نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ پر لمحہ بہ لمحہ نگاہ رکھنے کے نام پر جو ٹی وی نیٹ ورکس قائم ہوئے ہیں انہوں نے سیاسی عمل کو ون ڈے کرکٹ کی طرح فقط چوبیس گھنٹوں تک محدود کردیا ہے۔ ’’یک روزہ مقابلہ‘‘کے حوالے سے ’’ہار یا جیت‘‘ کا فیصلہ بھی اب سوشل میڈیا پر چھائے سیاسی جماعتوں کے اُجرتی Trollsکے واہی تباہی بھرے پیغامات کے ذریعے سنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہیجان کے اس عالم میں ہماری اکثریت کو سیاست سے متعلق انتہائی بنیادی مگر دقیق اور طویل المدتی سوالات پر غور کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ پیر کے روز ملتان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہوئے جلسے کی بابت بھی ایسا ہی رویہ اختیار ہوا نظر آرہا ہے۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں تو اس جلسے کے انعقاد سے قبل اخبارات کے عام قاری اور ٹی وی ناظرین کو پیغام یہ ملا تھا کہ عمران حکومت اسے کسی صورت ہونے نہیں دے گی۔ ملتان کے جس اسٹیڈیم میں PDM اس جلسے کا انعقاد کرنا چاہ رہی تھی اسے Seal کردیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کے فرزند نے پیپلز پا رٹی کے حامیوں کے ہمراہ مگر ’’تالے توڑدئیے‘‘۔ قانون کی ’’خلاف ورزی‘‘ کرنے والے لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگاکر انہیں ایک مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنے کے بعد جسمانی ریمانڈ پر حوالات بھیج دیا گیا۔
پکڑدھکڑ کے عمل میں شدت آئی تو PDM کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ٹی وی کیمروں کے روبرو اپنے کارکنوں کو حکم دیا کہ ’’ڈنڈے کا جواب ڈنڈے‘‘ سے دینے کی تیاری کی جائے۔ ان کا بیان ہر حوالے سے ’’ریاستی رٹ‘‘ کو للکارنے کے مترادف تھا۔ ان کے خلاف مگر کوئی پرچہ نہیں کٹا۔ گرفتاری تو دور کی بات تھی۔ اس بیان نے بلکہ مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا۔ ملتان کی پولیس اور انتظامیہ بالآخر ملتان والے جلسے کی ’’اجازت‘‘ دینے کو مجبور ہوئی۔
PDM کے گوجرانوالہ والے جلسے کی بابت بھی ایسا ہی رویہ نظر آیا تھا۔ ملتان کے بعد بنیادی پیغام لہٰذا یہ ملا ہے کہ پنجاب پولیس اور انتظامیہ ریاستی قوت کے بھرپور استعمال کے بعد بالآخر زچ ہوکر ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے۔ ’’ریاستی رٹ‘‘ اور ’’گڈ گورننس‘‘ کی دہائی مچاتے افراد کے لئے پنجاب انتظامیہ کا یہ رویہ فکر مندی کا باعث ہونا چاہیے تھا۔ ایسامگر ہوا نہیں۔ کمال ڈھٹائی سے ’’رات گئی بات گئی‘‘ سوچتے ہوئے ’’مٹی پائو‘‘ والا رویہ اختیار کرلیا گیا۔
ملتان والا جلسہ ہوگیا تو اس کے دوران ہوئی تقاریر کے ذریعے دئیے پیغام یا بیانیے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کسی جوابی بیانیے کی تشکیل کے بجائے فروعی نکات اٹھاتے ہوئے PDM کے جلسے کا اثر ضائع کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس ضمن میں ہماری ’’رہ نمائی‘‘ اور ’’ذہن سازی‘‘ پر مامور دانشوروں نے آصفہ بھٹو زرداری کی ملتان جلسے میں آمد کے حوالے سے ’’موروثی سیاست‘‘ کے خلاف روایتی سیاپا شروع کر دیا۔ یوں کرتے ہوئے وہ جنوبی ایشیاء کے منفرد ثقافتی رویوں سے قطعاََ بے خبرسنائی دئیے۔ ذرا غور کریں تو ان کا ’’تجزیہ‘‘ خود کو عقل کل تصور کرتے ’’دانشوروں‘‘ کی رعونت کا بھرپور اظہار تھا۔ ’’ذلتوں کے مارے‘‘ عام آدمی کو یہ رویہ جاہل اور سادہ شمار کرتا ہے جو ’’پسماندہ ذہن‘‘ کی وجہ سے چند سیاست دانوں اور ان کی اولاد کو ’’خاندانی پیروں‘‘ کی مانند لیتا ہے۔ وفور عقیدت سے ان کے قدموں میں بچھنے کو سوچے سمجھے بنا ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے۔
چند کتابیں پڑھنے اور خود کو ’’دانشور‘‘ تصور کرنے کی بدولت میں بھی ذاتی طور پر ’’موروثی سیاست‘‘ کا حامی نہیں۔ سیاسی عمل مگر میری پسند یا ناپسند کا محتاج نہیں ہے۔ ٹھوس سماجی،نفسیاتی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں ’’موروثی سیاست‘‘ کئی دہائیوں سے مگر اپنے تئیں ایک طاقت ور معروضی حقیقت کی صورت موجود رہی ہے۔
1964 میں جب ’’فیلڈ مارشل‘‘ ایوب خان نے بی ڈی نظام کے ذریعے بالواسطہ انتخاب کی بدولت پاکستان کا ’’منتخب‘‘ صدر ہونا چاہا تو میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرا گھر اور محلہ ایوب خان کا شدید مخالف تھا۔ وہ اداس و پریشان تھے کہ ایوب خان سے ’’جان چھوٹتی‘‘نظر نہیں آ رہی۔ چند دنوں بعد مگر خبر آئی کہ قائد اعظم کی بہن جنہیں ہم ’’مادرِ ملت‘‘ پکارتے تھے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بننے کو تیار ہوگئی ہیں۔ اس خبر نے میرے گھر اور محلے کو جس انداز میں Energise کیا اس کی حدت و توانائی کئی برس گزرنے کے باوجود آج بھی پوری شدت سے محسوس کرسکتا ہوں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کی دہائی میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو ’’غدار‘‘ ٹھہراکر ملکی سیاست سے فارغ کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس جماعت کو ’’کالعدم ‘‘ ٹھہرایا۔ ’’بھارت اورافغانستان‘‘ کے ایماء پر ملک میں ’’خلفشار‘‘ پھیلانے کے الزام میں نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت اور سینکڑوں کارکن گرفتار ہوئے۔ دریں اثناء سردار شیر باز مزاری کی قیادت میں ایک نئی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے معروضِ وجود میں آگئی۔ ولی خان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان صاحبہ اس جماعت کی ان دنوں کے صوبہ سرحد کہلاتے آج کے خیبرپختونخواہ کی صوبائی صدر ہوئیں۔ اس نئی جماعت کے جلسوں سے خطاب کے لئے بیگم نسیم ولی خان اسٹیج پر نمودار ہوتیں تو ہجوم وفورِ جذبات سے بپھرجاتا۔
’’موروثی سیاست‘‘ کی طاقت میں نے 1984 میں بھارت کے پہلے سفر کے دوران مزید وضاحت سے دریافت کی۔ ہر حوالے سے ’’غیر سیاسی‘‘ شمار ہوتا اندرا گاندھی کا پائلٹ بیٹا راجیوگاندھی اپنی ماں کے قتل کے بعد کانگریس کا قائد ہوا۔ میرے قیام بھارت کے دوران وہاں کے جید صحافیوں،دانشوروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت اس ’’لونڈے‘‘ کو سنجیدگی سے لینے کو آمادہ ہی نہیں تھی۔ ریل کی تھرڈ کلاس میں دلی سے کلکتہ کا سفر کرتے ہوئے لیکن میں ’’موروثی سیاست‘‘ کی طاقت تسلیم کرنے کو مجبور ہوگیا۔
کانگریس کا ’’وارث‘‘ ان دنوں راہول گاندھی ہے۔ نریندر مودی اور اس کی جماعت مگراس جماعت کو بہت تیزی سے بے اثر بنارہی ہے۔ کانگریس کی موجودہ بے اثری ہرگز یہ پیغام نہیں دیتی کہ بھارت کے عوام ہمارے لوگوں سے زیادہ ’’بالغ اور سمجھ دار‘‘ ہوچکے ہیں۔ مودی جیسے متعصب شخص کا عروج بلکہ ان کی ’’بلوغت‘‘ کی قلعی کھول دیتا ہے۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ راہول گاندھی کوئی ایسا بیانیہ مرتب کرنے میں ناکام رہا جو دورِ حاضرکے حقائق کے تناظر میں ’’مؤثر سیاسی پیغام دے پائے۔
پاکستان میں سیاسی عمل کو اگر غیر سیاسی اشرافیہ کی مداخلت کے بغیر رواں رہنے دیا جائے تو ہماری اپوزیشن جماعتوں میں موجود ’’راہول گاندھی‘‘ بھی کسی اہمیت کے حامل نہیں رہیں گے۔ طاقت ور دائمی اشرافیہ مگر جب ہر صورت کسی ایک سیاسی گھرانے کو ’’مائنس‘‘ کرنے پر تلی نظر آئے تواس کے حامیوں میں ’’انکار‘‘ کی ضد امڈ آتی ہے۔ ’’موروثی سیاست‘‘ کے خلاف مجھ جیسے ڈنگ ٹپائو لکھاریوں اور Ratings کے محتاج اینکر خواتین وحضرات کے ’’بھاشن‘‘اس جذباتی فضا میں کسی کام نہیں آتے۔ ہم مگر ڈھٹائی سے معروضی حقائق کا تجزیہ کئے بغیر ’’بھاشن فروشی‘‘ میں مصروف رہتے ہیں۔
سیاسی حقائق سے نا آشنا شخص ہی اس گماں میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ PDM کے جلسے اگر حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے ’’تاریخ ساز‘‘بھی نظرآ ئیں تو عمران حکومت ان کے نتیجے میں فارغ ہوجائے گی۔ نواز شریف کی تیسری حکومت کا تحریک انصاف اور اس کے کینیڈا سے آئے ’’کزن‘‘ کی معاونت سے 126 روز تک اسلام آبادمیں جاری رہا دھرنا کچھ بگاڑ نہیں پایا تھا۔ آئندہ برس کے آغاز میں PDM کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ یا دھرنا بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن کو غیر مؤثر بنانے کے لئے مگر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ عمران حکومت کے ہاں وہ مفقود نظر آرہی ہے۔ سیاسی دائو پیچ پر توجہ دینے کے بجائے اپنی سہولت کے لئے اس حکومت کے وزرء اور مشیروں نے بلکہ فرض کررکھا ہے کہ ’’وہ‘‘ معاملہ سنبھال لیں گے۔
خود کو تسلی دینے کے لئے نہایت سنجیدگی سے حکومتی ایجنسیوں کے ذریعے اکٹھے ہوئے ان اعداد و شمار پر آنکھ بند کرتے ہوئے اعتبارکرلیا گیا ہے کہ ملتان والے جلسے میں حاضرین کی تعداد ’’دس ہزار‘‘ سے زیادہ نہیں تھی۔ اصرار یہ بھی ہورہا ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری کی ملتان آمد کو ’’پُررونق‘‘ بنانے کے لئے چار ہزار کا ہجوم سندھ سے ملتان آیا تھا۔
حکومتی ’’حساب کتاب‘‘ کو ذہن میں رکھیں تو منگل کے روز ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں PDM کا ملتان والا جلسہ پانچ منٹ سے زیادہ زیر بحث ہی نہیں آنا چاہیے تھا۔ اس کا ’’تجزیہ‘‘ کرنے میں لیکن تقریباََ دو گھنٹے صرف ہوئے۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں اس ’’خبر‘‘ کی تصدیق کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا کہ کابینہ کے اجلاس کے دوران ملتان سے آئے مخدوم شاہ محمود قریشی ا پنے آبائی شہر میں ہوئے جلسے کی بابت سب وزراء سے زیادہ چراغ پارہے۔
انگریزی کا ایک محاورہ اصرار کرتا ہے کہ سیاست بالآخر ’’مقامی‘‘ ہی ہوا کرتی ہے۔ برطانوی دور سے متعارف ہوئی سیاست نے ملتان کی مقامی سیاست کے حوالے سے قریشی اور گیلانی خاندان کو اس کا حتمی ’’اجارہ دار‘‘ بنایا تھا۔ 2013 سے لیکن شاہ محمود نے یوسف رضا گیلانی کو بے اثر بنا رکھا تھا۔ وہ جبلی طورپر جانتے ہیں کہ پیر والے جلسے نے ان کے ’’ اصل شریک‘‘ یعنی گیلانی خاندان کو Bounce Back ہونے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ پنجاب پولیس اور انتظامیہ کو وہ اس ’’’حماقت‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا جزبز ہونا ہمیں یہ پیغام دینے کے لئے کافی ہے کہ PDM کا ملتان والا جلسہ ’’ناکام‘‘ نہیں ہواہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر