ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم عمران خان نے گوادر میں مختلف منصوبوں کی افتتاحی تقریب ،مقامی عمائدین ،طلباء اور کاروباری شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں ۔اس میں سوچنے کی کیا بات ہے ؟اچھے کام میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے لیکن اس بات میں اعتراض کا پہلو بھی ہے کہ قومی معاملات فرد واحد کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے ،
قومی امور کے مسئلے پر مذاکرات کا فیصلہ ملک کی قومی کونسل کو کرنا چاہیے ۔عمران خان نے یہ بھی کہاکہ ماضی میں صرف ان علاقوں پر توجہ دی گئی جہاں سے الیکشن جیتنا ضروری ہوتا ،بلوچستان سے وفاق اور سیاستدانو ں نے بھی وفا نہیں کی ، اس کے ساتھ وزیر اعظم کے علم میں یہ بات بھی لانا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو مرکز اور صوبے میں اقتدار دلوانے والے سرائیکی وسیب سے بھی وفاق اور تحریک انصاف کے سیاستدانوں نے وفا نہیں کی ۔
وزیر اعظم بلوچستان کے علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کا سوچ ر ہے ہیں تو اُن سے بھی ملنا چاہیے جن سے عمران خان نے 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا اور 1200دن گزرنے کے بعد بھی صوبے کے حوالے سے ذرا برابر بھی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ بلوچستان کے دورے کے دوران وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ماضی کے حکمرانوں نے نواز شریف نے لندن کے 24 اور زرداری نے دبئی کے 51دورے کئے مگر گوادر ایک مرتبہ بھی نہیں آئے ۔عمران خان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سے یہ پریکٹس چلی آ رہی ہے کہ نجی دورے بھی سرکاری خرچ پر کئے جاتے ہیں ۔
ذاتی کاموں کے لیے صرف گاڑیاں نہیں جہاز بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ جہاں تک گوادر کی بات ہے تو صرف یہ بات نہیں کہ گوادر نواز شریف اور زرداری نہیں جاتے تھے بلکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ، گورنر اور وزراء میں سے کوئی بھی نہیں جاتا تھا ۔زیادہ عرصہ نہیں صرف چند سال پہلے کی بات ہے کہ گوادر میں دھول اُڑتی تھی ، پینے کا پانی تک میسر نہیں تھا ۔جو محدود آبادی تھی وہ کڑوا اور زہریلا پانی پی کر نہ جانے کس طرح زندہ تھی ؟
حکومت نے پانی تک کا انتظام نہیں کیا تھا ، بلوچستان کے کسی قوم پرست سیاستدان نے بھی اس انسانی مسئلے پر لب کشائی نہیں کی تھی۔اب گوادر کو رنگ لگا ہے اور چین نے بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرڈالی ہے تو اب گوادر کے سب وارث بن کر سامنے آ گئے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ صرف صوبائی یا قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی گوادر نے اہمیت اختیار کر لی ہے اور بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا مرکزی نقطہ گوادر ہی ہے۔
بلوچستان کے دورے کے دوران وزیر اعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ تمام ہمسایہ ممالک کو افغانستان میں سیاسی تصفیہ کی کوشش کرنی چاہیے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ملک بھارت ہے کہ اس کی اربوں کی سرمایہ کاری دائو پر لگی ہوئی ہے ۔ خدا کرے وزیر اعظم کی بات درست ہو اور بھارت کو پاکستان کے خلاف سازشوں کی سزا ملے مگر ہم عمران خان کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ فساد افغانستان کا سب سے زیادہ مالی و جانی نقصان پاکستان کا ہوا ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان کی افغانستان اور افغانیوں سے ہمدردی ہے مگر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سابقہ تاریخ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے موجودہ واقعات سے سابق و موجودہ افغان حکمران لا علم نہیں سب کچھ ان کی آشیرباد سے ہو رہا ہے۔ بھارت دریائے کابل پر ڈیم کیلئے افغانستان سے تعاون کر رہا ہے ، اس کا مقصد بھارت کی افغان قوم سے ہمدردی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بغض ہے ۔
سیاستدانوں کی ذاتی لڑائیاں اپنی جگہ مگر اس مسئلے پر قومی اتحاداور بلوچستان کے سرداروں کی بجائے عام آدمیوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان کے عام آدمی کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو بہکانے والے وطن دشمنوں کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے ، اس کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیںیہ وسائل بلوچستان کے عوام کو ملنے چاہئیں اور غربت کے خاتمے کے ساتھ بلوچستان کی ترقی پر خرچ ہونے چاہئیں۔
وزیر اعظم نے بلوچستان کا دورہ کیا ہے تو اُن کو بلوچستان کے ملحقہ علاقوںکی صورتحال کا بھی جائزہ لینا ہوگا ۔بلوچستان کا ایک ملحقہ علاقہ سرائیکی وسیب ہے اس علاقے میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ۔ڈی جی خان کے علاقے میں ریلوے لائن بمبوں سے اُڑائی گئی ،اس علاقے میں بھی صدیوں سے آباد سرائیکی قوم کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جیسا کہ گزشتہ روز قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبد الحئی خان بلوچ ڈیرہ غازی خان میں میر مرزا تالپور کے استقبالیہ میں کہا کہ ڈی جی خان ،راجن پور ،بلوچستان کا حصہ ہے ۔
موقع پر موجود سرائیکی رہنمائوں اکبر خان ملکانی ،عمر خان بزداراور اشرف خان بزدار نے اُن کے موقف کو رد کیا ۔اکبر خان ملکانی نے کہاکہ بار کھان اور موسیٰ خیل کل تک ہمارا حصہ تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ ابوالفضل کی آئین اکبری میں یہ درج ہے کہ صوبہ ملتان کی حدود کیچ مکران تک تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا جہاں گھر ہے وہاں کی زبان سرائیکی ہے اور آس پاس کے اضلاع نصیر آباد، ڈیرہ مراد جمالی، سبی، جعفر آباد اور ثوبت پور زمانہ قدیم سے سرائیکی بولنے والوں کے علاقے ہیں۔بلوچ مورخین نے خود لکھا کہ بلوچ قبائل ایران ، عراق سے مہاجر بن کر آئے ۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ بلوچ قوم پرستوں کا معاملہ میٹھا ہپ اور کڑوا تھو والا ہے ۔ فوج کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں اور جنرل یحییٰ خان کی طرف سے بنائے گئے غیرآئینی صوبے کو تسلیم بھی کیا ہوا ہے ۔ دوسری طرف جب ہم کہتے ہیں کہ خطہ بولان کو صوبہ بلوچستان بنایا گیا تو وہاں کہ اسٹیک ہولڈرز براہوی، پشتون، سرائیکی، سندھی و دیگر کی رائے نہیں لی گئی اور نہ ہی صوبہ کمیشن بنا اور نہ ہی بلوچستان جمہوری طور پر وجود میں آیا لہٰذا اس غیر آئینی عمل کی بھی مخالفت ہونی چاہیے تو اس پر بلوچ قوم پرست رہنما فوراً یہ کہہ دیتے ہیں کہ بلوچستان صوبہ کو 1973ء کی اسمبلی نے آئین کا حصہ بنا دیا ہے۔اب خود سوچئے یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے ؟
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر