رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک کے کئی المیوں میں‘ میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار ہیں‘ تقریباً ناجائز‘ لوٹ مار سے بنائی ہوئی دولت کے انبار‘ اور دوسری طرف غربت اس حد تک کہ چالیس فیصد بچوں کی غذائی ضرورت پوری نہ ہونے کے موجب ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما نہیں ہو پاتی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت محدود رہ جاتی ہے۔ غریب خاندانوں میں زیادہ بچوں کا رجحان نہایت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے‘ لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ کہیں اور ہے۔ ذاتی خزانے بھرنے‘ سیاسی جنگیں لڑنے‘ حکومتیں گرانے‘ اقتدار پر قبضہ کرنے اور کرسیٔ اقتدار پہ قائم رہنے کی ہوس نے قومی مسائل کو ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقتدار میں ہوں تو کچھ کرتے نہیں‘ حزبِ اختلاف میں ہوں تو کچھ کرنے نہیں دیتے۔ انہیں کیا فکر‘ سیاست بازی‘ اکھاڑ پچھاڑ‘ جلسے جلوس‘ بنتے بگڑتے سیاسی اتحاد ان کا مشغلہ‘ ان کیلئے کھیل ہے۔ مشکل فیصلے اور وہ بھی جو آسانی سے ہو سکتے ہیں‘ ہمیشہ تاخیر کا شکار رہے ہیں۔ آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ کسی محکمے اور کسی شعبے کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے تو ردِ عمل اتنا شدید آتا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو‘ ڈر کے مارے کچھ کر نہیں سکتی۔
غربت‘ عدم مساوات اور آبادی کا دبائو عام مسائل نہیں ہیں۔ ایسے مسائل قوموں اور ملکوں کو تباہ کر سکتے ہیں‘ اور انہوں نے ہر جگہ ایسا کیا ہے‘ معاشرے میں بدامنی اور بے حسی پھیلتی جاتی ہے‘ کوئی بھی حکومت ان کو روکنے کے قابل نہیں رہتی‘ یوں حالات بے قابو ہو جاتے ہیں۔ سیاست باز بے چینی پر پلتے‘ پھلتے‘ پھولتے اور ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ سیاست میں طوفان اٹھتے ہیں تو یہی مسائل دگنے چوگنے ہو جاتے ہیں۔ سیاست باز تو اپنا اور اپنے حواریوں کا گھر آباد رکھتے ہیں‘ مگر اس عمل کے نتیجے میں قوم برباد ہو جاتی ہے۔ قومیں کیوں تباہ ہوتی ہیں یا کیسے سنورتی ہیں‘ یہ کوئی اجنبی موضوع نہیں ہے۔ سیاسیات کے طلبا کو تو یہ ازبر کرایا جاتا ہے اور عمرانی علوم کے ہر شعبے میں تاریخ اور مشاہدات کی روشنی میں سبق دیئے جاتے ہیں کہ جو راستہ اور طرزِ حکمرانی غالب طبقے منتخب کریں گے‘ اس سے قومیں بن یا بگڑ سکتی ہیں‘ اور جب بگڑے‘ تباہ حال معاشروں کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کیا جائے تو انگلی ان کی طرف اٹھے گی‘ جو مسندِ اقتدار پر تقریباً نصف صدی تک براجمان رہے۔ قرضے کئی گنا چڑھا دیئے اور حالت یہ ہے غریب طلبہ کیلئے سکولوں اور جامعات میں پڑھنے کیلئے فیسیں تک نہیں ہیں۔
خاکسار کے غربت کے حوالے سے کئی ذاتی مشاہدے ہیں‘ جن کی وجہ سے میں بہت بے چین رہا ہوں۔ غربت کو کسی ایک علاقے سے منسوب یا مخصوص کرنا ایک روایتی سی بات لگتی ہے۔ ہر جگہ غریب لوگ بس رہے ہیں۔ چلو یہی کہہ دیتے ہیں کہ پنجاب کے ایک پس ماندہ ضلع میں ایک غریب اور یتیم بچے کا گزشتہ ہفتے قریبی سرکاری جامعہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں داخلہ ہو گیا۔ عجیب بات ہے کہ ایک دن اطلاع ملی‘ دوسرے دن فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ فیس بھی کوئی بہت زیادہ نہیں‘ صرف بائیس ہزار ایک سو روپے۔ عدم مساوات دیکھیں‘ اتنی رقم ہمارے شہروں کے باسی شام کے ایک معمولی کھانے پہ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ خیر فیس کا تو بندوبست ہو گیا‘ مگر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ طالب علم کہاں ہے اور کیسے اگلے روز فیس جمع کرائی جائے۔ معلوم ہواکہ وہ کراچی مزدوری کرنے کے لئے گیا ہوا ہے تاکہ کچھ پس انداز کرکے اپنی فیس جمع کرا سکے۔ کئی سال پہلے بھی ایسا واقعہ ذاتی مشاہدے میں آیا تھا۔ کسی قریبی محلے میں کچھ گھر زیرِ تعمیر تھے۔ مزدوروں میں ایک نوجوان مختلف سا دیکھا۔ وضع قطع سے پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا۔ گلی کوچوں میں مٹر گشت اور اجنبی لوگوں سے بات چیت کرنا خاکسار کا سطح پر رہ کر معاشرے اور انسانوں کو سمجھنے کا پُرانا طریقہ ہے۔ مشقت سے اسے ذرا فراغت ملی تو تاریخ و جغرافیہ معلوم کیا۔ اس نے ایف اے کر رکھا تھا‘ اور چارسدہ سے اسلام آباد میں مزدوری کرنے کیلئے آیا ہوا تھا۔ وہ بھی محنت مزدوری کرکے کالج میں داخلے کی فیس جمع کرانے کا خواہش مند تھا۔ یہ دونوں نوجوان میرے نزدیک بہت خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر لیا۔ کاش علم کی دولت حاصل کرنے کا جوش و جذبہ سب میں موجزن ہو جائے۔
غربت سے نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ علم اور صرف علم۔ سوچتا ہوں‘ اگر ہم اپنے قومی میزانیے کا اتنا ہی حصہ تعلیم پر خرچ کرتے‘ جتنا سری لنکا اور بنگلہ دیش کر رہے ہیں تو غربت اور عدم مساوات کا اب تک خاتمہ ہو سکتا تھا۔ چلو دیر سے سہی‘ یہ کام تو کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ دکھ سے کہتا ہوں کہ ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی سیاست بازی کے درمیان ایک اور دس سالہ غیر منتخب حکومت‘ یوں سمجھیں کہ نصف صدی ضائع ہو گئی۔ ظلم یہ ہے کہ ”جمہوریت‘‘ کا جھنڈا اٹھا کر جعلی گھسے پٹے بیانیوں اور تقریروں کے سہارے ملک کے اقتدار پر ان کی اگلی نسل قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انہیں صرف وہی جمہوریت اور انتخابات پسند اور قابلِ قبول ہیں‘ جو ان کو اقتدار میں لے آئیں‘ لیکن اس پر ذرا غور کریں کہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والے تیسری‘ چوتھی اور پانچویں دفعہ وطنِ عزیز یا ہم جیسے بدنصیب دیگر ممالک میں سیاست اور معاشرت پر کیوں غالب رہتے ہیں؟ ہر جگہ جواب ایک ہی ہے۔ عوام کو ان پڑھ‘ غریب اور محتاج رکھ کر تحصیل سے لے کر وفاقی اداروں تک نظام ہی ایسا وضع کیا گیا کہ براہ راست شہریوں کیلئے انصاف‘ حقوق اور کسی بھی سرکاری ادارے سے معمولی نوعیت کا کام بھی کسی کی سفارش کے بغیر کرانا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ دوسرا راستہ نوٹوں کی راہداری ہے‘ مگر غریب کہیں پھنس جائے تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔
غربت اور مفلسی کے نتیجے میں صرف غالب طبقہ اقتدار میں رہتا ہے‘ عوام ان سے سوال کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ یہ ہیں جھنڈے اٹھاکر ہمارے رہنمائوں کی گاڑیوں کے دھوئیں اور گرد میں لپٹے نعرے لگانے والے۔ مغرب اور امریکہ میں بھی جلسے اور جلوس نکلتے ہیں‘ مگر لوگ لائے نہیں جاتے‘ خود آ تے ہیں‘ نہ آنا چاہیں تو کوئی ان کو مجبور نہیں کر سکتا۔ ووٹ وہ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ یہاں بھی سب لوگ تو کسی کے دبائو میں آ کر یہ سب کچھ نہیں کرتے‘ مگر ہمارے دیہاتوں اور شہروں کے غریب محلوں میں بے بسی لوگوں کو جھنڈے اٹھانے پر مجبور رکھتی ہے۔ میرے جیسے خاکسار کی آزادی صرف تعلیم کے سہارے ہے۔ اگر اس سے محروم رہ جاتا‘ تو جیسے ہماری کئی گزری نسلیں رہیں‘ پتہ نہیں کیا زندگی ہوتی؟ اس شعبے میں تقریباً نصف صدی تک تدریس کا تجربہ ہے‘ اور سفر ابھی جاری ہے۔ ہزاروں طلبہ جامعات میں سنورتے دیکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے‘ جو سرحدی علاقوں سے‘ بلوچستان کے قبائلی اور انتہائی مفلس گھرانوں سے آئے تھے۔ تعلیم نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
جامعات میں تعلیم نہ صرف آزادی‘ ہنر اور زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہے بلکہ دل اور ذہن بھی منور ہو جاتے ہیں‘ دنیا کی سب گرد دھل جاتی ہے۔ بات معمولی فیسوں سے چلی تھی۔ کپتان کی حکومت نے تو یہ قدم ایسا اٹھایا ہے کہ مثال نہیں ملتی۔ پچاس ہزار احساس وظیفے ہر سال غریب طلبہ کو دیئے جا رہے ہیں۔ میں تو ایک قدم آگے جائوں گا‘ کوئی بھی طالب علم داخلہ مل جانے کی صورت میں تعلیم سے اس لئے محروم نہ رہے کہ وہ فیس ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے جامعہ کے منتظمین کو بندوبست کرنا چاہئے‘ صوبائی حکومتیں زیادہ رقوم اس مقصد کیلئے وقف کریں۔ دنیا بھر میں ہر جگہ تعلیمی ادارے اربوں میں چندہ جمع کرتے ہیں‘ صرف حکومت کی گرانٹ پر اکتفا نہیں کرتے۔ غریب کو آزادی‘ عزت‘ وقار اور احترام نعروں سے نہیں‘ تعلیم پر کچھ لگانے سے ہی ممکن ہو گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ