ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ اسٹوڈنٹ یونینز کی بحالی بارے فیصلہ کابینہ میٹنگ میں کیا جائے گا ، اس کے بعد قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی کی سب کمیٹی برائے تعلیم و پروفیشنل ٹریننگ میں کیا ۔ سٹوڈنٹ یونینز بحالی بارے یہ بیان قابل تحسین ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ طلبہ یونین سیاست کی نرسریاں ہیں، نرسریاں بند ہو جائیں تو روبوٹ پیدا ہوتے ہیں۔ ایوب خان طلبہ یونینوں پر پابندی لگائی، ذوالفقار علی بھٹو نے پابندی ختم کی، ضیاء الحق نے آکر ایک بار پھر کلہاڑا چلا دیا، جس کے باعث آج تک سٹوڈنٹس فیڈریشنز بحال نہیں ہو سکیں۔
یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا مگر پابندی برقرار رہی ۔ طلبہ یونین کے پلیٹ فارم سے بڑے بڑے سیاستدان پیدا ہوئے افسوس کہ جاوید ہاشمی جیسے لوگ جو کہ طلبہ یونین کی پیدا وار تھے وہ بھی مصلحت کا شکار ہو کر خاموش ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ طلباء یونین کے قیام سے نہ صرف یہ کہ طلباء کے مسائل کے حل میں مدد ملتی ہے بلکہ طلبہ کی تنظیمی ترتیب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے تخلیقی صلاحیت کو بھی جلا ملتی ہے اور طلباء کے اندر چھپی ہوئی لیڈر شپ باہر آتی ہے اور یہی لیڈر شپ آگے چل کر قومی و سیاسی معاملات کو سنبھالنے کا باعث بنتی ہے۔
قیام پاکستان آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس کی جدوجہد سے معرض وجود میں آیا۔ طلبہ یونین لیڈرشپ پیدا کرتی ہیں جبکہ پابندی طلبہ کی صلاحیتوں کو بند گلی میں دھکیلنے کا باعث ہوتی ہیں۔ طلبہ یونین کے پلیٹ فارم سے معراج محمد خان، ڈاکٹر غلام حسین، فرید پراچہ، فدا محمد خان، شیخ رشید، لیاقت بلوچ، پرویز رشید، امتیاز عالم، جہانگیر بدر، فخر بلوچ، ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ جیسے بڑے بڑے سیاستدان پیدا ہوئے ‘ طلبہ یونینز بند کی گئیں توایسی سیاسی نرسریاں وجود میں آئیں جنہوں نے غیر سیاسی لیڈر شپ پیدا کی ۔ یہ بات درست ہے کہ یہ طلبہ یونینز ایک گلدستے کی مانند تھیں جنہوں نے محب وطن سیاستدان پیدا کئے ان میں سیکولر اور مذہبی سیاستدان بھی۔وسیب کو اگر دیکھیں تو عاشق بزدار ‘ رسول بخش رئیس ‘ مسیح اللہ جامپوری اور بہت سے دیگر طلبہ یونین کے پلیٹ فارم سے سیاست میں آئے ۔
طلبہ یونین کی بندش سے بہت نقصان ہوا ہے ، جس کے آزالے کی فوری ضرورت ہے۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے لئے سب سے زیادہ جدوجہد طلباء یونین کی طرف سے ہوئی ۔ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن متحدہ ہندوستان میں مسلم طلباء کی تنظیم بیسویں صدی کی پہلی تہائی مسلماناں برصغیر کیلئے بڑی کٹھن اورصبر آزما تھی ۔ صورتحال یہ تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس ایک طاقتور سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اُبھر چکی تھی ۔ وہ اپنی اثرات ہر طبقے میں خصوصاً طلباء میں پھیلا رہی تھی ۔ کانگریس کی اعانت سے طلباء کی ایک تنظیم ’’ آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن ‘‘ کے نام سے قائم ہو چکی تھی ۔
آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا اجلاس 1935 میں لکھنو میں منعقد ہوا ۔ یہ اجلاس تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس لئے کہ یہی مسلم طلباء کی تحریک کا نقطہ آغاز اور ایک اہم موڑ ثابت ہوا ۔اس اجلاس میں قائد اعظم نے جب اپنی صدارتی تقریر میں یہ کہا کہ کانگریس پر ہندوؤں کا غلبہ ہے ، مسلم سٹوڈنٹس کو یاد رکھنا ہوگا کہ مسلمانوں کا ایک الگ تشخص ہے اور ان کی نمائندگی مسلم لیگ کرتی ہے تو ہندو لڑکوں نے ’’ ہوٹنگ ‘‘ شروع کر دی اور قائد اعظم کے خلاف نعرے لگائے ۔اس جملے کے خلاف اتنا شدید رد عمل ہوا کہ پورا اجلاس مچھلی منڈی بن گیا ۔ ہندو طلباء کے اس رویے پر مسلم طلبا ناراض اور مایوس ہو گئے ۔ جلسے کے بعد چند مسلمان طلباء نے قائد اعظم سے ملاقات کر کے مسلم طلباء کی الگ تنظیم کی تجویز ان کے سامنے رکھی ۔ جنوری 1936ء مشیر حسین قدوانی کے زیر اثر لکھنو میں مسلم طلبہ کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی ، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کل ہند سطح پر مسلمان طلبہ کی کانفرنس منعقد کی جائے ۔ اس طرح ’’ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن ‘‘ کی بنیاد رکھی۔
فیڈریشن کا پہلا اجلاس دسمبر 1937ء میں کلکتہ میں قائد اعظم کی زیر صدارت ہوا۔ محمد عبدالواثق پہلے جنرل سیکرٹری اور محمد نعمان انتظامی سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ اس اجلاس میں پنجاب ‘ بنگال ‘ یو پی ‘ صوبہ سرحد اور آسام وغیرہ سے تین سو مندوبین نے شرکت کی اور یہی اجلاس تقسیم ہند سے پہلے مسلم طلبہ کی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک ( تحریک پاکستان ) کا نقطہ آغاز اور سنگ میل ثابت ہوا ۔ قائد اعظم کی تقریر نے جادو کا کام کیا ۔ طلبہ کے دلوں میں نیا جوش و ولولہ اور عزم پیدا ہو گیا ۔
منزل اور راہ کا تعین ہو گیا اور طلبہ کا قافلہ اس پر چل پڑا۔ مارچ 1940 ء میں جب قرارداد لاہور منظور ہوئی اس وقت تک آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی شاخیں برصغیر کی تمام صوبوں اور اہم شہروں میں قائم ہو چکی تھیں ۔ صوبہ پنجاب میں ستمبر 1937 ء میں قیام عمل میں آیا ۔ جن طلباء نے فیڈریشن کے قیام کا بیڑہ اٹھایا ان میں حمید نظامی ، میاں محمد شفیع( م ، ش ) عبدالسلام خورشید، سید مخدوم عباسی ،عماد الدین احمد اور عبدالحمید مرزا ، امین ترین ،یحییٰ بختیار، ضیا الاسلام ، شیخ حامد محمود، قاسم رضوی ، راجہ افتخار اللہ اور عبدالستار نیازی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ فیڈریشن کے پہلے صدر حمید نظامی اور سیکرٹری عبدالسلام خورشید منتخب ہوئے ۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں آل انڈیا مسلم فیڈریشن کا قیام 1943ء میں عمل میں آیا ۔
اس فیڈریشن کے پلیٹ فارم مسلم طلباء نے تحریک پاکستان کیلئے سیاسی شعوری ، حصول تعلیم اور قومی مقاصد کی تکمیل کیلئے پر خلوص جدوجہد کی ۔ سندھ کے مختلف شہروں میں فیڈریشن کی شاخیںکھل گئیں ، جو یونین کہلاتی تھیں ۔ صوبہ سندھ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر عبدالعلیم دریشانی تھے ۔ حیدر آباد کے جنرل سیکرٹری قاضی عبدالمنان ، ٹھٹھہ کے عقیلی عبدالکیر ، شکار پور کے ، جنہوں نے اپنے لئے ’’ خادم اسلام ‘‘ کا لقب اختیار کیا ۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کی یونین کے سیکرٹری نجم الدین بلوچ تھے ۔ اسی طرح نوجوان طالب علم نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں خدمات انجام دیں ، جن میں آغا غلام نبی پٹھان ، کریم بخش خالد، اختر میر منصب علی اور عبداللہ ہارون خاندان کے افراد قابل ذکر ہیں ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ