نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دولت اور اختیار پر پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں مٹھی بھر لوگوں کا اجارہ ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان تقسیم دن بدن گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ کرونا نے امریکہ اور یورپ میں اس کی وجہ سے جو قیامت خیزمناظر دکھائے انہوں نے سوچنے سمجھنے والوں کی بے تحاشہ تعداد کو اس امر پر غور کرنے کو مجبور کردیا ہے کہ ناقابل برداشت علاقوں میں داخل ہوتی معاشی عدم مساوات سے بچائو کے راستے ڈھونڈے جائیں۔
ہماری خوش بختی رہی کہ پاکستان میں کرونا نے ویسی تباہی نہیں مچائی جو امیر اور غریب کے مابین تقسیم کو شدت سے عیاں کردیتی۔ ہم مگر دنیا سے کٹا ہوا کوئی جزیرہ نہیں ہیں۔ عالمی منڈی میں بھونچال آئیں گے تو اس کے اثرات سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ کرونا کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی کئی ہفتوں تک لاک ڈائون مسلط کرنا پڑا تھا۔ اس نے لاکھوں دیہاڑی داروں کو بدحال بنادیا۔ تمام تر قباحتوں کے باوجود مگر ہمارے ہاں ’’حقوق العباد‘‘ کا کسی نہ کسی حد تک احترام ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام بھی افرادکو لاوارث نہیں بناتا۔ زرعی معیشت لوگوں کو دو وقت کی روٹی کسی نہ کسی صورت فراہم کرہی کردیتی ہے۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کو کرونا کی بدولت خوف یہ لاحق ہوا کہ کڑے لاک ڈائون نے معیشت کو جس انداز میں جمود کی زد میں لیا ہے وہ بھوک اور بے روزگاری سے بدحال ہوئے ہجوم کو ’’لوٹ مار‘‘ کی جانب دھکیل سکتا ہے۔
ممکنہ انتشار کی پیش بندی کے لئے بے روزگار ہوئے افراد کو امریکہ جیسا سفاک سرمایہ دار ملک بھی ’’امدادی رقوم‘‘ فراہم کرنے کو مجبور ہوا۔ ہمارے احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ سے زائد گھرانوں کو یکمشت 12ہزار روپے ادا کرتے ہوئے ویسا ہی رویہ اختیار ہوا تھا۔ عمران حکومت کے ترجمان اس کے بارے میں بہت فخر محسوس کرتے ہیں۔ اپنی ’’فیاضی‘‘ کے ڈھول بجاتے ہوئے لیکن کسی ایک ترجمان نے بھی یاد نہیں رکھاکہ کرونا کی بدولت نمودار ہوئے معاشی عذاب سے نبرد آزما ہونے کے لئے ورلڈ بینک جیسے اداروں نے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم تقریباََ خیرات کی صورت فراہم کی تھی۔
سوال اٹھتا ہے کہ اس بھاری بھر کم رقم کا کتنے فی صد غریب دیہاڑی داروں کے سہارے کے لئے وقف ہوا۔ کتنے فی صد رقوم ہماری معیشت کے مختلف شعبوں کے اجارہ دار سیٹھوں کو Stimulus کے نام پر فراہم ہوئی۔ ورلڈ بینک کی جانب سے آئی رقم کی ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر ہمارے مختلف طبقات کے مابین تقسیم کی Balance Sheet تیار ہوتو بآسانی دریافت ہوجائے گا کہ غریب دیہاڑی دار کے حصے میں ’’زیرہ‘‘ ہی آیا تھا۔ ایسی بیلنس شیٹ تیار کرنے کو لیکن غیر ملکی یونیورسٹی سے معتبر ڈگریاں لینے والے ’’ماہرین معیشت‘‘ تیار نہیں ہوں گے۔
وہ اجارہ دار سیٹھوں سے بھاری بھر کم تنخواہوں پر نوکری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کے نگہبان اداروں کے لئے Consultancy کا فریضہ سرانجا م دیتے ہیں۔ ڈالروں میں اپنے ہنر کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ایسے ہی کئی ’’ماہرین‘‘ حکومت میں بیٹھے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کو بھی بے قرار ہوتے ہیں۔ انگریزی اخبارات کے ادارتی صفحات پر جناتی زبان میں معیشت کے موضوع پر ’’عالمانہ‘‘ مضامین لکھتے ہیں۔ مقصد ان مضامین کا درحقیقت وزیر اعظم اور ان کے مصاحبین کو یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ جیسے ’’حکیموں‘‘‘ کے نسخے شفا فراہم نہیں کرسکتے۔ ان سے رجوع کرتے ہوئے ’’کھل جاسم سم‘‘ والی کلید ڈھونڈی جاسکتی ہے۔ ’’ٹہکے شہکے‘‘ والی نوکریوں اور مناصب کے خواہاں خود غرض ’’ماہرین معیشت‘‘ کے ہوتے ہوئے میرے اور آپ کے اسمبلیوں میں بیٹھے نام نہاد ’’نمائندوں‘‘ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہماری معاشی مشکلات کی بابت دہائی مچائیں۔
سالانہ بجٹ پر اسی باعث ’’عام بحث‘‘ کا انعقاد ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس برس کے جون میں بھی عمران حکومت کے پیش کردہ دوسرے بجٹ پر طولانی بحث ہوئی تھی۔ کوئی ایک تقریر بھی مگر ایسی نہیں ہوئی جسے ہم ’’یوں کہتے ہیں سہرا‘‘ کا درجہ دے سکیں۔ اپوزیشن ’’احتساب‘‘ کے نام پر روارکھے ’’انتقام‘‘ کا رونا روتی رہی۔ حکومتی صفوں سے انتہائی رعونت سے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو یاد دلایا جاتا رہا کہ ’’گاجریں‘‘ کھائو تو پیٹ میں درد تو ہوتا ہے۔ بجٹ منظور ہوجانے کے بعد انتہائی عجلت میں ہماری معیشت کو ’’منی لانڈرنگ‘‘ سے محفوظ رکھنے کے نام پر آٹھ کے قریب قوانین بھی یکمشت منظور ہوئے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر ہمہ وقت ’’چی گویرا‘‘بنے اپوزیشن والوں نے ہمیں یہ سمجھانے کا تردد ہی نہیں کیا کہ مذکورہ قوانین ہمارے صدیوں سے جاری معاشی رویوں میں کونسی بنیادی تبدیلیاں لائیں گے۔
کساد بازاری کے موسم میں ان تبدیلیوں کا یکمشت نفاذ ہماری معیشت کو مزید جمود کی جانب دھکیلے گا یا نہیں۔ وہ ’’ملاقاتیں‘‘ جن سے اجتناب کا اب وعدہ کیا جارہا ہے انہیں قائل کرنے میں کامیاب رہیں کہ سپیکر قومی اسمبلی کے گھر پر رات گئے تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گفتگو جاری رہے۔ میرے اور آپ سے مکمل طور پر خفیہ رکھے ان مذاکرات کے نتیجے میں ’’قومی اتفاق رائے‘‘ پیداکرنے کی کاوشیں ہوئیں۔
ہم بے اختیار اور غلامی کے عادی بدنصیبوں کو فقط یہ بتایا گیا کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے مذکورہ قوانین کا متعارف کرواناز لازمی تھا۔ سوال اگرچہ یہ اٹھانا بھی لازمی تھا کہ پاکستان اس ’’گرے لسٹ‘‘ میں پہنچا کیوں؟ یہ سوال اپوزیشن کے کسی طرم خان نے مگر اٹھایا ہی نہیں۔
عین اس وقت جب وہ ’’قومی اتفاق رائے‘‘ پیدا کرنے کی لگن میں مبتلا تھے تو اچانک شاہ محمود قریشی صاحب قومی اسمبلی میں وارد ہوگئے۔ ایک چونکادینے والی تقریر کے ذریعے انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن FATF کو مطلوب قوانین کی منظوری میں تعاون کے بدلے اپنے ’’چور اور لٹیرے‘‘ رہ نمائوں کے لئے NRO کی طلب گار ہے۔ کپتان مگر ڈٹ چکا ہے۔ کرپشن کا خاتمہ عمران خان صاحب کا کلیدی ایجنڈہ ہے۔ وہ اس پر کسی سمجھوتے کو ہرگز رضا مند نہیں ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی کی دھواں دھار تقریر کے بعد خواجہ آصف صاحب نے سینہ پھلاتے ہوئے بڑھک لگائی تھی کہ چونکہ وزیر خارجہ ’’اندر کی باتوں‘‘ کو ’’غیر اخلاقی انداز‘‘ میں برسرِعام لے آئے ہیں اس لئے حکومت سے اب FATF کو مطلوب قوانین کے بارے میں مزید مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کی بڑھک کے باوجود یہ مذاکرات جاری رہے اور دو روز بعد ہی FATF کو مطلوب چھ قوانین یکمشت ’’اتفاق رائے‘‘ سے منظور ہوگئے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ قوانین سینٹ نے بھی عجلت میں منظور کرلئے۔ اس منظوری پر شکرگزار ہونے کے بجائے سینٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد کھڑے ہوگئے۔
ہم جاہلوں کو بتایا کہ آصف علی زرداری اور شریف خاندان کے ’’فیک اکائونٹس‘‘ نے ہمیں FATF کی گرے لسٹ میں دھکیلا تھا۔ ایوانِ بالا میں بیٹھے ان کے ’’ذہنی غلام‘‘ مگر یہ حقیقت خلقِ خدا کے روبرو تسلیم نہیں کررہے۔ موصوف کی تقریر نے اپوزیشن میں بیٹھے محض چند ’’ذہنی غلاموں‘‘ کو بغاوت پر اُکسایا۔ سینٹ سے FATF ہی کے حوالے سے دو مزید قوانین ’’نامنظور‘‘ ہوگئے۔ انہیں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلوا کر منظور کروا لیا گیا۔ اپوزیشن کے 36 اراکین نے اس اجلاس سے دانستہ غیر حاضر ہوتے ہوئے حکومت کی مشکل آسان کردی۔ حکومت کی مشکل تو آسان ہوگئی لیکن ہم پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کو آج بھی یہ علم نہیں کہ FATF کو راضی کرنے کے نام پر بنائے قوانین میں کیا طے ہوا ہے۔ اپوزیشن کی کامل اذیت وذلت کے تناظر میں بالآخر اے پی سی کا انعقاد ہوا۔ نواز شریف صاحب نے طویل خاموشی کے بعد اس سے ایک دھواں دھار خطاب بھی فرمادیا۔ اس خطاب سے چراغ پا ہوکر راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے ’’جی حضوری‘‘ والی ’’ملاقاتوں‘‘ کا احوال بتانا شروع کردیا۔ ’’جل بھی چکے پروانے۔ہو بھی چکی رسوائی‘‘ کا ماحول بن گیا۔
یہ ماحول لیکن مجھے ’’یہ تو ہوگیا اب کیا؟‘‘‘ والا سوال اٹھانے سے نہیں روک سکتا۔ قرۃ العین حیدر کے ایک کردار نے ’’چاندنی بیگم‘‘ کے عنوان سے لکھے ناول میں اپنی قبر کے کتبے کے لئے یہ سوال سوچا تھا۔ اب غور و فکر سے محروم ہوئے ماحول میں یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوں ۔ جواب مگر فراہم نہیں ہوگا۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی تو یہ سوال ہے کہ فیصل آباد میں رات گئے ’’تنظیم سازی‘‘ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس کے علاوہ بے صبری سے انتظار یہ بھی ہورہا ہے کہ کب اور کتنے ’’محبانِ وطن‘‘ جلیل شرق پوری کی طرح نواز شریف کو بتا دیں گے کہ ’’اداروں کی توہین‘‘ اب برداشت نہیں ہوگی۔
نون سے شین کے بجائے اب نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت میں سے ’’پاکستان‘‘ کے لاحقے والا وہ ورژن برآمد ہونے کا انتظار ہورہا ہے جو ایک ’’بانی‘‘ کی تقریرکے بعد ایم کیو ایم میں سے نمودار ہوا تھا۔ فروعات میں الجھے اذہان اس امر پر غور ہی نہیں کررہے کہ سرما کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔ اب کے برس کڑے جاڑے کی پیش گوئی بھی ہے۔ اس موسم میں لیکن مجھے اور آپ کو گیزر جیسی ’’عیاشی‘‘ سے لطف اندوز ہونے کے لئے گیس میسر ہی نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف بھی ’’آنے والی تھاں‘‘ پر لوٹ آیا ہے۔ اصرار کررہا ہے کہ پاکستان کے لئے مختص 6 ارب ڈالر کی نئی قسط لینی ہے تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اس سے کئے وعدے کے مطابق اضافہ کرو۔ نومبرمیں گنے کی فصل بھی تیار ہوچکی ہوگی۔ سوال اٹھانا یہ بھی لازمی ہے کہ اس فصل کو ’’شوگرمافیا‘‘ معقول اور بروقت ادائیگی سے اٹھانے کو تیار ہوگا یا نہیں۔ سوالات کا انبار ہے مگر جواب ندارد۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر