نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’وقت مگر اب آگے بڑھ چکا ہے‘‘ || نصرت جاوید

سوامی کے لکھے مضمون سے قطع نظر بدھ کے دن سے پاکستان کے ایک ریٹائرڈ سفارت کار -عبدل باسط- صاحب کی ایک کتاب کا پرشور ذکر شروع ہو چکا ہے۔ یہ کتاب ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی ہے

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے صحافی خوش نصیب ہیں۔ انہیں مصروف رکھنے کے لئے نیب کے پاس ’’چور اور لٹیروں‘‘ کا روپ دھارے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن کے بارے میں ہزاروں کہانیاں ہیں۔ ’’ذرائع‘‘ کی مہربانی سے گھر بیٹھے میسر ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں نمودار ہوئی پھوٹ نے بھی رونق لگا رکھی ہے۔

ایسی چٹ پٹی کہانیوں کے ہوتے ہوئے رپورٹروں کو یہ جاننے کے لئے جان کھپانے کی ضرورت نہیں کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ دوحہ مذاکرات کے ذریعے طے ہوئے معاہدے کے مطابق یکم مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی افواج نکالے گی یا نہیں۔ مذکورہ وعدے پر عمل نہ ہوا تو طالبان کیا رویہ اختیار کریں گے۔

نظر بظاہر واشنگٹن کے کئی طاقتور حلقے اور خاص طور پر امریکی افواج کے کماندار اصرار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان اور ان کے مخالفین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوئے بغیر امریکی افواج کا اس ملک سے انخلاء خانہ جنگی کی نئی اور شدید ترین لہر کا سبب ہوگا۔ امریکی افواج کے انخلاء کو لہٰذا کچھ مہینوں تک مؤخر کر دیا جائے۔ بائیڈن کو اقتدار میں لانے والے متحرک سیاسی حلقے مگر اس کے لئے تیار نہیں ہو رہے۔ وہ بضد ہیں کہ امریکہ کو Endless یا لامتناعی جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ ان جنگوں کی بدولت جن بھاری بھر کم رقوم کا زیاں ہوتا ہے وہ امریکی عوام کی بھلائی اور خوش حالی کے منصوبوں پر خرچ ہوں۔ اصرار یہ بھی ہو رہا ہے کہ امریکہ نے دنیا میں ’’جمہوریت ‘‘ کو فروغ دینے کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا۔  افغانستان جیسے ممالک اگر اپنی تاریخی اور ثقافتی روایات کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو امریکہ کو سامراجی انداز میں انہیں ’’مہذب‘‘ بنانے کی کاوشوں میں وقت ضائع نہیں کر نا چاہیے۔ ایسی کاوشیں اس وجہ سے بھی خطرناک ہیں کیونکہ دیگر ممالک کے کئی افراد خود پر مسلط ہوئے ’’اجنبی نظام‘‘ کو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ نائن الیون جیسا سانحہ اسی باعث ہوا تھا۔ ہمارے میڈیا میں اس ضمن میں چھڑی بحث پر کماحقہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ محض یہ رپورٹ کرتے ہوئے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ پاکستان نے پرخلوص کوششوں سے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا۔ اب طالبان جانیں اور امریکہ۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کی بابت بھی ہمارے صحافی تجسس میں مبتلا نہیں ہوئے۔ کسی ایک رپورٹر نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں لائن آف کنٹرول پر ’’سیزفائر‘‘ کا جو معاہدہ ہوا ہے وہ کیسے اور کن افراد کے مابین رابطوں کی بدولت نمودار ہوا۔ فروری 2021 میں جس معاہدہ کا اعلان ہوا ہے وہ اپنے تئیں محض ایک واقعہ نہیں۔ سیز فائر کے اعلان کے بعد پے در پے ایسی خبریں آرہی ہیں جو عندیہ دیتی ہیں کہ پاک-بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے بہت سوچ بچار اور بیک ڈور ڈپلومیسی کی بدولت ایک روڈ میپ تیار ہوچکا ہے۔ سیز فائر والا معاہدہ اس راستے پر سفر کا آغاز تھا۔ اس سفر میں پیش رفت دکھاتے مزید کونسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ ان کی بابت بھی ہمارا میڈیا متجسس نظر نہیں آرہا۔

پاکستانی صحافیوں کی بے اعتنائی کے برعکس چند بھارتی صحافی جنہیں خارجہ اور دفاعی امور کے حوالے سے بہت ’’باخبر‘‘ شمار کیا جاتا رہا ہے پاک -بھارت تعلقات میں نظر آتی حالیہ پیش رفت سے حیران نظر آرہے ہیں۔ انہیں اس ضمن میں بلکہ اہم ترین ’’خبریں‘‘ Miss کرنے کا ملال لاحق ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اب کچھ ’’تحقیق‘‘ کرتے ہوئے خفت مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں بھارت کے ایک صحافی پراوین سوامی نے دو روز قبل ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ اس کے ذریعے دعویٰ ہوا کہ اگست 2018 میں عمران حکومت کے برسر اقتدار آنے کے چند ہی دنوں بعد پاکستان اور بھارت کے مابین بیک ڈور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ عمران حکومت سے قبل نواز شریف جیسے وزرائے اعظم جب بھارت سے ایسے مذاکرات کا آغاز کرتے تو عموماََ پاک فوج کی قیادت کو اس سے بے خبر رکھنے کی کوشش کرتے۔ واجپائی اور مودی سرکار سے روابط استوار کرتے ہوئے ایسا ہی رویہ اختیار ہوا۔ عمران حکومت نے ایسے رویے سے اجتناب برتا۔

سوامی کے لکھے مضمون سے قطع نظر بدھ کے دن سے پاکستان کے ایک ریٹائرڈ سفارت کار -عبدل باسط- صاحب کی ایک کتاب کا پرشور ذکر شروع ہو چکا ہے۔ یہ کتاب ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی ہے۔ اس میں ہوئے اہم ’’انکشافات‘‘ لیکن باسط صاحب نے ایک مشہور بھارتی صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ہوئے ایک انٹرویو میں بیان کر دئیے ہیں۔ باسط صاحب کے ’’انکشافات‘‘ کا بنیادی خلاصہ یہ ہے کہ شریف خاندان محض اپنے کاروباری مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھارت کا دوست ہونے کو مرے جارہا تھا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور عسکری قیادت کو اس ضمن میں اعتماد میں لینے کا تردد ہی نہیں ہوتا تھا۔ باسط صاحب نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ ان کے دئیے مشورے بھی قطعاََ نظرانداز ہوتے رہے۔

باسط صاحب سے قبل وزارتِ خارجہ سے ریٹائر ہوئی ایک خاتون سفارت کار نے بھی چند یوٹیوب چینلوں کو ایسے ہی انٹرویو دئیے تھے۔ محترمہ کئی برس تک بھارت میں پاکستان کے سفارت خانے سے وابستہ رہی ہیں۔ بعدازاں وزارتِ خارجہ کی ترجمان بھی رہیں۔ تعلق ان کا آزادکشمیر سے ہے۔ انہوں نے بھی نواز شریف کو اپنے کاروباری مفادات کی خاطر بھارت کے ’’تھلے‘‘ لگا بتایا تھا۔ باسط صاحب اورمذکورہ خاتون سفارت کار کے دلوں میں جمع ہوئے غصے کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ میں ان سے بخوبی آگاہ ہوں۔ بیان کرنے کا مگر حوصلہ نہیں۔ میری اس ضمن میں خاموشی کو تاہم بزدلی نہیں بلکہ حب الوطنی شمار کیا جائے تو آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ ویسے بھی مجھے سوامی کے لکھے مضمون کی جانب لوٹنا ہے۔

مذکورہ مضمون کی ابتداء میں ’’پولو کھیلنے والے‘‘ پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل کا ذکر ہوا ہے جو سوامی کے بقول عمران حکومت ہی نہیں ہمارے آرمی چیف کی ایماء پر بھی بھارت سے بیک ڈور ڈپلومیسی کی راہ بنانے کے لئے چنے گئے تھے۔ سوامی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی -RAW- کے ایک تامل زبان بولنے والے افسران کے ساتھ رابطے میں رہے۔ دونوں کے مابین زیادہ تر ملاقاتیں لندن میں ہوئیں۔ بعدازاں برطانوی حکومت کے اہم نمائندے بھی ان ملاقاتوں کو بارآور بنانے میں حصہ ڈالتے رہے۔ بالآخر ایک روڈ میپ تیار ہوگیا۔ گزشتہ ماہ سیز فائر والے اعلان کے بعد اس پر سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔

’’پولو کھیلنے والے‘‘ جس پاکستانی افسر کا ذکر ہوا ہے ان کا نام بھی مجھے معلوم ہے۔ ذاتی طور پر وہ انتہائی کم گو اور نفیس آدمی ہیں۔ موجودہ بھارت کی برطانوی دور میں قائم رہی ایک ریاست کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو ان کے ’’تجزیہ‘‘ پر ہمیشہ بہت اعتماد رہا ہے۔ ہمارے آرمی چیف بھی ان کے مداح بتائے جاتے ہیں۔

خارجہ امور کی بابت رپورٹنگ کی 20 سے زیادہ برسوں تک پھیلی مشقت نے مجھے سکھایا ہے کہ خارجہ امور میں واقعات’’اچانک‘‘ نہیں ہوا کرتے۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو مثال کے طور پر یاد رہا ہوگا کہ عمران خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو ایک روز خصوصی طیارے کے ذریعے نئی دہلی چلے گئے تھے۔ وہاں ان کی بھارت کے وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی۔مودی سے ملاقات کے بعد وہ اس دن وطن لوٹ آئے تھے۔

مودی کی عمران خان صاحب سے ان دنوں ملاقات کے لئے رضا مندی یہ عندیہ دے رہی تھی کہ موصوف تحریک انصاف کے سربراہ کو پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم تصور کر چکا ہے۔ اس ملاقات میں بھی کسی ’’روڈ میپ‘‘ ہی کے خدوخال طے ہوئے ہوں گے۔ اگست 2018 میں بالآخر عمران خان صاحب پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں نریندر مودی کو مدعو کرنے کی بات بھی چلی تھی۔ یہ مگر آگے نہ بڑھ پائی۔ مذکورہ تقریب میں تاہم بھارت کے کرکٹر سے سیاستدان ہوئے ایک صاحب شریک ہوئے تھے۔ ان کی آمد کرتا پور راہداری کے اجراء کا باعث ٹھہرائی گئی۔ کرتا پور راہداری نے پاک-بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی جو راہ نکالی تھی وہ اگرچہ زیادہ بارآور ثابت نہ ہوئی۔ دریں اثناء پلوامہ ہوگیا اور دونوں ملک بلکہ ایک اور جنگ کے بہت قریب پہنچ گئے۔ جنگ ٹل جانے کے بعد بھارت میں عا م انتخابات ہوئے تو عمران خان صاحب نے برملا اعلان کیا کہ اگر مودی یہ ا نتخاب جیت گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی جرأت بھی دکھائے گا۔ بھارتی وزیر اعظم نے مگر 5 اگست 2019 کے روز ایک اور نوعیت کی ’’’جرأت‘‘ کا مظاہر کیا۔ وقت مگر اب آگے بڑھ چکا ہے۔ پاک -بھارت تعلقات کے حوالے سے خفیہ سفارت کاری کے ذریعے طے ہوئے ’’روڈ میپ‘‘ میں کچھ تبدیلیاں بھی لائی گئی ہوں گی۔ میں ان کی بابت ہرگز باخبر نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نواۓ وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author