نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ٹی وی پر میں کسی ٹاک شو کا میزبان نہیں۔ اس لئے صحافی کہلانے کا مستحق نہیں ہوں۔ پاکستان کا مگر عام شہری تو ہوں۔ وطن عزیز کے لاکھوں غیر صحافی شہریوں کی طرح مجھے بھی روزانہ کی بنیاد پر رزق کمانا ہوتا ہے۔ کمائی سے گھر چلانا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل بروقت ادا کرنا ہوتے ہیں۔ بچوں کے مستقبل کی فکر بھی لاحق رہتی ہے۔ بنیادی طور پر اگرچہ یہ ”انفرادی“ مسائل ہیں مگر ان کا حل اجتماعی طور پر تیار ہوا کوئی ریاستی اور سیاسی بندوبست ہی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ بندوبست شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے علاوہ ریاستی اور سیاسی نظام کو اس انداز میں رواں رکھتا ہے کہ ملک میں استحکام نظر آئے۔ خوش حالی کے بے تحاشا امکانات میسر ہوں۔
اس تناظر میں غور کیا تو دریافت ہوا کہ 2018 کے انتخابات کی بدولت قائم ہوئی حکومت نے اپنے پیشرو ”چوروں اور لٹیروں“ کی مایوس کن وراثت کو اپنی جرات و بہادری کی بدولت امید سے بھردیا ہے۔ آئی ایم ایف کے تیار کردہ نسخے پر کامل عملدرآمد کے باوجود ہمارے ہاں کسادبازاری نہیں پھیلی ہے۔ کرونا کی وبا بھی کئی مہینوں سے موجود ہے۔ ہمارے ہاں معاشی نمو کی شرح کو مگر یہ وبا 3.94 فی صد کی حد تک پہنچنے سے روک نہیں پائی۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب روزانہ ہی کسی نہ کسی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کر رہے ہوتے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب نے ”تخت لہور“ کی جانب سے کئی برسوں تک نظرانداز کیے پسماندہ علاقوں میں ترقی کے جال بچھانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ معاشی تحرک کے اس موسم میں خدشہ تھا کہ پاکستانی عوام کہیں ”مادیت پرستی“ کی روش نہ اپنالیں۔ ان میں انسانیت اور خداخوفی کے جذبات برقرار رکھنے کے لئے صوفیاء کے اجاگر کیے پیغام کو اب سائنسی انداز میں فروغ دینے کی کاوشوں کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ عالمی سطح پر ہم اتنا پراثر ملک ثابت ہوئے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی پیش قدمی نے اسرائیل کو غزہ میں محصور اور محبوس ہوئے فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ بمباری روکنے کو مجبورکر دیا۔
پاکستان کے موجودہ حالات کو میڈیا میں اجاگر کیے حقائق کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے ہاں کوئی ایسی بدامنی، مایوسی یا ابتری نظر نہیں آتی جس کے ازالے کے لئے نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف صاحب کو فوراً لندن جانے کی ضرورت محسوس ہو اور وہ اپنے بھائی کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے کچھ باتیں مان لینے کا تقاضا کریں۔
پاکستان کے لاکھوں غیر صحافی شہریوں کی طرح اپریل 2016 سے مجھے بھی پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت اور ٹی وی پر نمودار ہونے والے صحافیوں کی پیشہ وارانہ لگن کی بدولت یہ علم بھی میسرہونا شروع ہوا کہ ہمارا تین مرتبہ وزیر اعظم رہا شخص ”صادق اور امین“ نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے مافیا کا سرغنہ ہے جو حکومتی اقتدار کو اپنا خاندانی کاروبار بڑھانے اور بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ مذکورہ ”سرغنے“ کے کارنامے ہمارے ریاستی اداروں کی جانب سے ہوئی تفتیش کی بدولت بے نقاب ہو گئے تو اسے عمر بھر کے لئے کسی منتخب عہدے کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ پاکستان کا تین بار منتخب ہوا وزیر اعظم اب یونین کونسل کے کونسلر کا انتخاب لڑنے کے بھی اہل نہیں رہا۔
احتساب عدالت نے موصوف کو کرپشن کے سنگین الزامات کے تحت طویل عرصہ جیل کی سزا بھی سنائی تھی۔ اپنی حراست کے دوران مگر وہ جان لیوا بیماری کی زد میں گھرے نظر آئے۔ عمران حکومت نے انسانی ہمدردی کے تحت انہیں علاج کی خاطر بیرون ملک بھجوادیا۔ وہ مگر وہاں سے لوٹے نہیں ہیں۔ عدالتوں سے ”بھگوڑے“ قرار پاچکے ہیں۔ ”بھگوڑے“ کی جائیدادیں ان دنوں بطور سزا نیلام ہو رہی ہیں۔
جس ”بھگوڑے“ کی جائیدادیں نیلام ہو رہی ہیں اس کے پاس مگر یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ کوئی ایسا ”نسخہ“ موجود ہے جو بروئے کار لائے جائے تو پاکستان میں مزید استحکام اور خوش حالی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ خاندانی حکیموں کی طرح مگر وہ اس نسخے کے استعمال میں فراخ دلی دکھانے کو آمادہ نہیں ہورہے۔ شہباز شریف تاہم ان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ انہیں لندن جانے دیا جائے تو بڑے بھائی کے قدموں میں بیٹھ کر وہ نسخہ خلق خدا کی بھلائی کے لئے حاصل کرنے کے بعد ہی اٹھیں گے۔
کامران خان صاحب میری طرح غیر صحافی نہیں۔ شعبۂ صحافت کی بلکہ ایک قابل رشک علامت شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تحقیق وتجزیہ اس قدرعمیق مگرپرکشش ہوتا ہے کہ ان کے ٹاک شو کو ایک گھنٹے کے بجائے نوے منٹ دیے جاتے ہیں۔ ٹی وی کے علاوہ کامران خان صاحب سوشل میڈیا پر بھی بہت متحرک ہیں۔ عمران حکومت کے ابتدائی ایام میں جب عوام کی بے پناہ اکثریت معاشی مسائل سے گھبرانا شروع ہو گئی تھی تو وہ امید بھرے پیغامات کے ذریعے انہیں حوصلہ دیتے رہے۔ نہایت لگن سے ایسے ٹی وی پروگرام تیار کیے جن میں بیٹھے ماہرین معیشت اور مختلف کاروباری دھندوں کے سرکردہ افراد نے عمران حکومت کو بازار میں رونق لگانے کی ترکیبیں بتائیں۔ غالباً ان مشوروں کی بدولت عمران حکومت بالآخر معاشی نمو کی حدکو 3.94 کی خوش گوار مگر حیران کن حد تک لے گئی۔ حالات جب بہتری کی جانب بڑھنے لگے تو وزیر اعظم صاحب نے کامران خان صاحب کا ان ہی کے ٹاک شو میں ایک طویل انٹرویو کیا۔ اینکرنے مہمان بن کر عمران خان صاحب کو ان کی کامیاب پالیسیوں کے نتائج تفصیل سے بتائے۔
گزرے جمعہ کی شب تاہم قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے صدر جناب شہباز شریف صاحب ان کے شو میں نجانے کتنے منت ترلوں کے بعد نمودار ہو گئے۔ ملکی حالات کو دگرگوں بتایا اور اصرار کرتے رہے کہ سنگین ترین ہوتے مسائل کے حل کے لئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں نواز شریف کو بھی آن بورڈ لینا ہو گا۔ نظربظاہر لندن میں قیام پذیر ہوئے بھگوڑے طیش کے عالم میں لاہور کی گلیوں میں ”ککھ نئی ریا اپنا تے۔“ کہلاتا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ فکر کی مگر کوئی بات نہیں۔ شہباز شریف صاحب کو اگر لندن روانہ ہونے کی اجازت فراہم ہو جائے تو چھوٹا بھائی بڑے بھائی کے قدموں میں بیٹھ کر انہیں مثبت رویہ اختیارکرنے کو قائل کردے گا۔
شہباز صاحب کو لاہور کی سڑکوں پر اکثر پولیس کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہونے والا شاعر حبیب جالب بہت پسند ہے۔ اپنی تقاریر میں اکثر ان کے شعر پڑھتے ہیں۔ جالبؔ کی دوران حراست ایک بار اپنی اہلیہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ مگر ”حالات“ کا رونا روتے رہے۔ ”ملاقات“ نہ ہوپائی۔ شہباز شریف صاحب نے بھی محض ایک ٹی وی انٹرویو نہیں دیا ہے۔ کامران خان صاحب کے شو کی وساطت سے بلکہ عرض گزاری ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں انہیں لندن پہنچ کر نواز شریف صاحب کے قدموں میں بیٹھنے کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ ان کی فریاد پر غور کرتے ہوئے مجھ غیر صحافی کے جھکی ذہن میں سوال یہ اٹھا کہ ان کا مخاطب کون تھا۔
آئینی اعتبار سے پاکستان کے ”چیف ایگزیکٹو“ ان دنوں عمران خان صاحب ہیں۔ شہباز صاحب کو وہ مسلسل ”شو باز“ پکارتے ہیں۔ ان کے چہیتے سراغرساں جناب شہزاد اکبر مرزا صاحب نے جاں گسل محنت کے بعد مبینہ طور پر شہباز صاحب سے منسوب بے تحاشا ”جعلی اکاؤنٹس“ بھی دریافت کرلئے ہیں۔ احتساب بیورو ان کی دریافت کے باعث متحرک ہوا۔ مسلم لیگ (نون) کے صدر کئی ماہ جیل میں رہے۔ حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ”شوباز“ کی حقیقت کو ممکنہ طور پر عیاں کرنے والے مقدمات کے منطقی انجام سے قبل عمران خان صاحب شہباز شریف کو لندن جانے کی اجازت کیوں دیں۔ وزیر اعظم یہ اجازت نہ دینے کو فطری طور پر بلکہ مزید ضدی ہوجائیں گے اگر شہباز صاحب کی لندن روانگی کا مقصد اپنے بڑے بھائی کے قدموں میں بیٹھ کر اس مجرب نسخے کو بروئے کار لانا ہے جو بالآخر موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت مکمل نہ کرنے دے۔ نام نہاد قومی اتفاق رائے کے ذریعے اس کا متبادل تیار کرے۔
شہباز صاحب مگر بہت ”زیرک“ شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ پاکستان کے ٹھوس سیاسی حقائق اور حرکیات کو وہ اپنے بڑے بھائی سے کہیں بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ طاقت ور حلقوں میں مذاکرات کا ہنر ان کی کامل گرفت میں ہے۔ مذکورہ شہرت کی وجہ سے مجھ جیسے غیرصحافی پاکستانی یہ سوچنے کو مجبور ہیں کہ کامران خان صاحب کے شو میں ہوئی فریاد کا مخاطب کوئی ”اور“ تھا۔ اگر میرا شبہ درست ہے تو کوئی ”اور“ عدالت سے ”بھگوڑے“ قرار پائے شخص کو جس کی جائیدادیں بطور سزا ان دنوں نیلام ہو رہی ہیں، کسی ”مجرب نسخے“ کا حامل طبیب ثابت کرنے کی کوششوں میں معاونت کیوں فراہم کرے۔ کاش ان سوالات کے جواب ہمارے صحافی تلاش کرنے کا تردد کریں۔ ان کی مہربانی سے مجھ جیسے غیر صحافی شہریوں کے اذہان کئی پراسرار معاملات کی بابت صاف ہوجائیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر