نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ فقرے ایسے ہوتے ہیں جو برجستہ اور عام سنائی دیتے ہیں۔ جن ڈرامائی پس منظر میں انہیں ادا کیا جاتا ہے ان کی بدولت مگر سننے والے کے ذہن میں چپک کے رہ جاتے ہیں۔ 1975میں ایک مرتبہ ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایسے ہی چند کلمات ادا کئے تھے۔ گزشتہ تین دنوں سے ’’ملاقاتیں جو ہوتی ہیں‘‘ کے بارے میں ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر جو شوروغل برپا ہے اس کے تناظر میں یہ کلمات اور خاص کر ایک فقرہ میرے ذہن میں گونجتا چلاجارہا ہے۔
ہوا یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے دوبانی اراکین -غلام مصطفیٰ کھر اور محمد حنیف رامے-جو اپنی جماعت میں رہتے ہوئے ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے پنجاب حکومت سے فارغ ہوجانے کے بعد بھٹو سے ناراض ہوگئے۔ دونوں کو چودھری ظہورالٰہی مرحوم نے پیر پگاڑا کی قیادت میں چلائی مسلم لیگ میں یکجاکردیا۔ اس کے بعد لاہور میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب درکار تھا۔ ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ مذکورہ نشست پر پیپلز پارٹی کوشکست سے دوچار کرتے ہوئے بھٹو کو پیغام دیا جائے کہ ’’پنجاب‘‘ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ یہ فضا بنانے کے لئے لاہور کے شمالی علاقے تاج پورہ میں ایک جلسے کا اہتمام ہوا۔ ’’شیرپنجاب‘‘ تصور ہوتے غلام مصطفیٰ کھر کی تقریر سے قبل مگر جلسہ گاہ میں سانپ ’’نمودار‘‘ہوگئے۔ ان کی موجودگی نے مجمع میں سراسیمگی پھیلادی۔ دریں اثناء ایک مردہ سانپ سٹیج پر موجود غلا م مصطفیٰ کھر کو پہنچادیا گیا۔ موصوف اسے ہاتھ میں دبوچتے ہوئے مائیک کی جانب لپکے۔ سانپ کو غصے سے مزید دبوچتے ہوئے انہوں نے بڑھک لگائی کہ وہ بھٹو کو بھی اسی طرح ’’کچل دیں گے‘‘۔ مجمع میں بھگدڑ مگر مچ چکی تھی۔ افواہ اُڑی کہ جلسے کو ناکام بنانے کے لئے اس میں سانپ چھوڑدئیے گئے ہیں۔ چند کارکنوں نے اس کی وجہ سے طیش میں آکر پولیس پر پتھرائو شروع کردیا۔ پولیس نے شدید لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ذریعے ہجوم کو بالآخر منتشرکردیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کو لاہور میں کوئی اور انتخابی جلسہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے ایک عام مگر دیرینہ کارکن-شیر محمد بھٹی- وہ ضمنی انتخاب ’’بھاری اکثریت‘‘ سے جیت گئے۔ لاہور کا انتخابی معرکہ ’’فتح‘‘کرنے کے بعد بھٹو صاحب نے ٹی وی پرقوم سے خطاب فرمایا۔ الزام لگایا کہ ان کی حکومت کے خلاف ’’سازشیں‘‘ شروع ہوگئی ہیں۔ سازشوں سے وہ گھبراتے نہیں۔ دُکھ مگر انہیں یہ ہے کہ غلام مصطفیٰ کھر اور حنیف رامے ان کے دشمنوں کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ جبکہ وہ ان دونوں کو اپنا ’’معشوق‘‘ تصور کرتے ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے بے خودی کے عالم میں یہ فقرہ کہا کہ رامے اور کھر کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’معشوق ہی نہیں عاشق کے پاس بھی کارڈ ہوتے ہیں‘‘۔ عاشق وہ کارڈ کھیلے تو بازی جیت لیتا ہے۔
گزشتہ اتوار کے دن سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر ’’کارڈز‘‘ ہی تو Show ہورہے ہیں۔ پہلا پتہ یقینا نواز شریف صاحب نے طویل عرصے کی خاموشی کے بعد اپوزیشن کی رچائی اے پی سی سے کشتیاں جلاتی ایک تقریر کے ذریعے پھینکا ۔ اس کے جواب میں ’’ذرائع‘‘ نے ’’اس ملاقات‘‘ کی چند تفصیلات بہت مہارت سے لوگوں کے سامنے رکھ دیں جو اے پی سی سے چار روز قبل ہوئی تھی۔ تاثر دینا یہ مقصود تھا کہ میرے اور آپ کے روبرو ’’چی گویرا‘‘ بنے انقلابی سیاست دان ’’مقتدرحلقوں‘‘ سے ملنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ ملاقات نصیب ہوجائے تو ’’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘‘ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے شفقت کے طلب گار ہوتے ہیں۔
بات کھلی تو حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ ’’وہ ملاقات‘‘ تو درحقیقت قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم ترین موضوع پر ہوئی تھی۔ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے وہاں موجود تھے۔ اصل موضوع پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے مگر چند اپوزیشن والے وہاں ’’سیاسی باتیں‘‘ کرنا شروع ہوگئے۔ انہیں اس کی وجہ سے کھری کھری سننا پڑیں۔ نواز شریف کی تقریر مگر اس کہانی کے باوجود لوگوں کے ذہن میں اٹکی رہی۔اس تقریر کی ’’اوقات‘‘ عیاں کرنے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے۔ انکشاف کیا کہ گلگت بلتستان کے موضوع پر ہوئی ملاقات سے قبل نواز شریف کے چند مصاحبین نے راولپنڈی میں نظر بظاہر ’’معافی تلافی‘‘ کے لئے ون آن ون ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ بعدازاں طلعت حسین نے اپنے یوٹیوب چینل پر ’’نواز شریف کے ایک نمائندے‘‘ کی ملاقات کا انکشاف بھی کردیا۔ شیخ رشید کے برعکس اگرچہ طلعت حسین نے ’’معافی تلافی‘‘ والا تاثر نہیں پھیلایا۔ ہمیں سمجھانے کی بلکہ کوشش کی کہ اس ملاقات کے ذریعے ’’بس بھئی بس زیادہ بات نہیں…‘‘ والا پیغام دیا گیا تھا۔ بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی پیشی سے قبل محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اصرار کیا کہ وہ اپنے والد کے کسی ’’نمائندے‘‘کی جانب سے پنڈی میں ہوئی ملاقات کے بارے میں لاعلم ہیں۔ میاں صاحب نے کسی کے ذریعے کسی اور کو کوئی پیغام نہیں بھیجا ہے۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کے موضوع پر ہوئی ملاقات کے بارے میں ان کی رائے تھی یہ پارلیمان کی عمارت میں ہونا چاہیے تھی۔ ’’خبر‘‘ پراصرار اور اس کی تردید کا سلسلہ شروع ہوا تو بالآخر آئی ایس پی آر کے سربراہ کو باقاعدہ تصدیق کرنا پڑی کہ مسلم لیگ (نون) کے محمد زبیر صاحب نے جو تحریک انصاف کے بہت ہی تگڑے وزیر اسد عمر صاحب کے بھائی بھی ہیں حال ہی میں آرمی چیف سے ایک نہیں دو ملاقاتیں کی ہیں۔ انہیں ان ملاقاتوں میں واضح الفاظ میں بتادیا گیا کہ عدالتی عمل میں مداخلت نہیں ہوگی۔ نیب کو درست کرنابھی پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔
اعلیٰ سطحی اور سرکاری تصدیق کے بعد ملاقاتیں اور رابطوں میں مصروف رہے مسلم لیگ (نون) کے رہنما ٹی وی شوز میں شرمندہ اور دفاعی انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ میڈیا پر حاوی تحریک انصاف کے سرکاری اور غیر سرکاری ترجمان ان کے رویے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (نون) کی ’’جی حضوری‘‘ والی ’’حقیقت‘‘ کو رگیدتے چلے جارہے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر رونق لگی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہیجان برپا ہے۔ ’’جوابی پتہ‘‘ میری دانست میں اب نواز شریف ہی کو کھیلنا ہوگا۔ وہ کب اور کونسا پتہ کھیلیں گے اس کی بابت مجھے کچھ علم نہیں۔ بہت اعتماد سے اگرچہ یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ وہ کوئی نیا پتہ ضرور پھینکیں گے۔ اپنا ٹویٹر اکائونٹ انہوں نے بنالیا ہے۔ فیس بک کے ذریعے لوگوں سے رابطے کی راہ بھی ڈھونڈلی ہے۔ ان سے مگر یہ توقع نہیں باندھی جاسکتی کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرح اپنی ہر صبح کا آغاز تیلی لگاتے ٹویٹس سے کریں گے۔ کچھ بولنے سے پہلے سوبار سوچنے کے عادی ہیں۔ دل کی بات شاذ ہی لبوں پر لاتے ہیں۔ یہ بات مگر طے ہے کہ ان کے سینے میں کئی راز دفن ہیں۔ انہیں بیان کرناشروع ہوگئے تو روزانہ کی بنیاد پر Breaking News کا سیلاب امڈ پڑے گا۔
ان کے مزاج کو سمجھنے کے لئے محض یاد کرلیں کہ اتنے برس گزرجانے کے باوجود انہوں نے آج تک ہمیں یہ بتانے کا تردد ہی نہیں کیا کہ 12 اکتوبر 1999 کے روز کیا ’’قیامت‘‘ برپا ہوگئی تھی کہ انہوں نے ’’اچانک‘‘ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کو برطرف کرکے انتہائی عجلت میں ضیاء الدین کو ان کی جگہ تعینات کردیا۔ یہ فیصلہ اس شام ان کے گلے پڑگیا۔ جنرل مشرف پاکستان میں موجود نہیں تھے۔ سری لنکا میں تھے۔ آرمی چیف کی حیثیت میں وہاں گئے تھے۔ لوٹے تو ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ ہوگیا۔ اس واقعہ کو اب 21 سال گزرچکے ہیں۔ہمیں آج تک میاں صاحب نے نہیں بتایا کہ 12 اکتوبر 1999 کے روز ہی انہوں نے ایسا ’’خودکش‘‘ فیصلہ کیوں کیا۔ یہ فیصلہ اس سے قبل بھی ہوسکتا تھا۔ اس وقت ممکن نہیں تھا تو جنرل مشرف کے سری لنکا سے لوٹنے کا انتظار بھی تو ہوسکتا تھا۔ 12اکتوبر 1999 ہی کا انتخاب مگر کیوں ہوا۔
سیاسی مبصرین کی اکثریت کا اصرار ہے کہ 12 اکتوبر 1999والے فیصلے کی طرح نواز شریف صاحب کی 20 ستمبر 2020 کے روز اے پی سی میں ہوئی تقریر بھی ان کے ’’گلے‘‘ پڑجائے گی۔ ’’نون‘‘ سے اب ’’شین‘‘ کا برآمد ہونا’’دیوار پر لکھا‘‘ بتایا جارہا ہے۔ میرا وسوسوں بھرا دل مگر ابھی تک یہ ماننے کو تیار نہیں ہورہا۔ ایک طویل عرصے کے بعد ’’سزا یافتہ‘‘ شخص کا خطاب مجھے یہ سوچنے کو مستقل مجبور کررہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہورہی ہے۔ کاش مجھ میں نوجوان رپورٹروں کی لگن اور سکت باقی رہی ہوتی۔ اسے بروئے کار لاتے ہوئے میں اپنے ذہن میں نواز شریف کے 20 ستمبر 2020 والے خطاب کی وجہ سے مسلسل اُبلتے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ اپنی بے بسی کو لیکن یہ سوچتے ہوئے تسلی دیتا ہوں کہ ’’بکائو میڈیا‘‘ کو اب ’’خبر‘‘ نہیں چسکہ فروشی درکار ہے۔ ایسے عالم میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر