نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ پی ایچ ڈی کی طالبہ تھی، گاؤں میں رہنے والی لڑکی نہیں!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

میں اس قید تنہائی میں بھوکی پیاسی تین سو پینسٹھ دن گن گن کے گزار رہی تھی، میرے آنسو میرے ساتھی تھے۔ میں قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی اور میں اپنے گھر والوں کو کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“آپ کی مدد کی ضرورت ہے، اشد ضرورت!

آپ کے پچھلے دو مضمون پڑھ کے مجھے ایسا لگا کہ میرے خدایا، آپ تو میری کہانی بیان کر رہی ہیں، سو فیصد میری کہانی!

میں آپ کو اپنی داستان سنانا چاہتی ہوں تاکہ جنہیں آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی وہ جان سکیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں؟”

یہ پیغامات ہمیں میسنجر کے ذریعے ملے اور ان میں چھپے درد کو ہم نے محسوس کرتے ہوئے اس بچی کی بات سنی۔ یقین کیجیے، وہی احساس پھر ہوا کہ کاش ہم تمام دنیا کی بچیوں کو وہ سکھا سکیں جو آگہی، وقت اور بیتے پل چپکے سے ہمارے دامن میں ڈال گئے ہیں۔

ہم کچھ صوتی پیغامات من و عن لکھ رہے ہیں، نام اور مقام مخفی رکھا گیا ہے۔

“میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے پاکستان سے باہر تھی، پڑھائی میں مگن اور زندگی سے خوش۔

وہیں یونیورسٹی میں ایک سینیئر ساتھی سے دوستی ہوئی، پاکستان سے تعلق تھا اور وہ بھی پی ایچ ڈی پروگرام میں تھا۔ تین برسوں کی رفاقت کے بعد ہماری دوستی قربت میں بدل گئی اور آخرکار اس نے مجھے پروپوز کر دیا۔ میں نے والدین کو بتایا اور ان کی رضامندی سےمیں نے ہاں کر دی۔ ہم دونوں بہت خوش تھے۔ درمیان میں کوئی سماج نہیں تھا اور شادی دونوں کی پی ایچ ڈی مکمل ہونے پہ پاکستان میں ہونا طے پائی تھی۔

نسبت طے ہونے کے کچھ عرصے بعد اس نے نکاح کی تجویز پیش کی۔ کچھ سوچ بچار اور والدین کی مرضی سے ہمارا نکاح ہو گیا۔ ہم ایک دوسرے کے قریب تھے، میں خوش تھی اور میں اس کو خوش رکھنا چاہتی تھی سو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے اس کو کبھی ناراض نہیں ہونے دینا، کبھی اعتراض کا موقع نہیں دینا، اسے غصہ نہیں آنے دینا اور اس کی ہر بات ماننی ہے۔

سات آٹھ ماہ بہت اچھے گزرے پھر اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تنقید شروع ہو گئی۔ کبھی کہتا کہ تم عمر میں دو برس بڑی ہو، کبھی کہتا تم اتنا مٹک مٹک کے کیوں چلتی ہو، پی ایچ ڈی کرنے والوں کے یہ لچھن تو نہیں ہوتے۔ میں حیرت سے اسے دیکھتی رہ جاتی، کیا میں وہی تھی جس سے اس نے محبت کی تھی۔

اس کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی اور اس کے پاکستان جانے کے دن جوں جوں قریب آتے گئے اس کا مجھ سے برتاؤ عجیب تر ہوتا چلا گیا۔ اب وہ جو منہ میں آتا مجھے کہہ دیتا، بے وجہ ڈانٹ دیتا، بے عزتی کرنا شروع کر دیتا، گالیاں دیتا اور مجھے وجہ ہی سمجھ میں نہ آتی۔ میں پہروں روتی، بار بار وجہ پوچھتی، کوئی جواب نہ ملنے پہ معافیاں مانگتی۔ اس کی زبان کے گھاؤ اس قدر شدید ہوتے جو مجھے نیم جان کر دیتے۔

آپ یقین کیجیے مجھے حقیقت میں احساس ہوتا تھا کہ غلطی میری ہے۔ میں اس کی ہر بدتمیزی کا سبب تلاش کرتی اور اپنے آپ کو سمجھاتی کہ وہ کچھ پوزیسو ہے، کچھ منہ پھٹ ہے، لیکن پیار تو مجھ سے کرتا ہے۔ ابھی نوکری نہ ملنے سے پریشان ہے، سو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر میں اس کی بدتمیزی برداشت کر لوں۔

میں یہ بھی سوچتی تھی کہ میری قسمت میں اگر یہی شخص ہے تو میں اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مجھے یہ بھی خوف تھا کہ اگر میرے احتجاج پہ اس نے مجھے چھوڑ دیا تو میں کیا کروں گی؟ میں تو اس کے بنا نہیں رہ سکتی، کچھ نہیں کر سکتی۔

گھر میں ابو جب بھی امی پہ غصہ کرتے، امی خاموش ہو جاتیں تھیں۔ نہ کوئی سوال و جواب اور نہ کوئی جھگڑا۔ اگلے دن جب صلح ہو جاتی تو گھر کا ماحول پھر سے خوشگوار ہو جاتا۔ اس سے میں نے یہ سیکھا کہ عورت کو ہی برداشت کر کے اپنا گھر بنائے رکھنا ہوتا ہے، اسے مرد کی ہر بری بھلی سننی ہوتی ہے تبھی یہ رشتہ قائم رہتا ہے۔

لیکن سب سے تکلیف دہ بات بستر میں کیا جانے والا سلوک تھا۔ شکل کی تو میں بہت اچھی تھی سو اس پہ کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن میرے جسم کے مختلف حصوں کو چھوتے ہوئے مذاق اڑاتا اور کہتا کہ تمہاری ویجائنا بہت ڈھیلی ہے۔ کبھی کہتا تمہارے پستان بہت نیچے کو لٹکے ہوئے ہیں، تم تو بوڑھی ہو چکی ہو۔ میں حیرانی سے سوچتی کہ تیس برس کی عمر میں بوڑھا کون ہوتا ہے۔

میں کنواری تھی سو سہاگ رات بھی جب جنسی تعلق میں مجھے تکلیف ہوئی تو اس کا رویہ تضحیک آمیز تھا اور ساتھ میں یہ جملہ کہ سولہ برس کی عمر والا نخرہ نہ کرو، تیس برس میں بھلا کسے تکلیف ہوتی ہے۔ میں کبھی بھی آرگیزم تک نہیں پہنچ سکی لیکن اسے کبھی بھی پروا نہیں ہوئی۔ وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کرتا، لطف اندوز ہوتا اور منہ پھیر کے سو جاتا۔ بستر میں رومان کہیں تھا ہی نہیں۔ تب میں نے سوچا تھا کہ شاید سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہ سب چھ ماہ چلا اور ایک دن وہ کچھ کہے سنے بنا پاکستان واپس چلا گیا۔ اس کی پی ایچ ڈی مکمل ہو چکی تھی۔ میں ایک شاک کے عالم میں تھی، مجھے سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ یہ کیا تھا، ایک ڈراونا خواب، ایک دھوکا ؟

اس نے واپس پہنچ کر بھی کوئی رابطہ نہ کیا تو میں نے اس کے گھر والوں کو فون کیا اور ان سے نمبر لے کر اسے فون کیا۔ میری آواز سنتے ہی اس نے کہا کہ میں مصروف ہوں، ابھی بات نہیں کر سکتا۔ میں کئی دن تک اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی رہی اور ہر دفعہ اس کے پاس وقت نہ ہوتا۔ آخر ایک دن میں نے بے بسی سے روتے ہوئے اسے پوچھا کہ تمہارے پاس کب وقت ہو گا۔ بے نیازی سے جواب تھا، ایک سال بعد۔

میں نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لیا۔ یونیورسٹی اشد ضرورت کے تحت جاتی۔ سارا دن اندھیرے کمرے میں لیٹ کر روتی رہتی، کھانا پینا بھی چھوٹ گیا۔ ایک ہی سوال تھا جو دن رات کسی بھوت کی طرح میرے ارد گرد چکر لگاتا کہ کہ اس نے ایسے کیوں کیا؟

میں اس قید تنہائی میں بھوکی پیاسی تین سو پینسٹھ دن گن گن کے گزار رہی تھی، میرے آنسو میرے ساتھی تھے۔ میں قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی اور میں اپنے گھر والوں کو کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی۔

سٹریس اس قدر بڑھا کہ مجھے سائیکٹرسٹ کی مدد کی ضرورت پڑ گئی اور اس کے ساتھ ہی میرا امیون سسٹم بھی فیل ہو گیا۔ میں بہت زیادہ بری حالت میں تھی، جسم سوج چکا تھا سو مجھے ہسپتال داخل کر لیا گیا۔ میں ایک اجنبی ملک میں بقا کی جنگ تن و تنہا لڑ رہی تھی۔

کچھ عرصے بعد ہسپتال سے تو چھٹی ہو گئی لیکن میں بہت لاغر ہو چکی تھی۔ اس کی دی ہوئی ایک سال کی مدت بھی ختم ہونے والی تھی۔ میں نے اسے کال کر کے بتایا کہ اس ایک سال میں مجھ پہ کیا گزری؟

اوہ اچھا ایک سال انتظار کا ختم ہو گیا۔ سنو میں تو شادی کر رہا ہوں، اب ایسا کرو کہ تم بھی کسی اور سے شادی کر لو، میں طلاق بھیج رہا ہوں، یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا۔

اس خبر نے میرا نروس بریک ڈاؤن کر دیا، میں بہت بری حالت میں تھی۔ میرے والدین تک خبر پہنچی تو انہوں نے فوراً ٹکٹ بھیج کر مجھے پاکستان واپس بلوایا۔ میں پھر سے بہت بری حالت میں تھی سو مجھے ہسپتال دوبارہ داخل ہونا پڑا۔ ماں باپ نے بہت ساتھ دیا اور تقریباً دو برس اس کیفیت میں رہنے کے بعد میں زندگی کی طرف پلٹنا شروع ہوئی۔

اس حادثے سے پہلے میرا شمار مضبوط لوگوں میں ہوتا تھا، سکول کالج یونیورسٹی کے بہترین طالب علموں میں سے ایک، بہترین مقررہ، کمپیئر، با اعتماد۔ پھر دوسرے ملک میں پی ایچ ڈی اور وہاں بھی میں دوسرے لوگوں سے پڑھائی میں بہت آگے۔

لیکن اس واقعے نے مجھ سے میرا اعتماد چھین لیا۔ مجھے لگا جیسے میں ردی کا ایک فالتو ٹکڑا ہوں جسے بہت بے دردی سے استعمال کے بعد پھینک دیا گیا ہو۔

مجھے اپنے آپ پر غصہ ہے میں نے اس کے وہ الفاظ کیوں برداشت کیے؟ میں نے بستر میں اپنے جسم پر وہ پھبتیاں کیوں سہیں؟ خود کو تباہ کیوں کیا؟ میں نے خود کو اتنا بے وقعت کیوں سمجھا؟ عزت نفس کیوں تباہ کی؟ میں نے اس شخص کو ایسا کرنے کی اجازت کیونکر دی؟ اس نے مجھے کیا سمجھا ؟ ایک کھلونا؟ اجنبی ملک میں وقت گزاری کا کھلونا؟ محبت کی آڑ میں جنسی تقاضے پورے کرنے کا ایک طریقہ؟

اب یہ سوال مجھے سونے نہیں دیتے۔ میں پہروں جاگتی ہوں، روتی ہوں سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے اور میری انگزائٹی پھر سے واپس آ جاتی ہے۔

میں جب بھی شیشے میں اپنی شکل دیکھتی ہوں ، سوچتی ہوں میں نے کس بے دردی سے اپنے آپ کو قتل کیا۔ میں نے اچھی لڑکی کا تمغہ جیتنے کے لئے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا”

صاحب ، ان صوتی پیغامات نے ہمارا جگر لہو لہو کر دیا۔ پدرسری معاشرے کا مرد اپنی طاقت اور مردانگی کے زعم میں اکیسویں صدی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کو کیسے تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے، یہ ان لوگوں کے لئے آئینہ ہے جو پدرسری نظام پہ ہماری تنقید کو دیوانے کی بڑ سمجھتے ہیں!

About The Author