رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جام پور ۔۔۔۔ ایک ایف آئی آر جس کا مستغیث ڈبل ایم این ایز جعفر لغاری، مینا جعفر لغاری ( ایک موجودہ ایک سابقہ/ایک بیوی ایک شوہر ) کا پی اے، دستِ راست ، ہاتھ کا چھالا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ملزم ھے ایک عام شہری، ایک صحافی کہ جس کی ابھی صحافت سے بنی کوئی بڑی جائیداد ، کوٹھی، گاڑی اور بینک بیلنس سامنے نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں عامۃ الناس کو آج کے سیاستدانوں اور صحافیوں کی مفاداتی کشمکش میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رھی۔ کیونکہ بحیثیت مجموعی (کچھ استثنٰی کیساتھ) جب یہ کسی جرم، کسی غبن، کسی فراڈ اور کرپشن پہ بات کر رھے ہوتے ہیں تو ایسی بات چیت، بحث یا مذاکرے اور ٹاک شو کی بنیادوں میں جرم، فراڈ، اور کرپشن وغیرہ بارے کوئی نفرت نہیں ہوتی بلکہ ان حرکتوں کی ساجھے داری کے مک مکا، یا محرومی کا درد پوشیدہ ہوتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر چونکہ اس واقعہ میں فریقین کا کوئی تال میل نہیں ھے۔ اور یہ ایف آئی آر مقامی تھانے سے لیکر ضلعی پولیس کے افسران کی کارگزاری پر سوالیہ نشان ھے کہ کس طرح ایک حرف حرف جھوٹ کی داستان کو نعوذباللہ صداقت کا پیمانہ جان کر انصاف کا منہ کالا کرنے کی کارستانی سامنے آئی ھے۔ سو پھر ایسے عالم میں کوئی بات نہ کرنا ظلم کا حامی و ہمنوا ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلا ایک ایسا پی اے کہ جو موجودہ ایم این اے جعفر لغاری کی طرف سے حلقہ کے تھانوں ، تحصیل و ضلعی انتظامیہ، کمشنر، ڈی آئی جی سے لیکر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ تک کی میٹنگوں میں نمائندگی کرتا ہو۔ اور دوسری سابقہ ایم این اے مینا جعفر لغاری سے کوئی بات منوانی ہو تو حلقہ کے ایسے تمام معززین جو اپنے اپنے پولنگز پر نچھاور ہوتے رہتے اور پھر اگلے پانچ سال تک ھم خادم ، ھم غلام کا ورد کرتے رہتے ہیں وہ اسی پی اے، مستغیث مقدمہ قاسم لنگرانہ سے سفارش کراتے رہتے ہیں۔ اور وہ قاسم لنگرانہ جس کے بارے یہ کہانی زبان زدِ عام ھے کہ جب وہ ان معززین کو سامنے بٹھاتا ھے تو ان سے بات کم کرتا ھے کرسی کو زیادہ گھماتا ھے اور وہ بھی اس حال میں کہ اس کی ٹانگیں میز پر اور جوتوں کا رُخ معززین کے چہروں کیطرف ہوتا ھے۔۔۔۔۔۔
ایسے مہان اور پردھان کو دھمکی دیتا ھے ایک ایسا صحافی/شخص کہ جس کی شاید ایسے لوگوں کی موجودگی میں نہ جان محفوظ ھے نہ گھر ۔۔۔۔۔۔ اور ایف آئی آر میں درج کہانی پڑھیں تو ایک تو "اتنے بڑے معزز” کے وقوعہ کے گواہوں میں علاقے کا کوئی غیر جانبدار شخص شامل نہیں۔ بلکہ وہ رشتہ دار ہیں جو ایف آئی آر کی روشنی میں ہر وقت ہرجگہ قاسم لنگرانہ کیساتھ کراماً کاتبین کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور پھر ستم بالائے ستم وقوعہ دن دیہاڑے ایسی جگہ پہ ہوتا ھے جو جام پور تحصیل کے قلب میں واقع ھے۔ جہاں سے بین الصوبائی روڈ گزرتی ھے۔ جہاں رات گئے تک آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا ھے۔ جو ڈی ایس پی صاحب تحصیل جام پور کی ہمسائیگی اور ہمہ وقت وردی پوش ڈیوٹی پر تعینات ٹریفک پولیس کے دفتر کے ناک کے نیچے ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
حد چاہئیے سزا میں عقوبت کے واسطے ۔ اور کچھ شرم ہوتی ھے کچھ حیا ہوتی ھے۔ اس نظام اور سماج میں قانون و انصاف کا جو حشر ہو رہا ھے اس پر کسی بھاشن دینے کی ضرورت نہیں۔ سوال صرف اتنا ھے کہ انتظامیہ جو قانون و انصاف کی برابری کا ناٹک کرتی ھے۔ ان کیلئے ظفر اقبال کا ایک شعر ھے کہ
جھوٹ بھی بولا ھے تو اس پہ قائم رہو ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئیے ! ! !
بس سرِ دست اتنا کہ جھوٹ کی اس داستان کا پرزے پرزے( مقدمہ خارج) ہونا ضروری ھے۔ ورنہ سیاسی ورکرز کا، صحافیوں کا، وکلاء کا، عام شہریوں کا خاموش رہنا تو ضروری نہیں ناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقول ممتاز اطہر
کسی کے ہاتھ تو بازوؤں کے ساتھ رہنے
پلٹ کے آگیا تجھ پر تیرا عذاب تو پھر؟
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر