دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہء ملتان   (ایک ڈرامائی بیانیہ۔دوسرادرشن)||امجد نذیر

راستے میں ایک دن آرام کے بعد، اگلے روز لیفٹینینٹ کارٹلینڈ دوبارہ عازم سفر ھوا ۔ سپہ سالار مُولراج کے آگاہ مخبر وقتا" فوّقتا" اُسکی سَمت اور قوت کا جائزہ لیتے رھے ۔

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یکم اپریل 1848 تا جنوری 1849
(مآخذات: جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، حفیظ خان، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع)
دوسرا درشن:
(پیٹرک اَگینو اور لَیفٹیننٹ اینڈرسن کی ہلاکت اور پیش منظر)۔
تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محل وقوع کیوجہ ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، 1296 میں علاوالدین خلجی کا محاصرہ، 1818 میں رنجیت سنگھ کی جارحیت وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے کی موجود ھے شاید کِسی اور محاصرے یا حملے کی موجود نہیں ھے ۔ کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار اور تنازعات ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنی مکمل ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ اور زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروی ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست ترین مقام دلوایا جا سکے ـ اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت سرائیکی اور ملتانی مورخین و مبصرین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر، جو تحقیق ، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے، عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراسکے گردو نواح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مقابلے کا منظر اپنی جزیات سمیت دِکھایا جا سکے ـ اِس پورے منظر میں مُولراج، ملتان کے سپاہیوں اور مجاہدوں کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
۔ ۔ ۔
ریاست مُلتان کے دفاع اور اِستعماردُشمنی میں پیٹرک وانز اَگینو اور ولئیم اینڈرسن کو جہنم واصل کرنے سے پہلے یا تو انگریز ملتان کی قوت و اِمتیاز کے بارے میں بہت کم آگاہ تھے یا پھر کِسی اورخیال میں تھے ـ یہ بھی مُمکن ہے کہ مَجموعی طور پر یورپئن لوگوں نے اِس قدیم و عظیم شہر کے بارے میں بہت کم سُنا ھو ۔ بہرحال درج بالا خبر کے بعد کم از کم ہندوستان کے طول و عرض میں مُلتان ایک بار پھر صفحِ اول کے شہروں کی فہرست میں آن کھڑا ھوا ۔ جب لیفٹینینٹ آئی ۔ اَین ـ کرسٹوفر نے 1848 کے اوائل میں مُلتان شہر کا دورہ کیا تھا تو اُسکی رائے میں "ملتان ایک اچھی خاصی آبادی والا، انتہائی مضبوط ومحفوظ اور خوشحال شہر تھا ۔ مُقامی لوگوں کی رائے میں قلعہء ملتان ناقابل شکست حد تک قوی الجُسہ، پُختہ اور توانا قلعہ تھا جسے زیر کرنا کوئی آسان بات نہ تھی اور یہ بات تاریخ سے ثابت بھی تھی” ۔ ہر چند کہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تقویت کیلئے 1818 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ عیاری کے ساتھ شب خُون مارکے مُلتان شہر پر اپنے مزمُوم پنجے گاڑ لئیے تھے مگر ملتان کے داخلی معاملات میں اُسکا اثرو تصرف علامتی سا ہی رہا ـ
ماضی قریب میں کوئی راہ فرار نہ پاتے ھوئے مُولراج نے تعمیراتی ترامیم و اضافوں سے قلعہء مُلتان کو ناقابل تسخیر بنانے میں ہی بہتری سمجھی کیونکہ بدلتی ھوئی سیاسی صورت حال کے پیش نظر اور کچے پکے سامراجی پاؤں جماتی ھوئی متزلزل انگریزحکومت کے کار پرداز سپاہیوں ‘ یعنی اگینو اور اینڈرسن کو ‘ ملتان کے جیدار سپوتوں نے مولراج کی مرضی کے بر خلاف اور نتائج سے بے خوف و خطر مار ڈالا تھا – اسے اندازہ تھا کہ انگریز اس کا بدلہ لینے آئے کہ آئے ۔ اپنی زمین، اَپنے لوگوں سے وفاداری کے اِسی جُر ات مندانہ اقدام کی پاداش میں ہی برطانوّی اِستعماری ایجنٹ اصل میں مُلتان کے قدیمی باسیوں اورکسی حد تک نام نہاد فرمانروائے ملتان کے اسم و وجود کے درپئے ھو گئے تھے ۔ اب وہ ملتان شہر کے باسیوں کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندنا اور اپنی توپوں کی گھنگرج اور توپ و تفنگ سے دہلانا ور دبانا چاھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مُلتان کی تاریخی عزت و تکریم کو اپنے نو آبادیاتی تسلط اور استحصالی بوجھ تلے نہوڑا کر سطحی ہی سہی مگر والئ مُلتان دیوان مُولراج کو نشانِ عبرت بنایا جا ئے ، مگر انہیں علم نہیں تھا کہ ملتان کو زیر بار کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا ـ ایسے کئی حکمران یہاں سے ٹھکر کھا کر لوٹ گئے تھے ۔
20 اپریل 1848 کی شام کو مُشتعل سپاہیوں نے عید گاہ کے درودیوار کے اندر خیمہ زن انگریز سپاہیوں پر حملہ کر دیا ـ اور راستہ روکنے والے گوڈر نہنگ سنگھ کو بھی بری طرح زخمی کر دیا ـ پھر وہی گوڈر سنگھ زخموں سے چور پیٹرک وانز اگینو کے کیمپ میں گیا اور جا کر پوچھا ” تم ملتان میں کیوں اور کیا لینے کے لئے آئے ھو؟ ” گورے نے کوئی جواب نہ دیا” جس پر گوڈر سنگھ نے کرپان نکال کر کہا ” سِکھ مت اختیار کر لو نہیں تو میں تمہارا سر قلم کرد وں گا” ، ” مَیں دلیپ سنگھ کا سیوادار ہوں، مجھے مار کر تمہں کیا ملے گا” وانز اگینو نے سمبھل کر جواب دیا ـ مگر گوڈر سنگھ نے غصے میں آگ بگوُلا ہو کر "ست سری اکال، بولے سو نہال” کا نعرہ لگایا اور پہلے سے ذخمی وانز اگینو کو بالوں سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور پھر آن کی آن میں اُسکا سَر تن سے اُڑا دِیا ـ پھر آسکا ایک پٹھان ساتھی آگے کو جھکا اور اس نےاگینو کے مردہ شریر میں سنسناتی ھوئی گولی اُتار دی ۔ ایک اور ساتھی نے اگینو کا سر کان سنگھ (پیٹرک اور اگینو کے ھمراہ بھیجا گیا دلیپ سنگھ کے کارندے ) کی جھولی میں فٹ بال کیطرح لڑھکاتے ہوئے کہا "یہ لو اَپنے لونڈے کو جِسکو تم ملتان پر حکمرانی کے لئے لائے تھے” سردار کان سنگھ چیخیں مار کر رونے لگا اور رو رو کر بے حال ھو گیا، اب یہ سپاہی زخمی اینڈرسن کی جانب بڑھے اور پل بھر میں اُسکے بدن کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے ـ اور پھر انگریزی کیمپ کو بھی، جہاں پر مقتول اور ھمراہی ٹھہرے تھے، تہس نہس کر ڈالا ـ دربار کی باقی فوجیں خوف کے مارے کیمپ چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئیں اور بہت سوں نے ملتانی سپاہیوں سے اتحاد بنا نے میں ہی عافیت جانی ـ اب کان سنگھ کی انگریز دوست معیت میں اِکا دُکا سپاہی ہی باقی رہ گئے تھے ـ
شام کو آتشِ غیض و غضب کا لباس اوڑھے باغی سپاہی دیوان مولراج کے پاس گئے اور اسے انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اپنا لیڈر بننے کی پیشکش کی ۔ مولراج تذبذب میں پڑ گیا اور کہا ” مجھے کچھ وقت دیجئے تاکہ میں اپنی ماں سے مشورہ کر سکوں” ـ رات کو جب اس نے اپنی ماں سے صورت حال کہی تو آس نے جواب دیا کہ ” تمھارے باپ دیوان سانول مل نے اپنی تمام جمع پونجی اور محنت اس قلعہ کی مرمتی اور مضبوطی پر صرف کر دی، کیا خبر تھی کہ مڄھے اس قلعہ کو اسطرح اپنے ہاتھوں سے جاتا ہوا بھی دیکھنا ہو گا” دوسرے معنوں میں کمزور ہمت مولراج کے پاس اب کوئی راستہ باقی نہ بچا تھا اوروہ چارو ناچار ملتان سے اُٹھنے والی زمینی بغاوت کا لیڈر بن گیا ـ کسی حکمت عملی کے تحت اسنے گوڈر سنگھ کو انعام و اکرام سے نوازا اور وانز اگینو کا ولائتی پستول اور اعلیٰ نسل کا گھوڑا بھی تحفتہ” عطا کیا ـ گوڈر سنگھ نے گھوڑے پر سواری کی اور مردہ آگینو اور اینڈرسن پر بارود چھڑک کر بڑے فخر سے آگ لگا دی ـ اور پھر باغی سپاہیوں نے انگریز سرکار کے حامی کئی اور انگریز اور انگریز دوست سروں کو زمین پر لڑھکا یا، لا شوں کوں بے عزت کیا اور اونچی آواز میں بولنے لگے ” یہ تھے وہ ہرکارے جو اپنے طور پرملتان پر حکمرانی کرنے آئے تھے” شام کو ملتان میں فتح و نصرت کے ترانے گائے گئے ، چراغاں کیا گیا اور گوڈر سنگھ گھوڑے پر سواری کرتے ھوئے ادھر ادھر جاتا دکھائی دیا ، راستے میں اسکو اتفاق سے انگریز سرکار کا ایک کلرک نظر آیا اور وہ مخاطب ہو کر بولا ” اوئے منشی، میں تمھارے سارے گورے ملتان سے کلکتے تک اسی طرح ایک ایک کر کے ٹھکانے لگا دوں گا” ـ پھر کیا تھا حوصلہ پا کر آس پاس کے سپاہی ملتان کی باغی سپاہ میں شمولئت اختیار کرنے لگے ہر چند کہ علامتی سپہ سالاریت دیوان مولراج ہی کو سونپی گئی مگر تھوڑے ہی عرصے میں راوی، چناب اور سندھ کے دوآبے پٹھان اور بلوچ سپاہیوں سے اٹ گئے اور انگریزوں کے خلاف مضبوط محاظ تیار ہونے لگا ـ مولراج کو اب اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ ایک ایسے شیر کی سواری کر رہا ہے جس پر سے اگر وہ آترے گا تو وہی شیر اُسے بھنبوڑ کر کھا جا ئے گا ـ
اور دوسری طرف انگریزوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مولراج اپنی مرضی کے خلاف ہی اس بغاوت کا سرکردہ لیڈر بن چکا ہے ـ پہلے تو وہ انگریز راج کے ملتان پر قبضے کے لئے فورا” ایک بڑی فوج بھیجنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر پھر اگینو اور اینڈرسن کا لرزہ خیز انجام دیکھ کر سہ ٹھہر گئے اور کچھ وقت لیا تاکہ بغاوت کے امڈتے دریا کی موجیں اور بہاو کا رخ دیکھ سکیں ـ وہ یہ بھی جاننا چاھتے تھے کہ اس بغاوت میں کتنا دم خم ہے مگر ساتھ ہی اُنکا یہ بھی ارادہ تھا کہ وہ مہاراجہ دلیپ سنگھ، خالصہ اور ریجنسی پر بغاوت کا الزام لگا کر تینوں کو دیوار سے لگا دیں گے ـ چالاکی سے انہوں نے دربار کو یہ بھی باور کرایا کہ بغاوت دراصل خالصہ دربار کے خلاف ہی ہے انگریزوں کے خلاف نہیں ، اس لئے خالصہ دربار کی افواج ہی بغاوت کچلنے کے لئے جا نی چاہییں ـ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت انگریزی فوج کو دربار ہی کی طرف سے ننخوہیں ادا کی جاتی تھیں ـ خالصہ دربار میں بحث مباحثہ اور مشاورت ہوئی اور دربار اس نتیجے پر پہنچا کہ انگریز کی مدد کے بغیر ملتان کی منہ زور بغاوت کو زیر کرنا ممکن نہ ھو گا ـ اُدھر برطانیہ میں صرف چار مہینے پہلے ہی لارڈ ھارڈنگز کی جگہ لارڈ ڈلہوذی کو گورنر جنرل ھند مقرر کیا گیا تھا جو کہ ایک سر پھرا اور سفاک نوجوان تھا اور اپنی تعیناتی کے فورا” بعد اُس نے یونٰین جیک (متحدہ برطانیہ کا جھنڈا) ھوا میں لہراتے ھی عہد کیا تھا کہ وہ تاج برطانیہ کی سرحدوں میں، جہاں تک بھی اور جییسے بھی ممکن ہوا، اضافہ کرے گا اور ذیادہ سے ذیادہ لگان حاصل کرے گا اور اپنی سلطنت کی دھن دولت میں اضافہ کرے گا ـ اب گویا ملتان کی بغاوت سے اُسکو اپنی وسعت پسندی کا عزم آزمانے اور محصولات میں اضافہ کرنے کا موقع ھاتھ آگیا تھا تھا ـ
اَگینو اور اینڈرسن کے ٹھکانے لگ جانے کے بعد مولراج نے اپنی قوت ارادی اور حصار بند قلعہ کی استقامت پر بھروسہ کرتے ھوئے کُھلم کُھلا دشمن کے خلاف محاز آرائی کا آغاز کر دیا ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے سپاہیوں کے ایماء پر پنجاب کے نام نہاد اور واجبی مہاراجہ دَلیپ سنگھ کی پنجاب کی سطح پر فرمانروائی کا طوق بھی اپنے گلے سے اُتار پھینکا اور خم ٹھونک کر ملتان پر ناپاک قبضہ گری کا خواب دیکھنے والی انگریز سپاہ کی خلاف تن من اور دھن کی بازی لگ کر صف آراء ھو گیا یا پھر اسکے پاس خا لصہ کے انتقام سے بچنے کے لئے یہی ایک راستہ باقی تھا ۔ اُس نے قلعہ کُہنہ ملتان کو ضروری و اضافی تعمیر و ترمیم کے ذریعے مزید مضبوط کرنا شروع کر دیا ۔ قلعہ کے اندر بہت سے اَسلحے اور گولا بارود کا سامان کرنے لگا ۔ اور رفتہ رفتہ اپنے محاصل، وسائل اور فوج میں بھی اضافہ کرلیا ۔ نہ صِرف یہ بلکہ قلعہ کے اندر بھی ممکنہ حد تک کچھ مزید لوگ آباد کرنا شروع کر دیے ۔ اورپھر اپنے تازہ خون سے لبریز سر گرم جوانوں کو قلعہ کے اندر مجتمع کر کے حملے اور مزاحمت کی مشقوں پر لگا دیا ۔
مجموعی طور پر کم و بیش تمام حالات مُولراج کے حق میں انتہائی موافق اور موذوں محسوس ہو رہے تھے ۔ اُسکے سامنے ایک کُھلا میدان تھا اور صورت حال نہایت واضح ۔ وہ بڑی آسانی سے اپنی پیش قدمی ، حملہ آوری اور متوقع فتح کے لئے نشاندھی اور منصوبہ سازی کر سکتا تھا – قلعہ مُلتان اور اسکے دفاع کاروں کی طاقت کا اندازہ کرتے ھوئے تاجِ برطانیہ اُنکے مقابل اپنی مُستعد اور تربیت یافتہ فوج بھیجنے میں بھی بہت چوکنا اور محتاط تھی اور وہ بھی جُون جولائی کی چلچلاتی گرمیوں میں کیونکہ اُسکی افواج کے لئے ملتانی تپش اورلوُ کو گوّارا کرنا اور اپنی جارحیت یا دِفاع کو طُول دینا انتہائی کٹھِن ہو سکتا تھا ۔ مگر بد قسمتی سے لیفٹینینٹ ایڈورڈ پہلے ہی سے میدان میں موجود تھا ۔ اور ایک غیر معمولی طاقت کی حامل فوج کا سامنا کرنے کے لئے نقشہ گری اور ریشہ دوانیاں شروع کر چُکا تھا ۔ اِس وقت وہ ڈیرہ فتح خان کے نزدیک دریائے سندھ کے مغربی کنارے ڈیرہ جات کے علاقوں میں موجُود تھا ۔ دو بندوقیں اور مُشترکہ سِکھ افواج سے بغاوت کرکے ٹوٹنے والا ایک فوجی دستہ بھی اُسکے ہمراہ تھا ۔ اپریل کے مہینے میں وہ دریائے سِندھ عبوُر کرکے مشرقی کنارے پر واقع لئیہ شہر میں داخل ھوا جو اس وقت مناسب آبادی والا ایک چھوٹا سا ضلع تھا ۔ وھاں اُس نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے دھونس دھمکی سےغریب کسانوں، ہُنرپیشوں اور دُکانداروں سے محاصل اکھٹے کرنے شروع کر دیے ـ
تاھم اُسے خبر نہیں تھی کہ مُولراج، اپنے دَس ھزار چاک و چوبند لشکریوں اور دَس توپوں کے ساتھ وھاں بھی اس پر دھاوا بول دے گا ۔ اور اسکی نڈر سپاہ کی دھشت اور دبدبے سے گھبرا کر ایڈورڈ اور اسکے سپاہی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ھو جائیں گے اور انہیں دوبارہ اپنی بکھری ھوئی سپاہ کو جمع کرنے میں مزید وقت اور محنت دَرکار ہو گی ۔ 4 مئی 1848 کو شکست خوردہ اور مضمحل ایڈورڈ اور اُسکے حواری اپنی کشتیوں پر سوار ھو کے واپسی ڈیرہ جات کیطرف دریا عبوُر کر گئے ۔ اگلے دِن مولراج اپنے فوجی دستوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں لیْہ شہر داخل ھو گیا اور ایڈورڈ کی لُٹیرا فوج کو مار بھگانے کی خوشی میں توپوں کے کئی ایک گولے ہوّا میں داغے ۔ لیکن لیفٹینینٹ ایڈورڈ، سِکھ سروسز پر مبعوث لیفٹینینٹ کارٹلینڈ کو، جو اُس وقت ضلع بنوں (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں موجود تھا ، پہلے ہی اپنی مدد کے لئے چِٹھی لِکھ چُکا تھا ۔ 4 مئی کی ایک مایوس رات کو اُسکی متوقع آمد کو خیال میں لاتے ھوئے اُسنے بطور سگنل فضا میں دو گولیاں فائر کیں ۔ جواب میں لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے بھی دو گولیاں ھوا میں شُوٹ کیں کیونکہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی کشتیاں دریائے سندھ میں ڈال چکا تھا ـ جوابی فائرنگ سُن کر لیفٹینینٹ ایڈورڈ کی جان میں جان آئی اور وہ ایک بار پھر مُلتاں پَر یلغار کرنے کے خواب دیکھنے لگا ۔
اَگلے روز صبح سویرے لیفٹینینٹ کارٹلینڈ ایک پیادہ رجمنٹ، کچھ گھوڑوں اور چار ٹھیک ٹھیک نشانہ باندھنے والی بندوقوں کیساتھ جنوب مشرق کی طرف رواں دواں ھوا ۔ ایک آدھ روز میں وہ تونسہ شریف کے پہلوُ سے گزرتی ھوئی سنگھڑ روُد کوہی کے قریب آن پہنچا ، جہاں برطانوی فوج کی 6 اور تربیت یافتہ یونٹوں نے اُسکے مختصر دستے میں شمولئت اختیار کی جبکہ لیفٹینینٹ ایڈورڈ ایک بار پِھر ہمت جَمع کرکے مولراج اوراُسکی بہادر سپاہ کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھتا رہا اور ایک طرح سے دریا پار کرنے کے راستے کو بھی مسدود کئے رکھا ۔ دوسری جانب مولراج اور اسکے کچھ سپاہی اور کارندے چوری چُھپے لیفٹینینٹ کارٹلینڈ کی نقل و حرکت اور جنوب کیطرف اُنکے سٓفر کا مشاھدہ بھی کرتے رھے اور آنکی مُمکنہ طاقت کا تخمینہ بھی لگاتے رہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ دریا پار وھاں وھاں جہاں پر کارٹلینڈ ٹھہرا تھا، عین مخالف مقامات پر اپنے ڈیرے ڈالتے رھے تاکہ موقع ملتے ہی راستے میں ہی وہ اسکی امدادی فوج کا قلع قمع کر دیے – مگر افسوس ایسا نہ ھو سکا ورنہ ملتان کی تاریخ میں ایک اور روشن باب کا اضافہ ہو جاتا ـ
راستے میں ایک دن آرام کے بعد، اگلے روز لیفٹینینٹ کارٹلینڈ دوبارہ عازم سفر ھوا ۔ سپہ سالار مُولراج کے آگاہ مخبر وقتا” فوّقتا” اُسکی سَمت اور قوت کا جائزہ لیتے رھے ۔ اسی انداز میں ایک دِن آرام اور ایک دن سفر کرتے ھوئے لیفٹینینٹ کارٹلینڈ ھر منزل اور ھر پڑاو پر اپنے سپاہیوں، اسلحے اور اپنی قوت میں اضافہ کرتا رہا اور نہائیت ہو شیاری سے اپنی ساری کی ساری کشتیاں بچا کر ڈیرہ غازیخان پہنچ گیا ۔ ڈیرہ غازیخان، ڈیرہ جات کا سب سے بڑا شہر تھا ۔ یہاں لیفٹینینٹ کارٹلینڈ نے اپنے دستے میں مزید فوجی سپاہی شامل کئیے اور صرف پانچ سے چِھ دن کے اندر اندر تقریبا” 9 ھزار سپاہیوں کا دستہ تیار کر لیا ۔ مُولراج کے کچھ سپا ہیوں اور کارندوں نے بھی پہلے کیطرح دریا کی مخالف سمت میں لیفثینینٹ کارٹلینڈ کے کیمپس کے عین مُخالف اپنا پڑاو ڈال لیا تھا ۔ اور جہاں جہاں مُمکن ہوا، راستے میں ، اور پڑاؤ کے مقامات پر، اُنہوں نے کارٹلینڈ اور اُسکے بڑھتے ہوئے دستے کے لئے بِساط بَھر مشکلات پیدا کیں لیکن پھر بھی وہ (کارٹلینڈ اور اُسکے سپاہی) کبھی خشکی اور کبھی دریا کے راستے تمام رکاوٹوں اور مُشکلات سے بچتے بچاتے ڈیرہ غازیخان پہنچ ہی گئےـ
اِسی دوران مُولراج اور اُسکی سِپاہ کے لئے ایک اور خطرناک کام ہوا، وہ یہ کہ ریاست بہاولپور کے نواب نے، جسے تاج برطانیہ دہلی سے ایڈورڈ اور کارٹلینڈ کو کُمک ارسال کرنے کی درخواست کی گئی تھی، دس ھزار آدمی گوروں کی مدد کے لئے ملتان روانہ کیے ۔ جِن میں سے دو ھزار نے اُچ شریف (سابقہ اجودھن) کے نزدیک پنجند کراس کر کے مولراج کے مَیمنہ دستوں کے لئے جنگی حکمتِ عملی اور اپنوں کے خلاف وار کرنے کا ایک اور سوال کھڑا کر دیا ۔ آٹھ ھزار آدمیوں نے دریائے ستلُج عبور کر کے ملتان شہر کی جانب رخ کیا ۔ اب مُولراج کی مُقامی سپاہ کے لئے ملتان کا تحفظ مزید چیلینجنگ بن گیا ۔ کچھ سوچ کر اُسنے بغیر کسی تاخیر کے اپنی افواج کو واپس بلالیا جو کہ اب بڑی حد تک دریائے چناب اور نواب بہاولپور کے بھیجے گئے سپاہیوں کے درمیان پھنس چکی تھیں ۔ مُولراج کی افواج کے پیچھے ہٹنے سے ایڈورڈ نے فی الفور اپنی اَفواج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور اُنہیں چناب کی دوسری جانب ڈال دیا تاکہ نواب بہاولپور کے روانہ کردہ آدمیوں کا تعاون حاصل کیا جاسکے، کیونکہ وہ دونوں الگ الگ انتہائی کمزور تھے اور نواب کے کمزوراورغیر تربیت یافتہ آدمیوں پر تو کسی بھی وقت اچانک حملہ کر کے انہیں تِتر بِتر کیا جا سکتا تھا ۔
17 جُون کی ایک شَرانگیز شام کو لیفٹینینٹ ایڈورڈز کم سے کم کشتیاں ھونے کے با وجود تقریبا” تین ھزار ہدایت یا فتہ فوجی اور کُچھ لحیم شحیم گھوڑے دریاٖئے چناب کے مشرق میں مُلتان کی جانب بھجنے میں کامیاب ھو گیا ۔ اور 18 جُون کی صبح کو وہ خود دریائے چناب کے پار اُترا ۔ جبکہ طالع آزماء کارٹلینڈ کئی ایک بڑی بندوقوں (آرٹلری) کو اپنی نگرانی ہی میں باری باری دریا پار بھیجنے کی نگرانی کرتا رہا ۔ ابھی خُود اُس نے دریا کراس بھی نہیں کیا تھا کہ اُسے بہت زوردار فائرنگ، جوابی فائرنگ اور املاک و نواح کی بربادی کا شور سنائی دینے لگا ۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اپنے سپہ سالار کی ظاہری سرکردگی میں مُولراج کی بے تاب سپاہ نے موقع غنیمت جانتے ھوئے ایڈورڈز کے نیم مستعد اور تھکے ماندے دستوں پر تاک تاک کے نشانے باندھنا شروع کر دیے تھے ۔ اَبھی تک برطانوی سامراج کے بھیجے گئے بدمعاشوں کی ایک بھی ہَیوی گَن دریا پار نہیں اُتر سکی تھی ـ اور قریب قریب پہنچنے کا اِمکان بھی نہیں تھا ـ کیونکہ ایسی تمام کشتیاں جن پر ہیوٓی گَنیں یا دوسرا اَسلحہ لوڈ کیا جا سکے معاملہ فہم مُولراج اور اُسکے ہوشمند سپاہیوں نے اپنے قبضے میں کر لی تھیں ـ دوسری جانب کارٹلینڈ اپنی طرف سے ذیادہ سے ذیادہ اسلحہ، کشتیاں اور بھاڑے پر لڑنے والے مقامی غداروں کو اکھٹا کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہ تھا اور بھر پور مشقت سے ہی وہ اچھی حالت والی کُچھ کشتیاں اور کُچھ اسلحہ لییفٹینینٹ ایڈورڈز کی مدد کے لئے روانہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جو کہ دھیرے دھیرے محاز کیطرف رواں دواں تھے ـ
(جاری) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

                                               

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author