محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹی وی صحافت کے عروج کے دنوں میں ایک سینیئر ساتھی نے بتایا تھا کہ یہ ایئرپورٹوں کے باہر اور چوراہوں پر جہازی سائز کے جن اینکروں کی تصویروں والے بورڈ لگے ہوتے ہیں یہ سب اینکر ایک نہ ایک دن پاگل ہو جائیں گے۔ میں نے کہا کہ کچھ کے ہونٹ زیادہ گلابی ہیں، کسی نے خضاب کم لگایا ہے، کوئی اخبار کے نیوز روم سے ریاضت کر کے نکلا ہے، کوئی پیدا ہی ٹی وی سٹوڈیو میں ہوا ہے، ان سب کا انجام ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟
جواب ملا کہ ہر روز، ہر گھر، بازار، دکان پر ہفتے میں چار پانچ دن نظر آنے کا نشہ سب کو لے ڈوبے گا۔ اپنی تصویر سے پیار ہو جاتا ہے، اپنی آواز حق سچ کی صدا لگنے لگتی ہے۔ مجھے اپنے سینیئر ساتھی کی تھیوری پر یقین نہیں آیا لیکن ذاتی تجربے سے اتنا جانتا ہوں کہ بیس، پچیس سال قلم کی مزدوری کی ہے۔ زندگی میں شاید ڈھائی مرتبہ ٹی وی پر آیا ہوں گا۔ اب بھی گاؤں میں پہچان ہے تو اتنی کہ وہ اُن کا لڑکا جو پہلے ٹی وی پر آتا تھا۔
پاکستان کے نیوز چینلوں پر نظر آنے والے چہروں میں سب سے زیادہ پہچانا جانے والا چہرہ حامد میر کا ہے۔ بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ پاکستان کے کسی دور دراز علاقے میں اگر لوگوں کو حامد میر اور سپہ سالار جنرل باجوہ کی تصویر دکھائی جائے تو شاید زیادہ لوگ حامد میر کو پہچان لیں گے۔
اِس سے کہنا یہ مقصود نہیں ہے کہ (میرے منھ میں خاک) کہ حامد میر جنرل باجوہ سے زیادہ ہر دلعزیز ہیں بلکہ صرف یہ کہ میر صاحب بیس سال سے تقریباً ہر روز ٹی وی پر نظر آتے ہیں۔ باجوہ صاحب کو ابھی آئے ہوئے چار سال ہی ہوئے ہیں۔ اللہ ان کی ایکسٹینشن میں برکت ڈالے لیکن وہ ٹی وی پر کم ہی نظر آتے ہیں بلکہ سُنا ہے خود ٹی وی پر آنے کی بجائے ٹی وی والوں کو گھر پر ہی بلا کر اپنا شو خود ہی سجا لیتے ہیں۔
تو اس ہفتے اسد طور پر ہونے والے تشدد کے بعد احتجاجی مظاہرے میں جب حامد میر نے مختصر خطاب کیا تو مجھے لگا کہ یہ ہونا ہی تھا۔ آخر حامد میر پاکستان کا سب سے مشہور اینکر تھا تو سب سے زیادہ پاگل بھی اسی نے ہونا تھا۔
لیکن پھر میں نے سنجیدگی سے ایک فہرست بنانی شروع کی کہ آخر حامد میر چاہتا کیا ہے۔
دولت؟
پاکستان کے سب سے بڑے چینل کا سب سے بڑا اینکر ہے، سُنا ہے بُرے وقتوں میں جب چینلوں کے کارکنوں کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی تھی تو اینکروں کو پھر بھی کچھ نہ کچھ ملتا تھا۔
میرا خیال ہے حامد میر ایک خوشحال انسان ہے اور ویسے بھی ہر صحافی کی جیب میں لفافہ ڈھونڈ لینے والوں نے بھی کبھی حامد میر کی کرپشن کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
عزت؟
پاکستان میں اگر عزت کا مطلب طاقت کے ایوانوں تک رسائی ہے تو پاکستان کا کوئی حکمران، اپوزیشن لیڈر، قطار میں لگا لیڈر،کوئی ریٹائرڈ جنرل یا کوئی پاپ سٹار ایسا نہیں ہے جس نے حامد میر کو انٹرویو نہ دیا ہو۔ بلکہ کہنے والے تو یہی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بننے سے پہلے بیس سال تک عمران خان ہر روز یہی سوچتے تھے کہ پتہ نہیں آج حامد میر اپنے شو میں بلائے گا یا نہیں۔ اور حامد میر نے کم ہی انھیں مایوس کیا۔
بے عزتی؟
مجھے ٹی وی ٹاک شو دیکھے ہوئے عرصہ ہو گیا لیکن کوئی مہینہ نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا کھولو تو حامد میر کے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہوتا ہے۔ اور کئی مرتبہ تو ڈھونڈنے سے بھی پتہ نہیں چلتا کہ اب میر صاحب نے کیا کر دیا۔
کبھی ان کے ماتھے پر اسرائیل کا جھنڈا ہوتا ہے، تو کبھی ہندو پنڈت کا روپ دھار لیتے ہیں، کبھی نواز شریف یا زرداری کا پٹہ پہنایا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی ہے کہ کچھ اور سمجھ نہ آئے تو اس حامد میر کو غدار کہہ کر دہاڑی بنا لو۔
تو مجھے پورا یقین ہے کہ حامد میر دولت، شہرت، عزت اور بے عزتی کے معاملے میں خود کفیل ہیں۔ تو کیا وہ پاکستان کے دشمن ہیں، غدار ہیں، یا جیسا کہ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا وہی ہے جو پاکستان کے دشمنوں کا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اگر مطالعہ پاکستان کی کتابوں کے اصولوں کے مطابق ایک شہری کی تشکیل دی جائے تو وہ شاید حامد میر سے ملتا جلتا ہو گا۔ اسلام اور فوج سے محبت کرنے والا، ہندوستان سے دشمن داری والا، اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھنے والا، مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانیت کا کوئی مقابلے کا امتحان ہو تو حامد میر پہلی پوزیشنوں میں سے ایک لے گا۔
عمران خان
اب اس درجے پر پہنچا ہوا پاکستانی بھی اگر غدار ہے تو ہم جیسے کمزور ایمان والے پاکستانی کس کی ماں کو خالہ کہیں۔
حامد میر نے کچھ غلطیاں کی ہیں جو ہمارے ٹی وی اینکر نہیں کرتے اور میرا اشارہ بیس سال تک عمران خان کے انٹرویو کرنا نہیں ہے کیونکہ وہ تو سب نے کیے ہیں۔ وہ غلطی یہ ہے کہ اسلام آباد اور پنڈی میں بیٹھے ہمارے حکمران جس پاکستانیوں کو مقبوضہ علاقوں کے شہریوں کی طرح دیکھتے ہیں ان کی آواز عوام تک پہنچائی ہے۔ کم کم، کبھی کبھی لیکن بات ضرور کی ہے۔
جب غائب کر دیے گئے بلوچوں کے گھر والے پورے پاکستان کا سفر کر کے اسلام آباد پہنچتے ہیں تو انھیں اپنے شو میں صرف حامد میر نے ہی بلایا تھا۔ جب سلیم شہزاد کی لاش نہر میں پائی گئی تو سب سے آگے بڑھ کر نعرے لگانے والا حامد میر ہی تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، بلوچستان کے دور دراز ضلعوں میں، سندھ میں جب بھی صحافی قتل ہوا، اغوا ہوا، حامد میر نے آواز اٹھائی۔ جب خود کراچی میں چھ گولیاں کھائیں تو شاید سمجھ آ جانی چاہیے تھی کہ حملہ آور کی طرف انگلی اٹھاؤ گے تو وہ ایک شخص ہی نہیں پورے ادارے پر چڑھ دوڑے گا۔
اور اس کے بعد ہر صحافی کو ہر روز اپنے لیے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا۔
جو ظلم قبائلی علاقوں اور سندھ کے چھوٹے شہروں کے چھوٹے صحافیوں سے ہوتا ہوا اسلام آباد کے مرکز تک پہنچا تو کسی کو تو پاگل ہو کر بولنا ہی تھا۔ تو حامد میر بول ہی پڑے اور بولتے بولتے سب گرہستی والے لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف بھی ڈالتے گئے کہ اگر ہمارے سینیئر فوجی جنرل اپنے گھر میں محفوظ نہیں ہیں تو پھر ہم کس باغ کی مولی ہیں۔
بس ایک چھوٹا سا گلہ، میر صاحب کو ایک سابق فوجی حکمران کو چوہا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ یہ ہمارے بزرگوں کی تعلیم نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان کا چوہوں نے کیا بگاڑا ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر