ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ کب سے ہمارے پاس کام کر رہی ہیں؟”
“جی بارہ برس”
“آپ تو غیر ملکی ہیں تو کیا آپ نے ہماری زبان سیکھنے کے لئے کوئی کورسسز لیے؟”
“جی نہیں”
“پھر آپ کام کیسے کرتی ہیں؟”
“وہ جی ادھر ادھر سے سن کے کچھ سیکھ لیا تو کام چل جاتا ہے”
“اچھا ذرا کچھ بول کے دکھائیے ….”
“کیا؟”
“اپنا تعارف ہی کروا دیں”
“انا دکتورہ طاہرہ، انا شغل مستشفی وزارہ”
“ہاہاہا انہیں دیکھیے، گرامر تک تو آتی نہیں ٹھیک سے۔ کمال بات ہے! ہمارے اتنے بڑے ہسپتال کی کنسلٹنٹ، تنخواہ بھی ٹھیک ٹھاک اور بول چال کا یہ حال؟”
“لیکن سب کو میری بات تو سمجھ آ جاتی ہے۔ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا اور دیکھا جائے تو یہ مادری زبان کے علاوہ تیسری غیر ملکی زبان ہے جو ہمیں آتی ہے”
“کیا مطلب؟”
“مادری زبان پنجابی، عام بول چال اردو، سکول کالج یونیورسٹی انگلش اور اب آپ کے ہاں عربی!”
“اوہ یہ تو ایک معرکہ ہے جو آپ نے سر کیا ہے۔ ہماری تو مادری زبان عربی، عام بول چال عربی، سکول کالج عربی۔ ہاں یونیورسٹی میں عربی کے ساتھ انگریزی! کیسے کر لیتے ہیں آپ لوگ؟”
کہنے کو یہ ایک خیالی گفتگو تھی لیکن عجیب سا درد لئے ہوئے تھی۔ ہم یہ تصور کر کے ہی لرز اٹھے تھے کہ کہیں کبھی دیار غیر میں کوئی ہماری عزت نفس کو پلک جھپکتے میں تار تار کر دے تو ہم پہ کیا گزرے گی؟
لیکن اگلا خیال اس سے زیادہ روح فرسا تھا اگر ایسا سلوک اپنی ہی زمین پہ اپنے ہی ہم وطن کے ہاتھوں ہو، گھر گھر رسوائی ہو اور وہ بھی ایک ایسی زبان کے لئے جو عہد غلامی کی یادگار ہو، تب!
اب ہمارا یہ سوال پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ کیا ہم واقعی انگریز کی غلامی سے آزاد ہوئے یا دیسی کالے پیلے انگریزوں نے ان کی جگہ لے لی۔ یہ سوچ ان دیسی گوریوں کی وڈیو دیکھ کے در آئی جو انہوں نے اپنے مینیجر کی ٹانگ کھینچتے ہوئے ہنس ہنس کے بنائی اور لوگوں کی تفنن طبع کا انتظام کرنے کی کوشش میں اسے وائرل بھی کردیا۔ اس کے بعد ہم جیسے دیسی پینڈو لوگوں کے احتجاج کے بعد ایک منافقانہ معافی بھی سامنے آئی جس کے مطابق وہ اپنے ملازم سے گپ شپ فرما رہی تھیں اور انہیں اس کا حق تھا!
ہمارا ان سے کچھ سوال پوچھنے کو جی چاہتا ہے۔
کیا آپ کو علم ہے کہ عزت نفس کس چڑیا کا نام ہے؟ اگر ان بیبیوں کو عزت نفس کا معنی نہ آتا ہو تو برائے مہربانی کوئی اردو میڈیم ان کے لئے ترجمہ کر دے.
کیا آپ نے یہ وڈیو بنانے اور اسے سوشل میڈیا پہ عام کرنے سے پیشتر اپنے ملازم سے اجازت لی؟ مغربی ممالک میں ہیومن رائٹس کے متعلق تو پڑھ ہی رکھا ہو گا آپ نے۔
یہ کس طرح کی دوستانہ گپ شپ تھی جس میں مالکان میز کرسی پہ براجمان ہیں اور بےچارہ ملازم ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہے؟
کیا اس دوستانہ گپ شپ میں ملازم کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ آپ کے سوالوں کا جواب نہ دیتے ہوئے آپ کا فرمائشی پروگرام بجا نہ لاتا؟
کیا اس دوستانہ گپ شپ میں آپ نے ملازم کو یہ حق دیا کہ برابری کی بنیاد پہ وہ بھی آپ کے ساتھ کچھ ملتا جلتا مذاق کرے اور وڈیو ریلیز کر دے؟
کیا آپ کے نزدیک انسانی جوہر کی پہچان یہی ہے کہ وہ آپ کی طرح غیر ملکی زبان بولنے میں ماہر ہو؟
کیا آپ نے یہ سوچا کہ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ آپ کا مالک ہوتا اور سامنے والی میز کرسی پہ بیٹھ کے آپ کو سامنے کھڑا کر کے آپ سے ایسی ہی دوستانہ گپ شپ کرتا اور وڈیو بناتا؟
کیا آپ نے کبھی اپنے کمزور ذہن پہ بوجھ ڈالنے کی کوشش کی کہ اس تقسیم میں وہ وہ کیوں ہے اور آپ آپ کیوں؟
کیا آپ کو علم ہے کہ جن لوگوں کی زبان نہ جاننے پہ آپ نے قہقہے لگائے وہاں ملازمین کے کیا حقوق ہیں؟
کیا آپ کو علم ہے کہ انگریزی بولنے والا اصل انگریز آپ کی اس حرکت کے بعد آپ کو عدالت میں گھسیٹ کر ہتک عزت کا دعویٰ کر سکتا تھا؟
کیا آپ کو علم ہے کہ حقوق انسانی کا چارٹر کیا کہتا ہے؟
کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کے پاس میراث فرعون ہے؟
کیا آپ کو علم ہے کہ آپ جیسے دیسی ان ملکوں میں نہیں رہ سکتے جہاں آپ کی رعونت کا بوجھ کوئی نہ اٹھا سکتا ہو!
کیا آپ کو علم ہے کہ آپ اس گورے کی جانشین بنی بیٹھی ہیں جس نے اس زمین کو ناجائز حربوں سے غصب کیا اور یہاں کے لوگوں کو اپنی زبان اور اپنی روایات کی طرف ملتفت کر کے غلام بنایا۔
کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ اس طبقے سے ہیں جو بائیس کروڑ دیسی لوگوں سے تعلق نہیں رکھتا۔
کیا آپ نے اس مذاق کو مشتہر کرنے سے پہلے اپنے مینیجر کے خاندان کے بارے میں کچھ سوچا کہ ان کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں؟ یا آپ کے خیال میں ملازمین اور اہل خانہ کے جذبات نہیں ہوا کرتے؟
یہ اسی طبقاتی فرق کی ایک جھلک تھی جس میں سرمائے کا مالک ہر ناجائز کو جائز بنا سکتا ہے اور قہقہے لگاتے سرمایہ دار کے سامنے کھڑا ملازم خون کے گھونٹ پی کے بھی مسکراتے ہوئے مان لیتا ہے کہ بیگم صاحبہ آج اچھے موڈ میں گپ شپ کرتے ہوئے کچھ مذاق وغیرہ کر رہی تھیں۔
آپ دونوں کے لئے ایک مشورہ بھی ہے۔ انگریزی بول کے، انگریزی کپڑے پہن کے اور انگریزی روایات پہ عمل کر کے کوئی بھی انگریز نہیں بن جاتا، بھورا ایشیائی ہی رہتا ہے۔ اور ویسے بھی ہمیں انگریز بننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ذات پات پہ یقین رکھنے والے، انتہائی کھوکھلی روایات کے اسیر، پوری دنیا میں لوٹ مار مچا کے اپنا گھر بھرنے والے، رنگ و نسل کی بنیاد پہ مظالم کی انتہا کر دینے والی گوری چمڑی والے لوگ، کیوں بنیں ہم ان جیسے؟
کیا ہم اپنی بھوری رنگت، اپنی زمین اور اپنی نسل کے متعلق احساس کمتری کا شکار ہیں؟
وطن عزیز میں انگریزی بولنے والوں نے اپنے آپ کو جس سنگھاسن پر چڑھا رکھا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں۔ منہ ٹیڑھا کر کے فراٹے دار انگریزی بولنے والی خواتین وحضرات کی گردن میں ایک نہ نظر آنے والا فخریہ تناؤ بھی کسی اچنبھے کی بات نہیں۔
بہت برسوں پہلے کی بات ہے ہم سعودی عرب پہنچے تو علم ہوا کہ دیسی ڈاکٹرز کے اہل خانہ نے ننھے منے بچوں کو انگریزی کا یہ کہہ کے اسیر بنا رکھا ہے کہ اردو اور علاقائی زبان بولنے سے بچے کا انگریزی لہجہ بگڑ جاتا ہے۔ رواں مغربی ممالک میں مقیم کا بھی کچھ ایسا ہی چلن ہے۔ سو کیا دیکھنے کو ملتا ہے، رواں انگریزی بولتے بچے، اٹک اٹک کر بات کرتے ماں باپ اور پریشانی میں ادھر ادھر دیکھتے دادا دادی۔ ہم نے یہاں بھی اپنی ہی کرنے کی ٹھانی یہ سوچ کر کہ ارے بھئی، انگریزی تو سکولوں سے سیکھیں گے اور لہجے کا کیا ہے، بھلا انگریز کیا اردو اہل زبان سی بولا کرتے ہیں؟
سو ہم نے شروع سے اپنے بچوں کو پابند کیا کہ ہم سے اور نانی سے اردو اور پنجابی میں بات کی جائے گی اور ہم انگریزی بولنے پہ قطعی جواب نہیں دیں گے۔ آج بچے امریکن یونیورسٹیوں تک جا پہنچے مگر اماں باوا سے بات چیت اردو میں ہی ہوتی ہے اور نانی جب تک رہیں، پنجابی ہی بولتی رہیں۔
چلیے آپ کو میکسم گورکی کے کچھ جملے سنا کے اجازت لی جائے۔ شاید اپنے آپ کو افضل سمجھنے والوں کی تیسری آنکھ کبھی بیدار ہو جائے۔
” فورما گورڈیوف ایک تاجر کا لڑکا ہے مگر اس میں بیداری کی چنگاری پیدا ہو جاتی ہے وہ اپنے گرد وپیش سے سخت متنفر ہو جاتا ہے،
آہ! فوما نہایت گستاخ لہجے میں پوچھتا ہے۔ اگر زر پرستی کے ان تمام برسوں کا انجام مر جانا اور فنا ہو جانا ہے تو فرمائیے سیم و زر کی اس ہوس سے فائدہ؟ آپ فخر کیوں کرتے ہیں؟ آخر آپ اترا کس چیز پر رہے ہیں؟ آپ کس لئے جیتے ہیں؟ روپیہ کیوں اکھٹا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو مرنا نہیں ہے؟ “
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ