رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت بنیادی طور پر ماں ہے۔ماں، ممتا ہے۔ممتا تخلیق سے ممتاز ہے۔بچے شکم مادر میں ماں کے خون پر پلتے ہیں اور پیدائش کے بعد پہلا بھوجن ماں کے دودھ سے کرتے ہیں۔ بہن، بیٹی اور بیوی میں ممتا کی حقیقت منتظر ہوتی ہے۔تاریخ کا پہلا پڑاو عورت کے گھر کا صحن تھا۔عہدِشکار میں مرد شکار کو جاتے تھے تو عورت بیج اگتے دیکھتی، حیران ہوتی تھی۔کھیتی باڑی کی ابتدا عورت کی حیرت سے ہوئی تھی۔وہ دنیا کی پہلی کسان تھی۔پھر اس نے جانوروں کو سدھایا تھا اور تب سے اب تک مرد کو سدھانے میں لگی ہے۔تہذیب کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔مرد مگر عجیب جانور ہے۔گالیوں کی لغت میں ماں کے نام کی گالیاں جمع کرتا ہے۔”شیر جوان” ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار ایک دوسرے کی ماں کو گالیاں دے کر کرتے ہیں۔صباحت عروج کا شعر شاہنواز خان اور محمود مہے نے شیئر کیا:
رب دی ذات دا بہوں احسان اے جگ تے عورت ذات بنڑائی ہِس۔
جے کر ماء تے بھینڑ نہ ہوندی مندھا مرد کوں جھلنڑاں پوندا۔
میسوپوٹومیا میں تیامت دیوی کو دیوتاؤں نے کو صفت ِتخلیق سے محروم کیا تھا۔ہندوستان میں پاروتی اپنی آگ میں جل مری تھی۔ رام نے سیتا پر الزام لگایا تو وہ اپنے دو بچے ایک رشی کو دے کر زمیں میں گڑ گئی تھی۔یونانی دیو مالا میں زیوس دیوتا نے اپنی بیوی میٹس(Metis) کو کھا لیا تھا۔حضرت مریم علیہ السلام پر الزام لگے تھے۔سلامتی کے مذہب کی ابتدا میں بڑا پیراڈائم شفٹ آیا۔ عورت خوشبو اور نماز کی مقدس تکون کا حصہ بنی اور ارشاد ہوا کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔ مختاراں مائی سلامتی کے دین کے نام پر بنے ملک میں رہتی ہے اور عورت دشمنی کے قبل از اسلام رویوں کا شکار ہے۔اکثر مرد اور عورتیں مختاراں کے لئے "مردانہ مستوئی رویے” رکھتے ہیں۔اسے زندہ گاڑنا چاہتے ہیں۔اسے گالیاں دیتے ہیں۔وہ مگر عجیب عورت ہے۔گالیاں سن کر بے مزہ نہیں ہوتی ، دشمنوں کے بچوں کے لئے سکول بناتی ہے۔مستوئیوں کی بچیاں اس کے سکول میں پڑھتی تھیں۔اٹھارہ سال سکول چلانے اور ہزاروں بچوں کو پڑھانے کے بعد اب وہ تھک گئی ہے۔دل گرفتہ ہے۔اپنی تنظیم کی گاڑیاں بیچ کر اس نے اساتذہ کو تنخواہیں دی ہیں۔اور بالآخر اس نے اپنا سکول حکومت ِ پنجاب کے نام منتقل کر دیا ہے۔حکومت حسب ِمعمول مگر دفتری ریڈ ٹیپ میں بندھی ہے۔ مختار مائی فریاد کرتی ہے۔ حکومت کے نام خط میں گزارش کرتی ہے مگر مرد سماج کے طاقت میں بندھے پیراڈائم میں ایک مظلوم عورت کی آواز کون سنتا ہے۔سیکرٹری تعلیم سکولز کے نام اس کا خط پڑھتے ہیں :
”گذارش ہے کہ 2002میں جب میرے ساتھ المناک واقعہ ہوا اور دنیا کی نظریں ہمارے علاقے کی تعلیمی پستی پر پڑیں۔ تو نیک دل لوگوں کے تعاون سے ہم نے مختیار مائی وومن آرگنایزیشن کے نام سے فلاحی تنظیم بنائی۔جس کا بنیادی مقصد علا قے کی پسماندہ خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر 2002 میں مختیار مائی وومن آرگنازیشن کے زیر انتظام مختیار مائی گرلز پرائمری سکول کی بنیاد رکھی گئی اور تعلیمی سفر کاباقاعدہ آغاز کیا گیا۔2005 میں سکول کو مڈل کا درجہ دیا گیا۔ شب و روز کی محنت اور جدوجہد سے علاقے کے لوگوں میں شعور بیدار ہوتا گیا۔اور 2008 میں ہائی سکول اور بعد میں ہایر سیکنڈری تک تعلیم کی سہولیات پہنچائی گئیں۔ جس میں تقریبا 750 سے زاید طلبا و طالبات زیرتعلیم ہیں جبکہ سینکڑوں طلبا و طالبات اسی سکول سے فارغ التحصیل ہو کر معاشرے کا مفید حصہ ہیں۔مذکورہ سکول کی موجودہ شاندار بلڈنگ تین کنال پانچ مرلے رقبہ پر محیط ہے جو کہ میری ذاتی ملکیت ہے۔ بلڈنگ 19کمروں پر مشتمل ہے جس میں پرنسپل آفس ، سائنس لیبارٹری، کمپیوٹر لیب اور 6 عدد واش رومز بھی موجود ہیں جبکہ سٹاف میں ایک پرنسپل ، 9خواتیں اساتذہ، ایک آیا اور سیکیورٹی گارڈ شامل ہیں۔ فنڈز نہ ہونے اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ہم نے محکمہ تعلیم پنجاب کے ساتھ جون 2020 میں معاہدہ کرکے مذکورہ سکول محکمہ تعلیم پنجاب کے نام وقف کرکے باقاعدہ طور پر قانونا رجسٹری کرا دی ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق محکمہ تعلیم
پنجاب اس بات کا پابند ہے کہ سکول ہذا میں انتظامی و تدریسی عملہ تعینات کر کے تعلیم کے کارواں کورواں دواں رکھے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا ہے۔نہ تو محکمہ تعلیم نے تاحال کسی قسم کا عملہ تعینات کیا ہے اور نہ ہی سکول کی دیگر ضروریات کو پورا کیا ہے بلکہ اٹھارہ سال سے قایم دایم تعلیمی سفر کو روک دیا ہے اورجہاں پورے پاکستان میں سکول کھل گئے ہیں ، یہ سکول بند پڑا ہے ۔روزانہ دور دراز سے سینکڑوں طلبا و طالبات آکر تعلیم حاصل کیے بغیر واپس پلٹ جاتے ہیں۔
ارباب ِاختیار سے دردمندانہ اپیل ہے کہ اس عظیم مقصد کو غفلت و الاپرواہی کی بھینٹ نہ چڑھایا جاے بلکہ فوری طور پر عملہ تعینات کرکے اس عظیم کارواں کو آگے بڑھایا جاے اگر محکمہ تعلیم اس عظیم ادارے کو چلانے سے قاصر ہے تو معاہدے کوختم کر کے ہماری وقف شدہ اراضی و بلڈنگ ہمیں واپس کی جائے تاکہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اس ادارے کے تعلیمی سفر کو دوبارہ جاری کر کے علاقے کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اس کے علاوہ مختیار مائی وومن آرگنایزیشن کے زیراہتمام علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ریسوس سنٹر اور شیلٹر ہوم کو بھرپور انداز سے چلایا جارہا ہے۔
مختیار مائی چیرمین
مختیار مائی وومن آرگنایزیشن موضع میر والہ تحصیل جتوئی ضلع مظفر گڑھ”
سترہ اکتوبر 2020کی شام مختار مائی سے ملنے گئے تو دو روشن دماغ نوجوان، رانا عبدالمنان اور محمد شہزاد دیوڑا ساتھ تھے۔پاکستان کی روزا پارکس،مختار مائی علی پور کے خستہ حال محلے میں پانچ مرلے کے گھر میں رہتی ہے۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ منتظر تھیں۔جتنی دیر ہم ان کے پاس رہے انھوں نے سکول کے علاوہ کوئی بات نہیں کی۔پورے مرد سماج کی اخلاقیات کو چیلنج کرنے والی مختار مائی کی آواز جیسے بہت دور سے آتی تھی۔اس کی آنکھوں میں سکول کو محفوظ کرنے کی درخواست جلی حروف میں لکھی تھی۔ ہیلری کلنٹن جسے سنتی اور نکولس کرسسٹوف جیسا کالم نگار جسے لکھتا تھا اب وہ تصویر کی صورت دیوار سے لگی تھی۔وہ صحافت کے کہنہ مشق رہنما،ضیاء شاہد سے ضیاء مانگتی تھی کہ وہ ضیاء صاحب کو اپنا محسن کہتی ہیں۔ جب سارا زمانہ اس کے خلاف تھا، ضیاء صاحب اور ان کے ادارے نے اس مظلوم عورت کا ساتھ دیا تھا۔وہ میروالہ کے بچوں کے لئے علم کی روشنی کی بھیک مانگتی تھیں۔عمران خان اور عثمان بزدار سے ملتمس تھیں۔ مراد راس جیسے متحرک وزیرِتعلیم سے امید رکھتی تھیں۔انجنیئر امجد شعیب ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ ہیں جو دیانت اور انصاف پسندی کی شہرت رکھتے ہیں، سکول کو جلد فنکشنل کرنا چاہتے ہیں۔ضلعی افسر تعلیم نے سیکرٹری تعلیم سکولز کو ایک مراسلہ 20 اگست 2020 کو SNE کے لئے لکھا ہے جس میں محکمہ تعلیم کے نام منتقل ہونے کے بعد سکول میں سٹاف کی نئی اسامیوں اور تعیناتی کی درخواست ہے۔دو مہینے گزر گئے ۔چھ سو زیادہ بچوں اور بچیوں کے سکول کے لئے مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔سیکرٹری تعلیم جنوبی پنجاب ہائر اور سکول ایجوکیشن کے انچارج ہیں۔ڈاکٹر احتشام انور،غریبوں سے ہمدردی کی شہرت رکھتے ہیں اور go getterسمجھے جاتے ہیں۔مگر اس کے باوجود زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔کوئی ہے جو ریاست ِمدینہ میں معصوم بچوں کی فریاد سنتا ہو ! یا اچھے ارادوں والی ٹیم، سارے باصلاحیت افسر اور بلند بانگ دعوے کرنے والے حکمران وہ نیک نیت لوگ ہیں جو میروالہ کے بچوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیں گے !کہ جہنم کا راستہ نیک نیتی سے طے کیا جاتا ہے۔محاورہ یہ ہے :
"The way to hell is often paved with good intentions” !
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ