ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر انجینئر اطہر محبوب نے 6 اکتوبر کو یونیورسٹی میں عظیم سرائیکی صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی نسبت سے ’’ فرید ڈے ‘‘ منانے کا اعلان کیا ۔ اس دن ’’ خواجہ فرید کانفرنس ‘‘ منعقدکی جائے گی ، جس میں ملک کے نامور اسکالر حضرات شرکت کریں گے ۔ گزشتہ روز وائس چانسلر جناب اطہر محبوب سے بہاولپور میں ملاقات بھی ہوئی ، جس میں انہوں نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنا ئیں گے۔
6 اکتوبر کو ہونیوالی خواجہ فرید کانفرنس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے ۔ انہو ںنے کہا کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا پہلا مقصد خطے کی تہذیب، ثقافت اور آثار پر تحقیق ہوتا ہے ۔ یونیورسٹی میں قائم خواجہ فرید چیئر جو سالہا سال سے فنکشنل نہیں تھی کو فنکشنل کر رہے ہیں اور 6اکتوبر 2020ء کو خواجہ فرید کانفرنس کرا رہے ہیں ۔ یہ کانفرنس اس سال کے آخر میں یونیورسٹی میں ہونیوالی انٹر نیشنل خواجہ فرید کانفرنس کا پیش خیمہ ہے۔ ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا کہ خطے پر خواجہ فرید کی شاعری کے بہت اثرات ہیں ، بلاشبہ شاعری میں فطرت نگاری کے حوالے سے ان کی حیثیت شیکسپیئر اور گوئٹے سے کسی طرح کم نہیں ہے۔
خواجہ فرید کی شاعری عالمی ادب کا حصہ ہے اور اسلامیہ یونیورسٹی ملک کے ہیروز کے کارناموں کو اجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے گی ۔ بلاشبہ خواجہ فریدؒ پاکستان کا سرمایہ افتخارہیں اور انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے تمام انسانوں کو محبت کا پیغام دیا ہے ۔ ان کی صوفیانہ کافیاں زبان زد عام ہو چکی ہے ۔ خواجہ فریدؒ نے اپنی کافی میں جہاں مل بسنے کی بات کی ہے ، وہاں اپنی دھرتی ،اپنی مٹی اور اپنے وسیب کے لوگوں سے محبت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی روہی اور روہی میں بسنے والی روہیلیوں کو حوروں اور پریوں سے تشبیہ دی ہے ۔ ان کے عشوے اور رمزوں کا ذکر کیا ہے ۔
ان کے حسن و جمال کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ انسانوں میں پل پل خوشیوں اور دم دم شادیوں کی بات کی ہے ۔ پیلھوں ان کی اقسام اور پیلھوں کے مختلف رنگوں کا ذکر نہایت ہی دلکش انداز میں کیا ہے ۔ یہ سب کچھ کیا ہے ، یہ در اصل خواجہ فرید ؒ کی طرف سے ماں دھرتی سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے مل کر امن و آشتی سے رہنے کا پیغام دیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح خواجہ فرید ؒ نے اپنی ماں دھرتی سے محبت کی ہے ، اسی طرح شاید ہی کسی نے کی ہو ۔ خواجہ فرید ؒ نے اپنے کلام میں روہی کو ملک ملہیر، باغ ، بہشت اور مشک و عنبر سے تشبیہ دے کر امر کر دیا ہے ۔ دیوان فرید میں جگہ جگہ آپ کو روہی کی محبت اور عظمت کے نشان ملیں گے ۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں :۔
ہر ہر قطرہ آب ہے کوثر گرد غبار ہے مُشک تے عنبر کرڑ کنڈا شمشاد صنوبر خار دی شکل بہار دی ہے خواجہ صاحب نے جہاں اپنی دھرتی کے کانٹوں کو بھی بہار سے تشبیہ دی ہے وہاں انہوںنے اپنی دھرتی کو کوہ طور سے بھی تشبیہ دی ہے، واضح ہو کہ کوہ طور وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے خالق حقیقی سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے تھے۔ اپنی ہی دھرتی میں موجود ریت کے ٹیلوں کو ہ طور سے تشبیہ دے کر خواجہ فرید نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ ٹیلے بھی محض ریت کے ٹیلے نہیں ، ان کی عظمت بھی کوہ طورکی طرح بلند وہ بالا ہے۔
آپ ان لائنوں کو دیکھیں اور خود فیصلہ کیجئے کہ خواجہ فریدؒ نے کتنے خوبصورت انداز میں اسے امن اور عظمت کی دھرتی قراردیا :۔ وادیِ ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہِن کوہ طور سرائیکی وسیب کی امن کی تاریخ اُتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود وسیب ، وسیب ایک ذات نہیں ایک کائنات کا نام ہے ۔ تاریخی حوالے سے سرائیکی وسیب کی اہمیت اور وسعت اتنی زیادہ ہے کہ اس میں پاکستان ، ہندوستان تو کیا پورا جہان سما سکتا ہے ۔ یہ خطہ ہزار ہا سالوں سے تہذیب ،ثقافت اور مذہب کی پیشوائی کا فریضہ سر انجام دیتا آ رہا ہے ۔ بلا شبہ اسلام سے پہلے بر صغیر جنوبی ایشیاء کے تمام مراکز کا مرکز ملتان رہا ہے ۔
ملتان کو تہذیبوں کی ماں قرار دیا گیا ۔ ملتان کو دنیا کا پہلا مہذب ملک کہا گیا۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں انسان سب سے پہلے اپنے دو پاؤں پر زمین پر چلنا سیکھا ۔ یہیں سے انسان اور حیوان میں تفریق کا عمل شروع ہوا۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں ہمیشہ امن کا پیغام عام کیا گیا۔ سرائیکی زبان بنیادی طور پر دعاؤں کی زبان ہے ، زبان کسی بھی خطے اور اس میں بسنے والے لوگوں کے تہذیبی عناصر کا اظہار کہلاتی ہے ۔ وسیب کے لوگ صدیوں سے تعصب ، نفرت اور حملہ آوری کا شکار تو ہوئے لیکن انہوں نے آج تک کسی سے نہ تعصب کیا اور نہ نفرت ۔ وسیب کے لوگوں نے ہر آنے والے کو اپنے دل میں جگہ دی اور اسے اپنا بنا لیا ۔
وسیب کے بزرگوں نے ہمیشہ وسیب کے لوگوں کو محبت اور درگزر کا پیغام دیا ۔ فریدی مسلک کے بہت بڑے شاعر حضرت خواجہ محمد یار فریدی آف گڑھی اختیار خان ( خانپور ) کی یہ کافی خصوصی توجہ کی طلب گار ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :۔ ’’ماراں کھاویں ، مار نہ آویں ‘‘۔ یہ کیا ہے ؟ کیا کوئی اس طرح کا پیغام دیتا ہے ؟ نہیں بالکل نہیں ۔ یہ سرائیکی وسیب کا ہی خاصہ ہے ، اس نے رواداری ، تحمل ، برداشت اور درگزر کا پیغام دیا ۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ سرائیکی امن و محبت کی زبان ہے تو اس سلسلے میں اس حقیقت کو جاننے کیلئے ضروری ہے کہ آپ سرائیکی کے لوک ادب کا مطالعہ کریں ۔
سرائیکی کے کہاوتیں ، ضرب المثال اور پہیلیوں کی سٹڈی کریں ۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ ان میں لوک دانش کے رنگوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کیلئے دعائیہ کلمات کا کتنا حوالہ ہے ۔ سرائیکی زبان میں میں تمام دعائیہ کلمات کا احاطہ نہ کر سکوں گا البتہ جو دعائیہ کلمات موجود ہیں اس کے مطالعہ سے اس بات کی حقیقت واضح طور پر سامنے آئے گی کہ شہد سے میٹھی سرائیکی زبان در اصل ہے ہی دعائیہ کلمات اور امن کے پیغام کا نام ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر