رفیع عامر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہباز بھٹی کو ہم سے بچھڑے دس برس ہو گئے۔
انیس سو اڑسٹھ میں لاہور کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوے شہباز بھٹی اپنی طالبعلمی کے دور سے انسانی حقوق اور اقلیتی حقوق کی ایک طاقتور آواز تھے – ریاستی بیانیہ یا اجتماعی شعور کچھ بھی کہے ، پاکستان کی اقلیتیں بہرحال ایک دوسرے درجے کے شہری کی زندگی گزارتی ہیں – شہباز بھٹی ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو اپنے گرد ظلم ہوتا دیکھ کر آنکھیں میچ لیں – اس نے صرف سترہ سال کی عمر میں مسیحی آزادی محاذ کی بنیاد رکھ کر اس سفر کا آغاز کیا جس کا انجام اس کے بہیمانہ قتل پر ہوا
جن ایام میں شہباز بھٹی نے عملی سیاست میں قدم رکھنے کا سوچا ان دنوں بینظیر بھٹو جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں – شہباز نے انہیں خط لکھا کہ وہ اپنے اقلیتی اور مسلمان دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستانی انسانی حقوق کے لئے کام کرنا چاہتا ہے جس کے جواب میں بینظیر بھٹو نے اسے لکھا کہ انہیں خوشی ہے کہ پاکستانی اقلیتوں میں اپنے حقوق کا شعور موجود ہے اور انہیں شہباز بھٹی کے ساتھ کام کر کے خوشی ہو گی
شہباز صرف بیس برس کا تھا جب اس کی آواز سیاست کے ایوانوں تک بہنچنا شروع ہو گئی اور سیاستدانوں نے اسے توجہ دینا شروع کر دی – یہ ایک ایسا مقام ہوتا ہے جہاں ایک شخص کو اپنے ذاتی مفادات کا ایک جہان امکان نظر آنے لگتا ہے – لیکن شہباز بھٹی اس قدر کوتاہ نظر نہیں تھا – اس کی جدوجہد اپنے لوگوں کی جدوجہد تھی
شہباز بھٹی کا پاکستانی ریاست سے مرکزی اختلاف توہین رسالت کے قانون پر تھا – اس کے خیال میں یہ ایک ایسا قانون تھا جس کے نفاذ میں اقلیتیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنتی ہیں – ان کی اس قانون کے خلاف مزاحمت اس قانون کے منظور ہونے سے شروع ہوئی اور تب بھی جاری رہی جب وہ خود وفاقی وزیر تعینات ہوے
کسی بھی جمہوری معاشرے میں تمام قوانین تمام طبقوں کو پسند نہیں ہوا کرتے اور کسی بھی قانون کی افادیت یا مقصد پر بحث کرنا یا اس سے اختلاف کرنا جرم نہیں ہوا کرتا – بدقسمتی سے پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے مخالف کو توہین رسالت کا حامی بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ یہ دو بالکل مختلف امور ہیں – دنیا میں لاکھوں افراد اور متعدد تنظیمیں قتل کرنے پر سزائے موت دینے کے خلاف ہیں اور وہ اپنے موقف کے حق میں سزائے موت کے قوانین میں موجود سقوم کا حوالہ دیتے ہیں – کیا اس سے یہ مراد لے لیا جائے کہ یہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ قتل کو جرم نہ سمجھا جائے ؟
توہین رسالت کے قانون پر شہباز بھٹی کی تنقید اس وقت اور شدید ہو گئی جب مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت میں گرفتار کیا گیا – اس کی توانا آواز سن کر شدت پسندوں نے اس کے دلائل کا جواب دینے کی بجائے اسے قتل کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں – شہباز بھٹی کے تب کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اسے کوئی خوش فہمی نہیں تھی کہ یہ دھمکیاں صرف گیدڑ بھبھکیاں ہیں – وہ جانتا تھا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے – اسے اپنے انجام کا تب یقین ہو گیا تھا جب شدت پسندوں نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسی قانون توہین رسالت پر تنقید کے جرم میں قتل کر دیا – اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل شہباز بھٹی نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ مجھے علم ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن میں اس یسوع مسیح کا پیروکار ہوں جس نے اپنے لوگوں کے لئے اپنی جان دی – میں صلیب کا ماننے والا ہوں اور مصلوب ہونا جانتا ہوں – میں بھاگنے کی بجائے اپنے مقصد کے لئے مرنے کو ترجیح دوں گا
اور پھر قاتلوں نے دو مارچ دو ہزار گیارہ کو شہباز بھٹی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا
فیض کے اس مصرعے کی شہباز بھٹی سے بہتر شائد کوئی مثال ممکن نہیں کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر