عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سناٹے کا شور کبھی سُنا ہے؟ جب شور تھم جاتا ہے اور آوازیں بند ہو جاتی ہیں، گلے گھُٹ جاتے ہیں اور گھونٹے نہیں جاتے، نہ موسیقی، نہ ساز، نہ آواز اور نہ ہی شور۔۔۔ ایسے میں سناٹا گونجتا ہے، آواز صرف کانوں میں بجتی ہے، ساز کا گلا رُندھ جاتا ہے اور شور خود اپنے کانوں میں اُنگلیاں ڈال لیتا ہے۔
کیا سے کیا ہو گیا؟ الزام، بُہتان اور کردار کُشی کے اس دور میں نہ دلیل کی کوئی قدر ہے نہ الفاظ کی کوئی حُرمت۔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے سروں میں مقید دماغ، مغلظات میں لپٹی موٹی موٹی لال زبانیں، بھاری بھرکم مگر منحنی آوازیں، بونے قد کے لمبے لوگ، بغیر سوچ کے خالی بجتے ذہن اور آگ اُگلتے اژدھوں کے دہن۔۔۔ کیا بن گئے ہیں ہم، کیا بنا دیا ہے آپ نے۔
مُنیر نیازی نے کہا تھا:
مُنیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
بالآخر ستر سالوں میں جو کھوپے سروں پر چڑھائے گئے وہ کام آ رہے ہیں۔ بونوں کی، چھوٹے دماغوں کی، لمبی زبانوں کی اور انگارا آنکھوں کی ایک پوری نسل تیار ہو چکی ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ بات کرنے والا کوئی نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ بات سمجھنے والا کوئی نہیں، کوئی کیسے کہے کہ ستر سال سے غداری کے فتوے لگانے سے کتنے غدار معتوب ہوئے، انڈیا کے ایجنٹ بنانے سے عوام نے کتنوں کو ہندوستان کا ایجنٹ تسلیم کیا۔ محب وطنوں کو غدار کس نے اور کیسے بنایا اور غداروں کو کیسے چُھپایا مگر چھپ نہیں سکے۔
المیہ تو یہ ہے کہ ملک بیچنے والے ہیرو اور ملک کے لیے قراردادیں پیش کرنے والے غدار ٹھہرے۔ غلام مرتضی سید جو جی ایم سید کے نام سے جانے جاتے تھے قائداعظم کے قریب ترین ساتھیوں اور اُس کے بعد سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرنے والی شخصیت۔۔۔ غدار کس نے اور کیوں بنایا اس کے لیے تاریخ کی عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔
قائداعظم کی بہن اور تحریک پاکستان کی ساتھی ایوب خان کے مقابلے پر انتخابی دنگل میں نکلیں تو غدار ٹھہریں، بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیراعلی، تحریک پاکستان کے اہم راہنما نواب اکبر بُگٹی جنرل مشرف کے دور میں غدار ٹھہرے، حُسین شہید سُہروردی، خان غفار خان، ولی خان، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر بھی غداری کے الزامات لگائے گئے۔ الزام سب پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا تھا۔
جس نے بھی سوال اٹھایا، سچا شعر پڑھا، روایت سے ہٹ کر لکھا، قلم کو دربار میں سرنگوں نہیں کیا وہی غدار ٹھہرا۔
فیض احمد فیض پر پنڈی سازش کیس میں بغاوت کا مقدمہ ہوا تو احمد فراز کو جلا وطن، احمد ندیم قاسمی شعر و سُخن کے دیدہ ور بنے تو معتوب اور حبیب جالب سوال اُٹھانے اور شعر سے ایوان اقتدار ہلانے کے جُرم میں قید ہوئے۔ کم و بیش ان سب نے غداری کے طعنے برداشت کیے۔
آج بھی غداری کے فتوے لگائے جا رہے ہیں۔ سوال اُٹھیں گے کہ ملک دو ٹکڑے کرنے والے، دریاؤں کے پانی کا سودا کرنے والے، اسرائیل اور امریکہ کی جنگ لڑنے والوں کو کیا کہا جائے گا۔ آپ زبانوں پر تالے لگا بھی لیں مگر تاریخ کے سامنے سچ کیسے چھپائیں گے؟
سچ کے سفر میں کئی منزلیں سامنے آتی ہیں، سچ کا قافلہ چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جس سناٹے کا آپ اہتمام کر رہے ہیں، بڑھ گیا تو کہیں آپ کو ہی اپنے کانوں میں اُنگلیاں نہ ڈالنا پڑیں۔ ڈریں اس وقت سے اور سناٹے کے شور سے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر