دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

روڈ ایکسیڈنٹ کے نام پہ ایک اور قتل ||رؤف لُنڈ

اس سے بڑا انسانی المیہ اور کیا ہوسکتا ھے کہ اس عہد میں بھی لوگوں کو ایک پُختہ اور دو رویہ سڑک کی سہولت نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سڑک جو ایک بین الصوبائی سڑک ھے

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسد اللہ بھٹہ الوداع ۔۔۔۔۔۔۔ روڈ ایکسیڈنٹ کے نام پہ ایک اور قتل ۔۔۔۔۔۔۔ لاشوں کے پُشتے میں ایک اور بڑھوتری ۔۔۔۔۔۔ یہاں کے سرداروں ، تمنداروں ، مکاروں ، ریا کاروں اور ان کے گماشتوں کی کمینگیوں کی فردِ جرم میں ایک اور اضافہ ۔۔۔۔
اسداللہ بھٹہ ایک عاجز ، نیازمند، سادہ، مخلص ، وفا دار اور ایک شریف النفس انسان تھا ۔ جس کی رگوں میں اس کے محنت کش والد استاد منیر بھٹہ کی ساری زندگی کی محنت کا خون شامل تھا ۔ استاد منیر بھٹہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ایسا ورکر تھا کہ جو اپنے وقت میں پارٹی کی شان اور جام پور کی پہچان تھا۔ وہ جب سٹیج پر منتخب انقلابی شاعری پڑھتا تو جیسے شیر دھاڑ رہا ھو۔ استاد منیر بھٹہ کے جذبے یہاں کے حرام خور سرداروں پر لرزہ طاری کردیتے تھے ۔۔۔۔۔
اس کی نسبت مرحوم اسداللہ بھٹہ دھیمے مزاج والا اور خاموشی سے کسی لالچ اور ریا کے بغیر سیاست اور خدمت کرنے والا سیاسی کارکن تھا۔ اسداللہ بھٹہ محنت مزدوری کی تلاش میں دبئی گیا تو اسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے کچن میں پکوان کی ملازمت مل گئی ۔ اس دوران پتہ نہیں اس کی کتنا بار خود بی بی سے اور دنیا کے گوشے گوشے سے بی بی کو آکے ملنے والوں سے ملاقات ہوئی مگر اسداللہ بھٹہ نے زبردستی گھسڑ کر، چپک کر، خواہ مخواہ کیمرے کے سامنے آ کر نہ کوئی تصویر بنوائی اور نہ ھی کسی جعلی طریقے سے بڑا بننے کی کوشش نہیں کی۔ ورنہ اس بیہودہ سیاسی عہد میں کس کو پتہ نہیں کہ کس کس کے ساتھ کن کن جتنوں کے بعد تصویریں بنوا بنوا کر اور ان تصویروں کے ذریعہ اپنی شخصیت کا جعلی عکس ابھار کر کتنی کتنی مراعات ، عہدے اور دام وصول کئے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
May be an image of 1 person
اسداللہ بھٹہ دبئی سے واپس آیا تو پھر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے اسی محنت و مشقت میں رہنے لگا جس میں اس نظام کے ہاتھوں اس کے باپ دادا پستے آئے تھے۔۔۔۔۔ اسداللہ نے یہاں ایک پرائیویٹ کالج میں وھی کھانے پکانے کی نوکری تلاش کرلی۔ اپنے بچوں کو رزق حلال کھلانے کی جدوجہد میں ان کمینہ صفت سرداروں ، تمنداروں، ہر حکومت میں وزیر مشیر بننے والوں کی اس گھٹیا پن ، بے حسی اور خباثت کی بھینٹ چڑھ گیا کہ جسکی وجہ سے یہ نسل در نسل حکمرانی کی لعنت میں مبتلا ہو کر حاکمان وقت کی دلالی کرکے مال بناتے رہتے ہیں مگر ان کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اسداللہ بھٹہ نے جس سڑک پر حادثے کا شکار ہوکر جان دی ھے۔ یہ انہی سرداروں کی بے حسی، خباثت اور کمینگی کے طفیل قاتل سڑک کا روپ دھار چکی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے بڑا انسانی المیہ اور کیا ہوسکتا ھے کہ اس عہد میں بھی لوگوں کو ایک پُختہ اور دو رویہ سڑک کی سہولت نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سڑک جو ایک بین الصوبائی سڑک ھے۔ جسے ڈیرہ اسماعیل خان سے کشمور تک سڑک کہنا سڑک کی توہین ھے۔ یہ شاہراہ بسوں ، ٹرکوں ، ویگنوں ، رکشوں اور موٹرسائیکلوں پر سفر کرنے والوں کو جگہ جگہ سے گھسیٹ کر موت کے منہ میں لے جانے والے گڑھوں کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ تبھی تو اس سڑک کو قاتل روڈ کے نام سے پکارا جاتا ھے۔ اور اس کی حدود کے اندر زندگی گزارتے باسیوں کو آئے روز اس سڑک پر سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھانے یا لاشوں کے بے شناخت ٹکڑے چننے سے فرصت نہیں مل رھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سڑک پر انفرادی یا اجتماعی قتل ہوتے ہیں، خبریں لگتی ہیں، مکاری پر مبنی ہمدردی کے بھاشن سنائے جاتے ہیں اور پھر مقتولین کو حادثے کی چادر اور تقدیر کے کفن میں دفنا کر راضی برضا رہنے کی تسلیاں دے کر پھر ایک نئی لاش اٹھانے کے وقفے کا وقت دے دیا جاتا ھے۔۔۔۔۔۔۔
یہ درست ھے کہ ہر زخم دِیّا نہیں بنتا ، ہر ٹیس چنگاری نہیں بنتی، ہر آہ دھواں نہیں دیتی اور نہ ھی ہر لاش بول پڑتی ھے۔ مگر پھر اس نظام اور اس کے گماشتہ طاقت کے ہاتھوں لگنے والا کوئی بھی زخم ، کوئی بھی ٹیس ، کوئی بھی آہ رائیگاں بھی نہیں جاتی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب وقت کے سینے پر جمع ہوتا رہتا ھے تب تک جب کوئی لاش بول پڑتی ھے۔ لاش پر جھکی غمزدہ آنکھوں میں غصہ اتر آتا ھے۔ ماتم کرتے ہاتھ بلند ہوتے ہیں۔ اور دکھوں سے نڈھال قدم اپنے دشمنوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ پھر سب دکھ جاگ جاتے ہیں۔ سب دشمنوں کے چہرے بے نقات ہوتے ہیں۔ اپنے سارے پیارے یاد آ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ان پیاروں کو بے بسی کے ساتھ رونے، دفنانے اور وداع کرنے کے مناظر لہو کی شریانوں میں ابلتے ہیں اور یہ شرارے تب تک گرم رہتے ہیں جب تک اس نظامِ زر کے رکھوالوں سے ایک ایک زخم کا انتقام اور حساب نہیں لے لیا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم آج کے دن قاتل روڈ سے اٹھنے والی اسداللہ بھٹہ کی لاش ایسے انتقام کے لمحوں تک اپنے دیگر سب پیاروں کے ساتھ وقت کے پاس امانتاً سپرد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

About The Author