میں سے ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن و بچے گزرتے ہیںاور دس محرم کو بھی یہ دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دروازہ عیدین کے موقع پر بھی کھولا جاتا ہے۔
تعزیوں کاایک اور بڑا اجتماع دولت گیٹ پر ہوتا ہے۔ امام بارگاہ حسین آباد کا جلوس چوک دولت گیٹ موجود ہوتا ہے اسی اثنا میں امام بارگاہ کوڑے شاہ کا جلوس دولت گیٹ پہنچ جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں اصلاح بزم مہدی کے زیر اہتمام گڑھ مہاراجہ کا ماتمی حلقہ تلواروں سے ماتم کرکے غم حسین کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اسی تنظیم کے تحت ہی نو محرم کی رات چوک دولت گیٹ میں ایک بڑا علم نصب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ماتمی جلوس نو اور دس محرم کی رات کو بارہ بجے خلاصی لائن سے شروع ہوکر دربار حضرت شاہ شمس ؒ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔یوم عاشور کو شب ایک بجے حیدری کمیٹی سے شفقت بھٹہ مرحوم کی زیر قیادت ایک جلوس روانہ ہوتا تھا۔اب ان کے فرزند خاور حسنین بھٹہ کی زیر قیادت یہ جلوس النگ دولت گیٹ سے دلی گیٹ پہنچنے پر ایک گھنٹہ توقف کرتا ہے۔یہاں پر لنگر کا وسیع انتظام ہوتا ہے۔اس کے بعدیہ جلوس دربار شاہدنہ شہید سے ہوتا ہو باغیچی مرزا جان ،محلہ کمہاراں اور پھر شاہ شکور حیدری کمیٹی پر پہنچتا ہے اور صبح اذانوں سے پہلے زنجیر زنی کے بعد یہ جلوس اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔نو محرم کو ممتاز آباد امام بارگاہ سے 12بجے دن ایک جلوس روانہ ہوتا ہے۔ یہ زنجیر بردار ماتمی جلوس مین مارکیٹ سے ہوتا ہوا اَکی بھائی کے گھر کو کراس کرکے قدیمی مسجد کے راستے چھ بجے تک دوبارہ امام بارگاہ ممتاز آباد پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ دس محرم کوایک اور بڑا جلوس امام بارگاہ لعل شاہ ؒ سے شروع ہوکر کچہری روڈ گھنٹہ گھر اور پرانا خانیوال اڈا سے ہوتا ہوا کربلا شاہ شمسؒ پہنچتا ہے۔اس جلوس میں مرد اعزا داروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔ سورج میانی جو اعزا داری اور تعزیہ داری کا سب سے بڑا مرکز تصور ہوتا ہے وہاں سے نو محرم کی رات کو ایک مرکزی جلوس دربار سخی سلطان علی اکبر سے روانہ ہوتا ہے، سیّد احمد کبیر ماڑی سے ملتان کے سب سے بڑے بیڑے کا شبیہ بردار جلوس اس جلوس میں شامل ہوتا ہے۔یہ مرکزی جلوس پل واصل سے ہوتا ہوا واپس جعفریہ بازار امام بارگاہ شیر شاہ آجاتا ہے۔ یہاں پر یہ جلوس صبح چار بجے تک ٹھہرتا ہے۔دس محرم والے دن یہ جلوس علمدار چوک عثمانیہ بازار امام بارگاہ کربلا میں پہنچتا ہے اور بوقت مغرب اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے ایک اور جلوس صبح نو بجے امام بارگاہ شاہ جمال سورج میانی سے ہوتا ہوا علمدار چوک عثمانیہ بازار سے روانہ ہوکر تقریباً ایک بجے کربلا پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ملتان کا سب سے لمبے روٹ والا جلوس امام بارگاہ سوتری وٹ سے نکل کر حسن پروانہ روڈ سے بذریعہ ایم ڈی اے روڈ سورج میانی دربار سخی سلطان پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔9محرم کی شام چوک کمہاراں والاسے تعزیہ کا جلوس ڈیرہ سادات (اسد عباس شاہ) سے روانہ ہوتا ہے اور امام بارگاہ ابوالفضل عباس تک پہنچتا ہے جہاں رات بھر یہ تعزیہ زیارت کیلئے رکھا جاتا ہے اوردس محرم کو بعد نماز ظہر یہاں سے جلوس کی شکل میں چوک کمہاراں والا پہنچتا ہے۔زنجیر زنی کے بعد شام چھ بجے یہ جلوس اختتام پذیر ہوتا ہے۔ امام بارگاہ حیدریہ گلگشت کا مرکزی جلوس 7محرم کو 2بجے امام بارگاہ حیدریہ سے برآمد ہوتا ہے۔ گول باغ کی طرف جاتے ہوئے تین بجے مبین مارکیٹ نزد پیپل زنجیر زنی ہوتی ہے بعد ازاں گول باغ سے چکر لگا کر واپس یہ جلوس امام بارگاہ پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے جبکہ دس محرم کی شب یہاں خواتین کی شام غریباں کا اہتمام ہوتا ہے۔دس محرم کو کالونی ٹیکسٹائل مل سے تعزیہ بردار جلوس برآمد ہوتا ہے اور بیت الحسین کوٹھی راجن شاہ پر قیام کرتا ہے اور پھر تھلہ اماماں والاپل مظفر آبادشیر شاہ روڈ پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ امام بارگاہ جھک سے نکلنے والا ماتمی جلوس مسجد ولی محمد پھول ہٹ سے ہوتا ہوا لکڑ منڈی کے راستے امام بارگاہ معصومین پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ محلہ جوادیہ سے نکلنے والا جلوس النگ دلی گیٹ سے برآمد ہوکر ایک بجے دلی گیٹ پہنچتا ہے یہاں سے بذریعہ دولت گیٹ کربلاشاہ شمس پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے مغرب کا وقت ہو چکا ہوتا ہے۔جوادیہ میں شام غریباں کی مجلس کو باقاعدہ پرفارم کیا جاتا ہے ۔ جبکہ امام بارگاہ عبداللہ شاہ لودھی پورہ سے نکلنے والا خواتین کاتعزیہ بردار ماتمی جلوس نشاط روڈ سے ہوتا ہوا کربلا شیدی لعل پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔اس جلوس میں خواتین کی کثیر تعداد شامل ہوتی ہے جبکہ یہ تعزیہ طرز تعمیرکے لحاظ سے شاگرد کے تعزیئے سے ہو بہو مشابہت رکھتا ہے۔
ملتان کے تعزیوں کی بناوٹ اور طرز تعمیر:
ملتان کے تعزیئے اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ دقیق قسم کے فن چوب کاری نے ان تعزیوں کو شاہکار بنا دیا ہے۔ لکڑی کے دستی خراد کا اس ماہرانہ انداز میں استعمال شاید ہی کہیں دیکھنے کو مل سکے جو مذہبی عقیدت و احترام کیساتھ ساتھ دستکاروں کی فنکاری کا غماز بھی ہے۔ تعزیوں میں بنائے گئے ستون محرابیں ، نقش کاری، مینا کاری، گلاس ورک و دیگر سامان آرائش ان کو دنیا بھر میں منفرد اور بے مثال بناتے ہیں۔ ان تعزیوں میں جو مقام اور مرتبہ استاد اور شاگرد کے تعزیوںکو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں مل سکا۔ استاد کے تعزیئے کو بنے ہوئے 193سال ہو گئے ہیں ۔ استادکا تعزیہ 1825ء میں منظر عام پر آیا جس کے پہلے لائسنسدار محمد ماہی تھے جبکہ موجودہ لائسنسدار خلیفہ الطاف مرحوم کے فرزند ہیں۔اس تعزیئے کو استاد پیر بخش نے تیار کیا جبکہ ان کے شاگرد محکم دین ان کی معاونت کرتے تھے جنہوں نے شاگرد کا تعزیہ بنایا۔ استاد کے تعزیئے کی اونچائی 27فٹ بلند جبکہ چوڑائی 8فٹ مربع ہے۔اس کی چھ منزلیں ہیں ۔ہر منزل ساگوان کی لکڑی کے ٹکروں کو ملا کر بنائی گئی ہے۔اس تخلیق کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پوری زیارت میں ایک بھی سٹیل کی میخ استعمال نہیں کی گئی ہے بلکہ لکڑی کے مختلف حصوں کو اس مہارت سے جوڑا گیا ہے کہ دیکھنے والا نہ تو کوئی جوڑ محسوس کرتا ہے نہ ہی کوئی جھول۔ منی ایچر میں بنے ہوئے محراب، جھروکے ، گنبد اور مینار ملکر صناعی کاایک شاہکارتخلیق کرتے ہیں۔ اسے اٹھانے کیلئے سو کے لگ بھگ آدمی درکار ہوتے ہیں۔اسی طرح شاگرد کے تعزیئے کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اس کو مستری الٰہی بخش نے تعمیر کیا تھا جو استاد پیر بخش کا شاگرد تھا۔
روایت بیان کی جاتی ہے کہ الٰہی بخش دن کو استاد کے ساتھ مل کر تعزیہ بنواتا اور رات کو کسی خفیہ مقام پر اپنا تعزیہ بنانے میں مصروف رہتا۔ یہ سلسلہ دس سے پندرہ سال چلتا رہا اور یوں بیک وقت تاریخ کے دو ماسٹر پیس تیار ہوئے جنہوں نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے تخلیق کاروں کو اَمر کر دیا۔ شاگرد کا تعزیہ 25فٹ بلند جبکہ ساڑھے آٹھ فٹ چوڑا ہے۔اس کی بھی چھ منزلیں ہیں۔1944ء میں پر اسرار طور پر شاگرد کا تعزیہ جل کر راکھ ہو گیا ۔ اس کے بعد یہ موجودہ تعزیہ تیار کیا گیا جسکی تیاری میں مشین کا استعمال نظر آتا ہے۔استاد کے تعزیئے کی طرح شاگرد کا تعزیہ بھی فن اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شاگرد کے تعزیئے کے لائسنسدار کا نام غلام محبوب ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یوم عاشور کو ملتان شہر میں ذوالجناح ، علم اور تعزیوں کے لگ بھگ چار سو سے کے قریب ماتمی جلوس نکلتے ہیں۔جن میں سے نمایاں حیثیت رکھنے والے جلوسوں کی تفصیل بیان کر دی گئی جبکہ دیگر جلوس جو کسی نہ کسی مقام پر آکر مرکزی جلوسوں میں شامل ہو جاتے ہیں ان کی تفصیل مضمون کی طوالت کے پیش ِ نظر حذف کر دی گئی۔ شہر میں سنی اکثریت کے باوجود اتنی وسیع پیمانے پر ہونے والی شیعہ سرگرمیوں میں کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعہ کا نہ ہونا دراصل ملتان کے لوگوں کی مذہبی لحاظ سے وسعت ِ قلبی اور فرغ دلی کا عظیم مظہر ہے۔ ملتانیوں کی مذہبی رواداری کا اس سے بڑھ کراور کیا ثبوت ہوگا کہ یہاں آج تک کسی میجر نوعیت کا شیعہ سنی فساد رپورٹ نہیں ہوا ہے۔ انفرادی نوعیت کے واقعات بھی شاذ ہی سننے میں آتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں مذہبی ہم آہنگی کا پایا جانا دراصل ملتانیوں کے سیکولر مزاج ہونے کا غماز ہے۔اللہ تبارک سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں مذہبی منافرت کے بت تراشنے والے شیطان صفت لوگوں کے عزائم خاک میں ملا دے۔ پر امن بقائے باہمی کا واحد حل یہی ہے کہ صدیوں سے قائم مبنی بر نفرت رویوں کو دفن کرکے آنے والی نسلوں کیلئے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جہاں پر ہر شخص کو بغیر کسی جبر اور خوف کے مذہبی آزادی حاصل ہو۔
خدا کرے مری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر