نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان : کون کہاں کھڑا ہے ؟||محمد عامر خاکوانی

ملا داد اللہ مرحوم، سراج حقانی یا کسی دوسرے افغان طالبان کمانڈر بشمول امیر طالبان ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کبھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان دیا، کبھی پاکستانی اداروں یا حکومت ، عوام پر حملے کئے؟

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان ایک پیچیدہ ملک ہے ، جہاں بیک وقت کئی چیزیں چل رہی ہوتی ہیں۔ کسی پیش گوئی سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہاں کے مختلف سٹیک ہولڈرز میں کون کہاں کھڑا ہے؟ افغان حکومت ابتدا انہی سے کرنی چاہیے کہ افغانستان کی باضابطہ حکومت یہی ہے۔ موجودہ صدر اشرف غنی ایک متنازع الیکشن جیت کر دوبارہ صدر بنے ہیں ، یہ ان کی دوسری ٹرم ہے، یعنی وہ پچھلے چھ سات برسوں سے افغانستان کے حکمران ہیں اور موجودہ تباہ حالی کی ذمہ داری سابق حکومت یعنی حامد کرزئی پر نہیں ڈال سکتے۔ اشرف غنی نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کو حکومت میں بھی شامل کیا اور افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے جو اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی ہے ، اس کے سربراہ بھی عبداللہ عبداللہ ہی ہیں۔
عبداللہ عبداللہ افغانستان کی دوسری بڑی آبادی تاجکوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ پنج شیر کے نامور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی تھے ۔عبداللہ عبداللہ کے بھارت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں، بتایا جاتا ہے کہ ان کا ایک گھر دہلی میں ہے۔ افغان حکومت کومجموعی طور پر ملک کے تمام اینٹی طالبان عناصر کی حمایت اور سپورٹ حاصل ہے۔پشتون آبادی کا وہ عنصر جو طالبان کا ساتھ دینے کے بجائے پچھلے پارلیمانی انتخابات میں شریک ہوا اورسرکاری فنڈز، مفادات وغیرہ حاصل کئے۔اہم تاجک لیڈرجن میں پنج شیری اور بدخشانی تاجک دونوں شامل ہیں، ان کے علاوہ عمومی طور پر ہزارہ اور ازبک کے ساتھ ترکمان لیڈر بھی افغان حکومت کے ساتھ شامل ہیں۔ مشہور ازبک کمانڈر جنرل عبدالرشید دوستم کو چند ماہ قبل اشرف غنی نے مارشل کا خطاب دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ دوستم کا تعلق جوزجان صوبے کے علاقے شبرغان سے ہے، انہیں ازبکوں اور ترکمانوں کی خاصی حمایت حاصل ہے۔
شمالی افغانستان میں دوستم اہم طالبان مخالف لیڈر کے طور پر جانا مانا جاتا ہے۔دوستم کو ترکی کی حمایت حاصل ہے اور وہ طالبان دور حکومت کے دوران ترکی مقیم رہا، آج کل بھی دوستم ترکی میں اپنا علاج کررہا تھا، تاہم اب اس نے افغانستان واپسی آ کر طالبان کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ دوستم کے ساتھیوں نے اہم شیعہ ہزارہ لیڈروں کے ساتھ مل کر اتحاد بھی بنا رکھا ہے۔ افغان حکومت کو سب سے بڑا ڈس ایڈوانٹیج یہ ہوا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے ،متعدد اہم علاقے اور اضلاع حکومتی کنٹرول سے نکل گئے۔ خاص کر شمالی افغانستان میں بلخ، بدخشان، قندوزوغیرہ میں طالبان کی کامیابیوں نے افغان حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ کئی جگہوں پر ہزاروں افغان فوجیوں نے طالبان سے لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈال دئیے ، تاجکستان کی سرحد پر تو عجب تماشا ہوا ، ایک ہزار سے زائد فوجی باقاعدہ بھاگ کر وہاں پناہ لینے چلے گئے۔
یہ دنیا کی واحد مثال ہوگی۔ افغان فوج کی تعدادڈھائی سے تین لاکھ بتائی جاتی ہے، مگر اطلاعات ہیں کہ چالیس پچاس ہزار کے قریب فوجی یا ہتھیار پھینک چکے یاطالبان کے ساتھ مل گئے۔ فوج کا مورال بہت ہی ڈائون ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو طالبان کے کابل اور دیگر بڑے شہروں پر حملوں کا دفاع کس طرح ممکن ہوپائے گا؟ افغان حکومت کو ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ مزار شریف، جلا ل آباد،قندوز ، فیض آباد اور کئی دیگر اہم صوبائی دارالحکومت شہروں سے زمینی رابطہ ختم ہوچکا ہے، طالبان نے ان شہروں کو گھیرے میں لے لیا ہے اور وہاں تک رسد صرف فضائی ذریعے سے پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان نے دبائو بڑھایا تو یہ سب صوبائی دارالحکومت ایک ایک کر کے سرنڈر ہوتے جائیں گے۔
اشرف غنی کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ تنہا ہوچکے اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ آپ خود اندازہ کر لیں کہ عین جنگ کے بحرانی لمحات میں جس صدر کو اپنا وزیردفاع اور کمانڈر بدلنا پڑے، وہ کیا جنگ جیتے گا؟جب طالبان سر پر آپہنچے ہیں، تب افغان عوام کو کھڑا کر کے جنگ لڑنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ افغان حکومت کے پاس زیادہ کارڈز نہیں۔ امریکی انہیں جھنڈی کرا کر جا رہے ہیں،روس ، چین کی زیادہ دلچسپی طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ہے۔ ایران مدد کے موڈ میں نہیں، پاکستان ویسے بھی اس آخری رائونڈ میں طالبان کے ساتھ کس طرح بگاڑ کر سکتا ہے؟
افغان حکومت طالبان سے مذکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں، مگر طالبان دانستہ اسے طول دے رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قابض ہو کر اپنی مرضی کی سودا بازی کر سکیں۔ امریکہ امریکہ بیس سال تک افغانستان کا اہم ترین سٹیک ہولڈر رہا۔ عملی طور پر اس کی حکومت تھی۔ امریکہ مگر اب افغانستان سے باہر جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ سوچ دی کہ افغان حکومت کی جنگ امریکی کیوں لڑیں؟ القاعدہ ختم ہوگئی، افغان طالبان نے خاصا کچھ سبق سیکھ لیا ہے، اب امریکی فوجی ان سے لڑائی میں کیوں جانیں دیں اور اربوں ڈالر خرچ کریں؟ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یہی بات مزید کھل کر کہہ دی ہے کہ ہم افغان قوم کی تعمیر کرنے نہیں آئے تھے ۔
امریکہ کی سب سے زیادہ دلچسپی اس میں تھی کہ دنیا بھر میں اس کا شکست کا تاثر نہ جائے۔ ویت نام سے پسپائی کرتے ہوئے امریکی قوم وہ تصویر کبھی نہیں بھول سکی، جس میںآخری ہیلی کاپٹر امریکی سفارت خانے کی چھت سے اڑ رہا ہے اور ایک امریکی فوجی اس سے لٹکا ہوا ہے۔اس تصویر سے دنیا بھر میں امریکہ کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس بار انہوں نے تمام تر پلاننگ اسی نکتے پر کی۔ طالبان سے مذاکرات کئے، ان کی شرائط مانیں اور یہ طے کیا کہ امریکی فوجیوں پر حملے نہیں ہوں گے اور طالبان فاتح ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کریں گے۔ امریکی اتنی سی خوشی پر پھولے نہیں سما رہے کہ بچ بچا کر واپس جا رہے ہیں۔
امریکی یقینا یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ افغان حکومتی سیٹ اپ قائم رہ جائے، ان کے گماشتہ لیڈرحکومتی سیٹ اپ میں رہیں ۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ افغانستان کے کسی پڑوسی ملک میںفوجی اڈے مل جائیں جن کے ذریعے وہ افغانستان پر حملہ کرنے کی صلاحیت برقرار رکھیں۔ امریکہ مگر اب افغان دلدل میں پھر سے دھنسنے کو تیار نہیں۔ بھارت بھارت نے پچھلے پندرہ برسوں میں افغانستان کا ایک سٹیک ہولڈر بننے کی کوشش کی۔ امریکیوں کی ایما پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ماہر ایجنٹوں نے افغان انٹیلی جنس کی تربیت کی۔ بھارت نے افغانستان میں کئی ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر بنایا۔ انہوں نے حامد کرزئی، اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور دیگراہم اینٹی طالبان لیڈروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے۔
افغان میڈیا میں گہر ااثر ورسوخ قائم کیا، کئی میڈیا ہائوسز کوانڈیا باقاعدہ فنڈنگ کرتا رہا ہے۔ہزاروں افغان طالب علموں کو سکالرشپ دے کر بھارت بلایا گیا۔ بلوچ شدت پسندوں خاص کر ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف اور حیربیار مری کی بی ایل اے کے جنگجوئوں کو انڈین ایجنٹوں نے افغانستان میں ٹریننگ دی اور ان کے سیف ہائوسز بنوائے۔ انڈیا جب یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ افغانستان میں اس کا گہرا اثر قائم ہوچکا ہے، اچانک ہی سب کچھ الٹ گیا۔ انڈیاکے ساتھ بالکل وہی ہوا جو پاکستان کے ساتھ 2002میں ہوا تھا، جب شمالی اتحاد حکومت میں آگیااور کابل اچانک پاکستان مخالف لیڈروں سے بھر گیا۔ بھارت پچھلے دو ماہ سے مسلسل طالبان لیڈروں سے رابطوں کی کوشش میں ہے، اس نے ایران، روس سے بھی دبائو ڈلوانے کی کوشش کی، مگر طالبان قیادت نے ابھی تک انڈیا کو لفٹ نہیں کرائی۔ دراصل طالبان کا خیال ہے کہ افغانستان میں ان کے خلاف افغان حکومت جو فضائی حملے کر رہی ہے، اس میں بھارتی مدد شامل ہے۔
افغانستان بظاہر انڈیا کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے، جو محنت کی تھی، وہ ضائع گئی۔ روس ، چین، ایران یہ تینوں ملک افغانستان کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہیں۔ طالبان نے ماضی میں ان تینوںممالک کو ناخوش کیا۔ ایران تو ایک وقت میں افغانستان پر حملہ کرنے کی تیاری بھی کر رہا تھا جب ان کے سفارت کار مزار شریف میں قتل کر دئیے گئے۔ آج کا منظرنامہ مختلف ہے۔ ایران کے ساتھ طالبان نے اچھے تعلقات قائم کئے ہیں، ایرانی اثر کی وجہ سے افغانستان کے ہزارہ جات اس طرح طالبان کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے، جیسے ازبک یا تاجک لیڈر ہیں۔طالبان مسلسل اشارے دے رہے ہیں کہ ان کی حکومت اینٹی شیعہ نہیں ہوگی۔
ایران یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں داعش مضبوط نہ ہو، یہ کام صرف افغان طالبان ہی کر سکتے ہیں۔ طالبان روس کے تحفظات بھی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، طالبان کو اگر ان کی سپورٹ مل گئی تو ان کے لئے کئی چیزیں آسان ہوجائیں گی۔ چین کی یقینا خواہش ہوگی کہ اس خطے میں پروامریکہ افغان حکومت کے بجائے طالبان حکومت بنے، جس کے ساتھ چین کے قریبی تعلقات قائم ہوں۔ چین ، روس دونوں افغانستان کو امریکی اثر سے پاک دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔سردست یہ تینوں ممالک احتیاط اور غور کے ساتھ طالبان کی سرگرمیاں دیکھ رہے ہیں، ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی چل رہی ہے۔ افغانستان میں طالبان کہاں کھڑے ہیں ، یہ اتنا اہم سوال ہے کہ اس پر مکمل کالم بنتا ہے۔ پاکستان بھی اہم سٹیک ہولڈر رہا ،آج بھی ہے، پاکستان کی پوزیشن پر بھی ان شااللہ بات کرتے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author