حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے لوگو!
تم میں سے جو نہیں جانتے وہ جان لیں میں اس کا فرزند ہوں جسے ذاتِ الٰہی ایک ہی شب میں مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر بالائے عرشِ مبین لے گئی۔
جس کی طرف خداوندِ عالم نے وحی فرمائی۔ جسے وجہء تخلیق کائنات قرار دیا۔
جس نے اپنے تعارف میں کہا تھا۔
اللہ نے سب سے پہلے مجھ محمد ؐ کے نور کو خلق کیا۔
ہاں میں اسی ہادیء برحق محمد مصطفیٰؐ کا فرزند ہوں۔ میں سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہراؑ کے لختِ جگر حسینؑ کا نورِ نظر ہوں۔
وہی حسینؑ جو کربلا میں بے جرم و خطا شہید کر دیئے گئے۔
اور دشمنوں نے زمانہ جاہلیت کی رسم کو ادا کرتے ہوئے حسینؑ اور ان کے اصحاب،برادران، فرزندوں، بھتیجوں اور بھانجوں کی نعشوں کو پامال کیا اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے۔
لوگو!
جان لو ۔ میں علیؑ بن حسینؑ بن علیؑ ہوں۔ اس کا بٹا ہوں جو تین دن کاپیاسا تھا اور اپنے خون میں نہا گیا۔
دمشق کی جامع مسجد میں کہرام برپا تھا۔
لوگ جسے ایک جنگ میں مارے گئے باغی کا بیٹا سمجھ رہے تھے وہ بڑی شان کے ساتھ منبر پر جلوہ افروز ہوا کہہ رہا تھا۔
اہلِ دمشق!
کیا جواب دو گے رب العالمین اور اس کے محبوب و میرے جدِ بزرگوار محمد مصطفیٰ ؐ کو۔
یاد رکھو جو اپنے وقت پر سچ نہیں بولتے ، محکوموں مظلوموں کی داد رسی نہیں کرتے ظالموں سے براءت اور حکمرانوں کے انحرافِ دین و عدل پر کم سے کم زبان ہلانے کا فرض ادا نہیں کرتے وہ ان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جو مالک کے ہر حال میں وفادار رہتے ہیں۔
سید الساجدین علیؑ بن حسین بن علیؑ امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں۔
سیاہ بخت ہیں جو حق کو جانتے ہوئے ظلم و خیانت کے پاسبان بن جائیں۔
علیؑ بن حسینؑ بن علیؑ گیارہ بیٹوں اور چار صاحبزادیوں کے والد گرامی تھے۔
کنیت ابو باقر، ابو الحسن، شعبان 38 ہجری میلاد مسعود ہوا۔ 95ہجری میں مدینہ میں ہی دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ 57 برس کا عرصہ حیات پایا۔ 34 سال کا زمانہ امامت۔ جنت البقیع میں اپنے تایا امامِ حسن بن علیؑ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔
کربلا کے معرکہء حق و باطل کے وقت 23 سال کے تھے۔ محبوب ترین کام مسافروں ، بےنواؤں، مساکین کو کھانا کھلانا، نمازِ مغربین ادا کرتے ہی گھر سے نکلتے اور بے نواؤں کی اس اس طور دست گیری کرتے کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ خاموشی کے ساتھ خوراک کی پوٹلیاں ضرورت مندوں کے دروازے پر چھوڑ دیتے۔
سیدالساجدینؑ فرماتے ہیں۔
“خدایا۔ میں اسراف سے رزق و روزی میں کمی سے ،دشمنوں کی خوشی سے، دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے اور دنیا کی مصیبتوں سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔ خدایا مجھے ممنوع رکھ اس بات سے کہ ظالم کی مدد کروں اور مظلوم کا ساتھ دینے میں تساہل برتوں۔ ناحق کسی چیز کو طلب کروں یا کسی معاملے میں بنا سوچے سمجھے رائے دوں”۔
لوگو!
بڑی بڑی آرزوئیں پالنا اور خواہشوں کے پیچھے سرپٹ بھاگنا چھوڑ دو۔
حق یہ ہے کہ خالق کی عبادت کو بوجھ تصور نہ کرو۔غیبت سے بچو۔ یہ برائیوں کا دروازہ کھولتی ہے۔
شکم کو رزقِ حلال کا تحفہ دو۔ حرام خوری سے محفوظ رکھو۔ ظالموں اور بدکرداروں کے انجام سے عبرت حاصل کرو۔
بیہودہ بات اور لوگوں سےدور رہو۔ زبان کو اچھی باتوں اور رزقِ حلال کی لذت دو تاکہ وہ کلمہءحق کہنے کی عادی بنے۔ صدقہ خدا کے پاس محفوظ ہو جاتا ہے۔
جو سجود و قیام میں عاجزی برتتے ہیں وہ ظالموں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ جس نے نفس کی غلامی سے آزادی پا لی اسےکوئی غلام نہیں بنا سکتا۔
صراطِ مستقیم مظلوموں کی ہمنوائی میں طے کئے ہوئے فاصلے جیسی ہے۔ اس کا شکرو بجا لاؤ جس نے تمہیں کسی کا محتاج نہیں بنایا۔
دولت جمع کرنے کی چیز نہیں ۔ ماں باپ کا حق کسی طور ادا نہیں ہو پاتا۔ حق کو حقدار وں تک پہنچاؤ۔ غصہ کے وقت نرمی اختیار کرو۔ بانٹ کر کھانے میں رحمت ہی رحمت ہے۔ علم حاصل کرنا واجب اور اسے پھیلانا واجبِ افضل ہے۔ احسان کو ہمیشہ یاد رکھو۔
اولاد کی تربیت میں زمانہ سازی نہیں انسان سازی کوافضل سمجھو۔ خلوت و جلوت میں یکساں رہو۔
دیکھو!
ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے درمیان تم مہربان دیکھائی دو اور تنہائی میں شیطان بن جاؤ۔ بھائی تمہارے قوت ِ بازو اور زینت ہیں ۔
تم بھی اس کے لئے قوتِ بازو اور زینت بنو۔ اچھی تربیت صدقہء جاریہ ہے۔غفلت شیطان کوحاوی کرتی ہے۔
لوگوں کو ان کے حق سے محروم رکھنا عذابِ الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آؤ۔ ہم نشین کی اچھائیوں کو یاد رکھو لغزشوں کو بھول جاؤ۔
دوستوں سے مہربانی کرو۔ انہیں احترام دو۔ دوستوں کے عیبوں پر پردہ ڈالو۔
دشمن کے ساتھ بھی نیکی سےپیش آؤ۔
درست مشورہ نہ دے سکو تو مشورہ مانگنے والے کی اس ذات کی طرف رہنمائی کرو جو درست مشورہ دے سکے۔ اپنے رفیق کو دھوکہ دینا سے سے بڑی ذلت ہے۔
مال صرف حلال ذرائع سے حاصل کرو۔ دوسروں کا حق کھانے اور ان کے مال پر نظر رکھنے سے اجتناب برتو۔ جو نصیحت کرے اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔
سوال کرنے والے کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کرو۔
برا سلوک کرنے والے کو معاف کردینا فضیلیت ہے۔ انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ امتحان و مصائب نہیں آتے۔
فرزندِ سیدا لساجدینؑ امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں۔
میرے پدر بزرگوار نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ایسا لگتا کہ ایک معمولی غلام عظیم ترین بادشاہ کے حضور حاضر ہے۔سیدالساجدین امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں۔
” اسلام نےپستیوں اور جہالتوں کو ختم کردیا ۔ بزرگی تقویٰ سے مشروط ہے۔غصہ پی جانے ، لوگوں کو معاف کر دینے، اور خیروبھلائی کے کاموں میں حصہ ڈالنے والوں کو اللہ رب العزت دوست رکھتا ہے”۔
علیؑ بن حسینؑ بن علیؑ معرکہ کربلا کے وقت 23 سال کے تھے۔ شاہِ شہیداں امام حسینؑ کی شہادت کے بعد قیدی بنے زنجیروں سے لدے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے دمشق تک لے جائے گئے۔
ہر منزل پر آپ نے یہی کہا۔
قربان اس کی ذات پر جس نے اپنے تعارف کے لئے محمدؐ اور ان کی آل کا انتخاب کیا۔
قربان جائیے اس امامؑ پر جس نے قید کے سخت ترین لمحات میں بھی انسان سازی کے فرض کو نبھایا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر