نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند روز قبل چھپے ایک کالم میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ سپر طاقتوں کی دو نمبریاں بھی ’’سپرکلاس‘‘ ہوتی ہیں۔ اپنی عمر کی دو دہائیاں خارجہ امور کی بابت رپورٹنگ کی نذر کرتے ہوئے میں نے اس حقیقت کو بارہا بروئے کار دیکھا ہے۔ میرے چند بہت ہی پڑھے لکھے دوست مگر وہ کالم پڑھنے کے بعد ناراض ہوگئے۔ اصرار کرتے رہے کہ حال ہی میں منتخب ہوئی جوبائیڈن انتظامیہ ٹرمپ سے قطعی مختلف خیالات کی حامل ہے۔ وہ امریکہ کو ایک بار پھر دُنیا بھر میں ’’جمہوری نظام‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ وغیرہ کا یک و تنہا حامی و ناصر دکھانا چاہے گی۔ پاکستان کی آدھی تیتر آدھا بٹیر نما جمہوریت کو جسے Hybrid پکارتے ہوئے معزز بنایا جاتا ہے، بائیڈن سے خیرکی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ کج بحثی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے میں عاجزی سے اپنی سوچ پر ڈٹا رہا۔
بائیڈن انتظامیہ سے پاکستان میں ’’اصل جمہوریت‘‘ کے اصرار کی توقع باندھے ہوئے دوستوں کو جانے کیوں یاد نہیں رہتا کہ ہمارے ہمسائے میں ایک ملک ہے۔ نام ہے اس کا افغانستان۔ نائن الیون کے بعدبش انتظامیہ نے اسے امریکی اور نیٹو افواج کی سرپرستی میں ’’جدید جمہوری مملکت‘‘ بنانے کی کوشش شروع کی تھی۔ مہلک اور جدید ترین اسلحے کا بے دریغ استعمال، ہزاروں قابض فوجیوں کی ہلاکت اور لاکھوں افغان شہریوں کی اموات کے باوجود مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہوا۔ اسی باعث اوبامہ نے دہائی مچائی کہ امریکہ کو اپنے وسائل دوسرے ممالک میں ’’جمہوریت‘‘ پھیلانے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس نعرے کی وجہ سے بالآخر وائٹ ہائوس پہنچ گیا۔ عراق سے امریکی افواج نکال لیں۔ ان کے انخلاء نے داعش نامی تنظیم کو جنم دیا اور شام جیسے مستحکم ملک کو بھی انتشار کی لپیٹ میں لے لیا۔ افغانستان میں تاہم اس نے مزید فوج بھیج کر معاملات سنبھالنے کی کوشش کی۔ ناکام رہا۔ اس کے جارحانہ رویے نے بلکہ پاکستان میں بھی مذہبی انتہاء پسندی کے نام پر ہوئی دہشت گردی کی آگ بھڑکائی۔ پاکستان کے ریاستی اداروں کو اس آگ پر قابو پانے میں کئی برس لگے۔
ہمارے ہاں نازل ہوئی قیامت کے باوجود Do More کے تقاضے ہوتے رہے۔ اوبامہ کے بعد ٹرمپ برسر اقتدار آیا تو یہ تقاضے پاکستان کے خلاف توہین آمیز ٹویٹس کی بھرمار کے ذریعے برسرعام آنے لگے۔ ٹرمپ کو بالآخر مگر اپنا رویہ بدلنا پڑا۔ جولائی 2019 میں اس نے بہت چائو سے پاکستان کے وزیر اعظم کو وائٹ ہائوس مدعو کیا۔ ان کی دلجوئی کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ’’ثالثی‘‘ کی پیش کش بھی کی۔ اصل مقصد اگرچہ پاکستان کو افغانستان سے امریکی افواج کی باعزت واپسی کی راہ تلاش کرنے میں اپنا شریک کار بنانا تھا۔ ہمارے تعاون کے بغیر دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ممکن نہیں تھے۔ ان مذاکرات کے اختتام پر ایک سمجھوتے کے کلیدی خد و خال طے ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران طے ہوئے اس معاہدے کو بائیڈن انتظامیہ نے مسترد نہیں کیا ہے۔ اسی باعث مذکورہ معاہدے کا نگران زلمے خلیل زاد اپنے منصب پر ابھی تک براجمان ہے۔
دوحہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق امریکہ کو مئی 2021 کے آغاز تک افغانستان سے اپنی افواج کو باہر نکالنا ہے۔ اس مہینے کی جانب بڑھتے ہوئے لیکن افغانستان میں پرتشدد حملے تیز تر ہو چکے ہیں۔ نظر بظاہر ’’ترقی پسند صحافیوں‘‘ خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان حکومت سے وابستہ ہر سطح کا اہلکار ’’سامراج کی کٹھ پتلی‘‘ شمار ہوتا ہے۔ وہ ’’قابض افواج‘‘ کے خلاف جنگ میں مصروف ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کا جائز ہدف یا Legitimate Target ہے۔
افغانستان میں پرتشدد حملوں میں تیزی نمودار ہوئی تو امریکہ کے ’’لبرل‘‘ میڈیا اور تھنک ٹینکس میں ان کی بابت واویلا شروع ہوگیا۔ بائیڈن انتظامیہ کو یہ باور کروانے کی کوشش شروع ہوگئی کہ افغانستان سے امریکی افواج کا دوحہ معاہدے کے مطابق مئی میں انخلاء اس ملک میں خانہ جنگی کو خوفناک بناد ے گا۔ امریکی افواج کے وہاں سے انخلاء کے چند ہی مہینوں بعد طالبان افغانستان میں دوبارہ برسراقتدار آجائیں گے۔ نائن الیون کے بعد سے جن ’’روشن خیالوں‘‘ نے ان کے خلاف امریکی افواج کا ساتھ دیا تھا زندہ رہنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ مذکورہ انخلاء سے قبل لہٰذا کوئی ایسا بندوبست ڈھونڈا جائے جو اس امر کو یقینی بنائے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے تمام سیاسی فریق ایک دوسرے کو برداشت کریں گے۔
’’لبرل‘‘ میڈیا اور تھنک ٹینکس کی جانب سے ہوئے واویلے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ اشاروں کنایوں میں اس خواہش کا اظہار کرنے کو مجبور ہوئی کہ مئی 2021 میں متوقع انخلا کو مزید کچھ ماہ تک مؤخر کر دیا جائے۔ دریں اثناء افغانستان کے سیاسی فریقین کے مابین ترکی میں مذاکرات ہوں۔ ان مذاکرات کے ذریعے کوئی ’’عبوری حکومت‘‘ قائم ہو جس میں یہ فریقین اپنے جثے کے مطابق حصہ لیتے نظر آئیں۔ افغان فریقین کے مابین ہوئے ’’بندوبست‘‘ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے اقوام متحدہ سے یہ درخواست بھی ہوئی کہ وہ اپنی زیر نگرانی افغانستان کے ہمسایے ممالک کے درمیان مذاکرات کا بندوبست کرے۔ پاکستان اور ایران اس امن میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ روس اور ترکی بھی کئی حوالوں سے افغان مسئلے کے Stakeholders تسلیم کئے جاتے ہیں۔ امریکہ کو وہاں سے اپنی فوجیں نکالنا ہیں۔ امریکہ نے مگر بھارت کو بھی اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات میں شریک کرنے کا تقاضہ کیا ہے۔ بھارت کا نام سنتے ہی میں چونک گیا تھا اور اس کالم کی ابتداء میں جس کالم کا حوالہ دیا ہے اس کے ذریعے اس خدشے کا اظہار کردیا تھا کہ پاکستان کے لئے بھارت کو افغانستان کے معاملات سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنا بہت مشکل ہوگا۔
میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ پاکستان کو اس کے بارے میں تیارکرنے کی کوششیں لہٰذا شروع ہوگئی ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے حوالے سے تاریخی ’’تھانے دار‘‘ تصور ہوتے برطانیہ سے اس تناظر میں تعاون کی درخواست ہوئی۔ انتہائی راز داری سے بحرین میں افغانستان اور پاکستان کے سکیورٹی حکام کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بذاتِ خود ان مذاکرات میں شرکت کی۔ مذاکرات کو ’’بامقصد‘‘ بنانے کے لئے برطانوی افواج کے سربراہ بھی وہاں تشریف لائے۔ اسلام آباد میں تعینات برطانوی سفیر بھی مذکورہ گفتگو میں موجود رہا۔
ان مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے ہمارے آرمی چیف سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو بھی کی۔ امریکہ کے انتہائی ’’باخبر‘‘ اور ’’آزاد‘‘ تصور ہوتے میڈیا میں تاہم اس فون کا ذکر تک نہیں ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ امریکی عوام سے یقینا چھپانا چاہ رہی تھی کہ اس کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے آرمی چیف سے اپنی مشکلات کے ازالے کے لئے داد فریاد کی ہے۔
’’خبر‘‘ مگر چُھپی نہ رہی۔ میری دانست میں اس اہم ترین خبر کو پاکستان کے ARY ٹی وی کے صابر شاکر صاحب نے سب سے پہلے بریک کیا۔ اپنے یوٹیوب چینل پر انہوں نے 54 منٹ تک پھیلی گفتگو کے اہم نکات بھی تفصیل سے بیان کر دئیے۔ صابر شاکر کی وساطت سے خبر جب منظر عام پر آگئی تو دو دن گزر جانے کے بعد امریکی وزارتِ خارجہ کی بریفنگ میں اس کی بابت سوالات اٹھائے گئے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے سفارتی زبان میں اس خبر کی تصدیق کردی کہ پاکستان کے آرمی چیف سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ تفصیلات بتانے سے اگرچہ گریز کیا۔ حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ افغان امور کے ’’حتمی ماہر‘‘ اور اس ملک پر موٹی موٹی کتابیں لکھنے والے کسی امریکی صحافی نے ابھی تک امریکی وزیر خارجہ اور پاکستان کے آرمی چیف کے درمیان ہوئی گفتگو کے اہم ترین نکات کسی ’’خبر‘‘ یا مضمون کے ذریعے بیان نہیں کئے۔ ان کی خاموشی مجھے سوچنے کو مجبور کر رہی ہے کہ ’’’گوٹ‘‘ کہیں پھنس گئی ہے۔ پاکستان سے ایک بار پھر Do More کا تقاضہ شروع ہوگیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر