نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا میں تحریک انصاف کا حامی ہوں؟||محمد عامر خاکوانی

کئی دوستوں نے میری مخٰتلف پوسٹوں پر اپنے کمنٹس میں یہ بات کہی کہ میں تحریک انصاف کا باقاعدہ حامی ہوں، اس لئے عمران خان کی حمایت میں پوسٹیں کر رہا ہوں۔ یہ بات درست نہیں ۔ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں ہوں کیونکہ ۔۔۔۔۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی دوستوں نے میری مخٰتلف پوسٹوں پر اپنے کمنٹس میں یہ بات کہی کہ میں تحریک انصاف کا باقاعدہ حامی ہوں، اس لئے عمران خان کی حمایت میں پوسٹیں کر رہا ہوں۔ یہ بات درست نہیں ۔ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں ہوں کیونکہ ۔۔۔۔۔
نمبر ایک : میں تحریک انصاف کی ڈھائی سالہ کارکردگی سے بالکل مطمئن نہیں۔ میرے خیال میں خان صاحب نے جو نعرے لگائے، جو ایجنڈا دیا، وہ اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے۔
نمبردو: میرے خیال میں عمران خان نے اچھی ٹیم منتخب نہیں کی۔ خاص کر پنجاب میں انہوں نے دانستہ طور پر ایک انتہائی نالائق، نکمے اور کمزور شخص کو وزیراعلیٰ بنایا، جو قطعی طور پر میرٹ پر نہیں آتا تھا۔ اگر ان صاحب کی اہلیت کو نمبر دئیے جائین تو دس میں سے شائد ایک بھی نہ ملے اور ڈھائی سالہ کارکردگی پر نمبر دئیے جائیں تو یقینی طور پر دس میں سے ایک یا ڈیڑھ سے زیادہ نہیں بنتے۔ ایسے شخص کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ایک خوفناک سیاسی غلطی ہے۔ عمران خان کو اس پر پچھتانا پڑے گا اور وہ وقت زیادہ دور نہیں۔
مرکز میں بھی عمران ٰخان نے بہتر کابینہ نہیں بنائی، ان کے کئی وزیر نکمے اور بعض بڑبولے ہیں، خان صاحب نے کبھی انہیں روکنے اور کام پر فوکس کرنے کی ہدایت نہیں کی۔ ان کے متعدد وزرا کے کام پر پچھلے دو ڈھائی برسوں میں ایک سطر بھی میڈیا میں شائع نہیں ہوئی، کوئی کام ایسا کیا ہی نہیں کہ اس کی تعریف کی جاتی۔
نمبر تین : عمران خان نے اہم اداروں اور خاص کر علمی ادبی اداروں میں ایک بھی ایسا شخص نہیں لگایا جس کی ستائش کی جا سکے۔ مسلم لیگ ن کے دور میں مقتدرہ پاکستان میں افتخار عارف، لغت بورڈ میں عقیل عباس جعفری، سائنس بورڈ میں ناصر عباس نیئر جبکہ مجلس ترقی ادب میں ڈاکٹر تحسین فراقی اور درالثقافت اسلامیہ میں قاضی جاوید جیسے لوگوں کو لگایا۔ سب بہترین تقرر تھے، کسی کے میرٹ پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ افتخار عارف پر یہ تنقید ہوسکتی ہے کہ بار بار عہدے لئے، مگر ان کے میرٹ پر کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
تحریک انصاف نے ایک بھی اچھا تقرر نہیں کیا۔ حال ہی میں ڈاکٹر تحسین فراقی کو بھونڈے طریقے سے ہٹا کر جو تقرر کیا گیا وہ بھی نامناسب تھا، کسی نے اس فیصلے کی ستائش نہیں کی۔ پچھلے دو برسوں میں سالانہ صدارتی ایوارڈز میں بھی ایسے فیصلے نہیں ہوئے جس پر داد وتحسین کی جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی پوری ٹیم میں ایک بھی ایسا سکالر شخص نہیں جس سے کوئی امید کی جا سکے اور جو خان صاحب کو اچھا مشورہ دے سکے اور جس کی وجہ سے کسی علمی ادبی حوالے سے اچھا فیصلہ ہو۔
نمبر چار: خان صاحب کی گورننس بھی خاصی مایوس کن رہی ہے۔ ان کو ووٹ سوشل ریفارمز لانے کے لئے دئیے گئے۔ پولیس کی اصلاح، میرٹ پر ٹرانسفر پوسٹنگ، تعلیم اور صحت کے حوالے سے اہم اقدامات کرنا، سول سروس امتحانات میں انگریزی اشرافیہ کی حوصلہ شکنی کر کے لوئر مڈل کلاس اردو میڈیم کے آگے آنے کی راہ ہموار کرنا، اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنا، صاف پانی، ماحولیات وغیرہ کے حوالے سے کام کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام حوالوں سے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ کم از کم ایسا کچھ نہیں ہوا جس پر تحسین کی جا سکے۔ وہی روٹین کا کام جو ن لیگ پہلے ہی کر رہی تھی، بعض حوالوں سے ان سے بھی کم کام ۔
نمبر پانچ : مہنگائی کی خوفناک لہر جس نے ہر ایک کو متاثر کیا ہے۔ وہ تمام مشکل فیصلے جو سیاسی حکومتیں نہیں کر پاتیں، تحریک انصاف کی حکومت بڑھ چڑھ کر کر رہی ہے، وہ متبادل راستہ نکالنے کی زحمت بھی نہیں کرتی اور فوری طور پر پٹرول ، بجلی، گیس مہنگی کر دیتے ہیں۔ کہیں سے کوئی ریلیف نہیں اور شائد اگلے دو ڈھائی برس بھی ایسا ممکن نہ ہو۔
عمران خان اپنی جن معاشی اصلاحات کے کریڈٹ لیتے ہیں، ان میں سے کچھ باتیں ٹھیک ہیں، ان پر سراہنا چاہیے، جیسے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی، امپورٹس پر کچھ قدغن وغیرہ۔ ان کی معاشی پالیسیاں مگر کامیاب نہیں، بلا سوچے سمجھے بہت سے کام کئے گئے، بہت سے یوٹرن لئے گئے اور یہ حقیقت ہے کہ شرح ترقی خوفناک حد تک نیچے گئی۔
کورونا کے حوالے سے ہمارے ہاں حالات بہتر رہے، اس کا کچھ کریڈٹ تو حکومت کو دیا جا سکتا ہے، مگر پچاس فیصد سے کم۔ زیادہ تر اللہ کی رحمت ہی ہوئی، ورنہ کورونا ایس اوپیز کی خوفناک خلاف ورزی پچھلے کئی ماہ سے ہوتی رہی اور اگر لاکھوں لوگ نہیں مرے تو یہ رب کی رحمت ہی ہے، ورنہ ایسی کوئی پابندی حکومت نے نہیں لگائی جس بنا پر یہ کامیابی ہو پاتی۔
مجموعی طور پر میں عمران خان کی حکومتی کارکردگی کو دس میں سے بمشکل چار پوائنٹ دے سکتا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ انہیں برے حالات ورثے میں ملے ورنہ تو نمبر ڈھائی سے تین ہی بنتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس برے حالات کے باوجود بہت کچھ حکومت کر سکتی تھی، مگر نہیں کیا گیا۔ ویژن کی کمی ، اچھے مشیروں کا نہ ہونا اور وزیراعظم کے عدم فوکس کی وجہ سے ۔ ایک طویل فہرست ان علامتی مگر اچھے کاموں کی بنائی جا سکتی ہے جو پیسے نہ ہونے کے باوجود کئے جا سکتے تھے، مگر نہیں کئے گئے، امکان قوی ہے کہ اگلے ڈھائی برسوں میں بھی نہیں کئے جائیں گے۔
اس سے پہلے بھی میں عمران خان کی ضرورت سے زیادہ جارحانہ پالیسی ، ان کے دھرنوں کا مخالف اور ناقد رہا، ان کے خلاف ان دنوں کالم لکھے، اپنے سیاسی مخالفوں کے لئے ان کے جارحانہ لب ولہہجہ اور سخت الفاظ کا بھی میں ناقد رہا۔ حکومت میں بھی ان کایہی رویہ رہا ہے، بلکہ کچھ بڑھ گیا۔
یہ تمام باتیں ثابت کرتی ہیں کہ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں ورنہ ان کے حامی ان تمام نکات کو تسلیم نہیں کرتے، وہ عمران خان کی حکومت کا دفاع کرتے ہیں، ان کی کارکردگی کے عجیب وغریب دعوے کرتے اور ایسی طویل فہرست گنواتے ہیں جنہیں ذہن قبول ہی نہیں کرتا۔ وہ عمران خان کے جارحانہ انداز اور گاہے بدزبانی کی بھی تاویل کرتےہیں، خان کی بری تقرریوں کو ناپسند کرنے کے باوجود ان کی بھی تاویل نکال لیتے ہیں۔
خاکسار ایسا نہیں کرتا اور یہ بات صرف فیس بک پر نہں بلکہ اپنے کئی کالموں میں لکھ چکا ہے۔ یہ سب ریکارڈ پر ہیں اور نائنٹی ٹو نیوز کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ میری وال پر بھی میرے سب کالم موجود ہے، کوئی چاہے تو کچھ وقت لگا کر نیچے سکرول کر کے جا کر پڑھ سکتا ہے۔
اس کے باوجود میں عمران خان کا مخالف نہیں، انہیں بطور تحقیر نیازی نہیں کہتا، کیونکہ نیازی ایک معتبر پٹھان قبیلہ ہے اور عمران خان کی تمام عمر شناخت عمران خان کے طور پر رہی ہے بطور نیازی نہیں، اس لئے انہیں عمران خان نیازی کہنا دراصل ایک گھٹیا کمپین کا حصہ ہے جو کہ ن لیگ کے میڈیا سیلز نے تخلیق کی۔
میں عمران خان کو یہودی ایجنٹ، غیر محب وطن، کشمیر بیچ دینے والا وغیرہ وغیرہ نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک عمران خان کی حب الوطنی کسی بھی قسم کے شک وشبے سے بالاتر ہے۔ وہ تمام عمر بطور کھلاڑی ملک کی خاطر جان لڑانے والے تھے اور آج بھی ایک سچے نیشنلسٹ ہیں۔ اس امر کے لئے بے شمار دلائل اور ثبوت موجود ہیں۔
میں عمران خان کو ایک مقبول لیڈر سمجھتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کے بعد وہ پاکستان کی جدید تاریخ کے دوسرے مقبول ترین عوامی لیڈر ہیں، اگرچہ بھٹو کی طرح عمران خان کا بھی ایک خاصا بڑا اینٹی حلقہ پیدا ہوا ہے جو اسے نفرت کی حد تک ناپسند کرتا ہے۔ بھٹو کی طرح عمران خان نے بھی اپنے اینٹی حلقے کو وسیع کرنے میں خود حصہ لیا ہے یہ دونوں کی غلطی ہے۔
میں عمران خان کو سلیکٹیڈ اور کٹھ پتلی نہین سمجھتا۔ یہ درست ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا اور اس کی مدد سے شریف خاندان کو اقتدار سے نکالا، اقتدار میں آنے اور ڈھائی سال گزارنے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد اور سپورٹ شامل رہی۔ کوئی اس سے انکار کرے تو یہ دیانت نہیں ۔
عمران خان سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی اس لئے نہیں کہ اس کا بڑا ووٹ بینک اور فالوئنگ ہے۔ دو ہزار تیرہ میں جب اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ تھی اور عمران خان کے پاس بیشتر جگہوں پر اچھے امیدوار اور پولنگ ایجنٹ بھی نہیں تھے، تب بھی اس نے ستر لاکھ ووٹ لئے، لاہور جیسے شہر میں اسے سات لاکھ ووٹ ملے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کو ڈیڑھ کروڑ ووٹ ملے، اچھے امیدواروں اور الیکٹ ایبلز کی موجودگی میں اس کے ووٹ بڑھنے قابل فہم ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن میں رگنگ ہوئی۔ البتہ پری پول رگنگ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، الیکٹ ایبلز کی تحریک انصاف میں شمولیت کی ایک وجہ ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا ہونا تھا۔کچھ امیدواروں کو جیسے جنوبی پنجاب صوبہ کو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی طرف جانے کا کہا بھی ہوگا۔ شواہد اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
عمران خان مگر پاپولر نہ ہوتا تو الیکشن نہ جیت سکتا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ جتوا سکتی تو ق لیگ ہمیشہ اقتدار میں رہتی، یہ ایک فیکٹر ہے، مگر پانچ دس فیصد سے زیادہ نہیں۔
ن لیگ جیتتی رہی تو اسٹیبلمشنٹ کی سپورٹ کے باوجود بہت کچھ شریف برادران کی محنت، نیٹ ورکنگ اور الیکٹ ایبلز کو ساتھ جوڑے رکھنے کی وجہ سے تھا۔ ایسا نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے نواز شریف جیتتے رہے اور اب چونکہ وہ عمران خان کے ساتھ ہے تو یہ جیت گئے۔ ایسا کہنا پاکستان کے سیاسی معروضی حالات اور زمینی حقائق سے انکار ہوگا۔
مجھے اس کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت موجود پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت سے زیادہ ایماندار ہے، حقیقت یہ ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے امیر کہ کوئی بھی نمایاں سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کی قیادت عمران خان سے بہتر دیانت دار ہو۔
اپنے اقتدار کے ڈھائی برسوں میں عمران خان نے اپنی ایمانداری ثابت کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص موجود نہیں جو کھڑا ہو کر عمران خان پر جھوٹا الزام ہی لگا دے کہ اس نے اتنے پیسے لے کر فلاں ٹرانسفر پوسٹنگ کی ، فلاں وزیر کو کروڑوں روپے لے کر بنایا، فلاں شخص کو گورنر پیسے لے کر بنایا۔میں جھوٹے الزام کی بات کر رہا ہوں، سچ کی نہیں۔ جھوٹا الزام تو کسی پر بھی لگایا جا سکتا ہے، مگر جماعت اسلامی کی قیادت کے بعد صرف عمران خان ایسا لیڈر ہے جس پر جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ پاکستانی سیاست میں بہت بڑی بات ہے۔
یاد رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عمران خان کی ٹیم میں ایماندار لوگ ہیں۔ نہیں اس نے بے پناہ کمپرومائزز کئے، بہت سے کرپٹ ، کیئی بدنام زمانہ لوگ اس کے ساتھ شامل ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں وہ ماضی میں برا کہتا رہا، حالات نے اسے ان کے ساتھ بھی اتحادی بننے پر مجبور کر دیا۔ یہ حقیقت ہے۔ کوئی اسے جھٹلا نہیں سکتا۔ وہ چودھری برادران کو جو کچھ کہتا رہا، آج انہیی کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہے۔
اس کے ساتھ بہت سے اچھے ا یماندار لوگ بھی موجود ہیں، وزرا میں بھی شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری، علی محمد خان، مراد سعید، حماد اظہر اور کئی دیگر ایسے ہیں جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، وہ پاکستانی سیاسی پیمانوںکے حساب سے شفاف ہیں، تاہم کئی کمزور شہرت والے بدنام لوگ بھی اس کے وزرا ہیں۔ اس حساب سے اس نے کمپرومائزز کئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت کہ ہے کہ بعض اہم عہدوں پر اس نے مالی اعتبار سے شفاف اور بہت بہتر لوگ لگائے۔ جیسے صدر مملکت، جیسے گورنر پنجاب، جیسے گورنر سندھ وغیرہ۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ کے پی بھی نااہل تو ہیں، مگر اس طرح سے کرپٹ نہیں جیسے پیپلزپارٹی کے ہاتھ ڈھیروں ڈھیر بیٹھے ہیں۔
اس لئے عمران خان کی حکومتی کارکردگی سے مایوسی ہے، اس کی ٹیم سے سخت مایوسی ہے، اس نے جو وقت ٓضائع کیا اور جو کچھ کر سکتا تھا، وہ نہیں کر پایا، اس سے بھی دل خوش نہیں ، اداسی اور مایوسی ہے۔
یہ مگر حقیقت ہے کہ جتنے کرپٹ ، موقعہ پرست، اقتدار کے لالچی اور مفاد پرست ہونے کے ساتھ اس کرپٹ، گلے سڑے نظام کے حامی پی ڈی ایم میں موجود ہیں، تحریک انصاف اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود ان سے بہتر ہے۔ پی ڈی ایم کو اس اعتبار سے دس میں سے دس نمبر مل سکتےہیں، تحریک انصاف کو دس میں چھ یا زیادہ سے زیادہ سات نمبر۔ پ
ی ڈی ایم مسلسل تین بار پھر اقتدار میں آ جائے تب بھی سسٹم میں معمولی سی اصلاح بھی نہیں ہوسکتی، یہی نظام چلتا رہے گا، مزید بدبو دار ہوجائے گا۔ البتہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے جو غلطیان تحریک انصاف کے وزرا کر تے ہیں پی ڈی ایم کے تین تین چار چار مرتبہ وزیر رہنے و الے گھاگ ، پرانے پاپی وہ عام غلطیاں نہیں کریں گے۔ یہ مگر کوئی بڑا ایڈوانٹیج نہیں۔
پی ٹی آئی کا چونکہ لیڈربنیادی طور پر کرپٹ نہیں، اپنی نالائقی ، ناتجربے کاری اور کمزور ٹیم کے باوجود وہ بعض حوالوں سے ریفارمز لانے کا حامی ہے، وہ پیسے بنانے ا قتدار میں نہیں آیا، نوٹوں کی بوریاں بھرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں، وہ بین الاقوامی معاہدے کرتے ہوئے اربوں ڈالر کا کمیشن نہیں لے گا، کک بیکس نہیں پکڑے گا۔ اس لئے اسے حسن ظن کی معمولی سی رعایت ملنی چاہیے۔
شوگر، آٹا، پٹرول اور دیگر بحران اس حکومت میں بھی آئے، شائد آتے رہیں گے، اس کی وجہ مگر یہ نہیں کہ عمران خان ان بحرانوں سے ایک دو ارب ڈالر کما کر باہر جائیداد بنانا چاہتا ہے بلکہ اس کی ٹیم میں شامل گندے انڈےہیں،۔ندیم بابر، رزاق دائود جیسے مشکوک لوگ اس کی وجہ ہیں۔ اور اسد عمر جیسے ناتجربہ کار اور کسی ٓحد تک نالائق وزرا بھی اس کی وجہ ہیں۔
اتنی طویل وضاحت سے میری پوزیشن واضح ہوگئی ہوگی۔ میں تحریک انصاف کا حامی نہیں، اس کی حکومتی کارکردگی کا دفاع نہیں کرتا، اس کی پارٹی پوزیشن اور پالیسیوں کا دفاع نہیں کرتا بللکہ بہت سی پالیسیوں کا ناقد ہوں۔
البتہ مجھے عمران خان سے تھوڑا سا، تھوڑا سا پر زور دے رہا ہوں حسن ظن ضرور ہے۔ مین اسے حسن ظن کی رعایت نہیں دیتا۔ اس کی ہر غلط پالیسی ، ہر غلط تقرر ، ہر غلط اقدام پر تنقید کرتا ہوں، اپنی جانب سے محاسبہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
تاہم میں عمران خان کے مخالف کرپٹ اور سٹیٹس کو کے حامی ٹولے کی حمایت بھی نہیں کر سکتا کہ ان میں بعض کرپٹ مافیاز موجود ہیں جو ان تمام خرابیوں کے ذمے دار ہیں۔
میری جانب سے یہ آخری اور تفصیلی وضاحت سمجھی جائے۔ اس پوسٹ کو سیو کر لوں گا ا ور آئندہ کسی نے یہ بات پوچھی تو اسے یہ بھیج دیا کروں گا۔
آخر میں اتنی طویل پوسٹ پڑھنے پر بہت شکریہ۔ جزاک اللہ ۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

About The Author