رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست کے اواخر اور ستمبر کے اوائل میں ساری دنیا نئے تعلیمی سال کا آغاز کرتی ہے۔ گرمیوں کی طویل چھٹیاں گزارنے کے بعد طلبہ و اساتذہ واپس آتے اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ سب ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ تازہ دم‘ پھر سے جُت جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو واپس آنے والوں کی خوشی قابلِ دید ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گھروں اور محلوں کا محدود ماحول انہیں بے چین رکھتا ہے اور وہ واپس کالجوں اور جامعات کی بڑی دنیا میں آنے کے لئے تڑپتے رہتے ہیں۔ ان سے زیادہ وہ طلبا و طالبات جامعات میں قدم رکھنے کے لئے بے قرار ہوتے ہیں‘ جن کا نیا داخلہ ہوا ہو۔ ان کے لئے یہ ایک بالکل نئی دنیا ہوتی ہے۔ میرے لئے تین دن انتہائی قیمتی اور زندگی کا سرمایہ ہیں۔ پہلا وہ دن جب میں نے سکول سے نکل کر کالج کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ دوسرا وہ جب جامعہ پنجاب میں داخل ہوا۔ تیسرا وہ دن جب میں کئی دن کی مسافت کے بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پہنچا تھا‘ یہ خواب میں کئی برسوں سے اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے تھا۔ آپ کے ذاتی تجربات خاکسار سے مختلف نہیں ہو سکتے کہ تعلیمی سلسلوں میں سبھی تقریباً ایک جیسے حالات سے گزرتے ہیں۔ اپنی طالب علمی کے تین برس شامل کروں تو نصف صدی سے زیادہ زندگی جامعات میں گزار دی ہے۔ ہر سال سینکڑوں نئے طلبا و طالبات سے ملنے اور انہیں پڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ امریکی جامعات میں بھی برسوں نئے آنے والوں کو آتے دیکھا۔ ہمارے ہاں بھی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے‘ لیکن مغرب میں تو والدین کا سب سے بڑا خواب اپنے بچوں کو جامعات کی تعلیم کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ وہاں تعلیم مہنگی ہے۔ یہاں تک کہ متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنے بچوں کو جامعات میں تعلیم نہیں دلوا سکتے۔ وہاں سکول کی حد تک تعلیم مفت ہے‘ مگر جامعات میں آپ کو بھاری بھرکم فیسیں دینا پڑتی ہیں۔ اس کے لئے والدین ساری زندگی بچت کرتے ہیں اور بچوں کی تعداد ایک دو تک ہی محدود رکھتے ہیں کہ انہیں (بچوں کو) اعلیٰ اور معیاری تعلیم سے آراستہ کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
دنیا کا علمی میدان ہمیشہ سب کے لئے کھلا رہا ہے۔ قدیم زمانوں میں اور قرونِ وسطیٰ میں بھی علم کے طالب بڑی مسافتوں کے بعد اساتذہ کو تلاش کرتے تھے‘ ان کے پاس رہ کر فیض حاصل کرتے تھے‘ اور پھر کسی اور مشہور ہستی کا سن کر اس کی طرف روانہ ہو جاتے تھے تاکہ اس سے علم کے موتی چُن سکیں۔ گزشتہ صدیوں میں بڑے بڑے شہر علم کا مرکز بنے رہے۔ وہاں مدرسے‘ مکتب قائم تھے۔ کتب خانے علم کے سمندروں سے بھرے ہوتے تھے۔ عالم فاضل‘ مفکرین‘ ادبا‘ شعرا اور سائنس دان ایسے شہروں کو اپنا مسکن بنا لیتے تھے۔ یہ روایت مشرق میں بھی چلتی رہی اور مغرب میں بھی۔ اسلامی تہذیب کے عروج کے زمانے میں بغداد‘ دمشق‘ مصر سمیت تقریباً ہر گاہ علم کی شمعیں روشن تھیں۔ جوت سے جوت جلانے کا سلسلہ صدیوں جاری رہا۔ زوال آیا تو سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ اس سے پہلے‘ یونان میں علم‘ ادب اور فلسفے نے جو کمال درجہ ترقی کی وہ آج بھی مغربی تہذیب کے ورثے میں نمایاں ہے۔ پھر کئی سو سال پہلے جامعات کا رواج پڑا۔ مقصد یہ تھا کہ ہر نوع کے علم کو ایک ہی جگہ پڑھایا اور پروان چڑھایا جائے۔ تمام علوم میں جو نئی تحقیق ہونی ہے‘ وہ بھی ایک ہی جگہ انجام پا سکے اور زیادہ سے زیادہ طالب علم فیض حاصل کر سکیں۔ ہمارے ہاں جہاں بہت سی عجیب و غریب چیزیں کہی اور لکھی جاتی ہیں‘ وہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف ایک ہی مخصوص علم کی جامعہ بنا دی جائے۔ دنیا بھر کی جامعات میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔
یونیورسٹی میں جانے کا آپ کا تجربہ مجھ سے یقینامختلف نہیں ہو گا۔ ہم نے جب وہاں قدم رکھا تو آنکھیں کھلنے لگیں۔ ایسا لگا کہ ہم ایک نئی دنیا میں آباد ہونے لگے ہیں۔ بچے جب تک سکول میں رہتے ہیں تو بہت محدود ماحول میں انہیں تربیت دی جاتی ہے۔ گھر اور قریبی سکول‘ وہی محلہ‘ وہی شہر کا حصہ‘ قریبی رشتے دار اور کچھ دوست۔ ایسے ماحول میں یکسانیت سی ہونے لگتی ہے‘ اور انسان کو اس سے باہر نکلنا نصیب نہ ہو تو وہ کنوئیں کا مینڈک ہی بن کر رہ جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں‘ اور آج بھی لوگ سفر کرتے ہیں کہ دنیا کو دیکھیں‘ کچھ مشاہدہ و تجزیہ کر سکیں اور کچھ سیکھ سکیں۔ کوئی بندہ یہ کاوش شعوری طور پر نہ بھی کرے تو اس کے علمی اثرات افق پر ہمیشہ چھائے رہتے ہیں۔
میں تو ان کروڑوں نئے مسافروں کی بات کرنا چاہتا ہوں جو دنیا کے کونے کونے سے ان دنوں گھر کی آسائش‘ دادی جان کی محبت اور امی جان کے ہاتھوں کے پکے ہوئے لذیذ کھانوں کو چھوڑ کر کسی اور شہر‘ اور لاکھوں کی تعداد میں کسی اور ملک میں نئی جگہوں پر جا کر بسیں گے‘ علم کی نئی شمعیں روشن کریں گے۔ ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ کرتا چلوں۔ نئی نسل کی نئی کھیپ جب جامعات میں داخل ہوتی ہے تو وہ صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا سند کی صورت میں حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ زندگی کے معاملات کو سمجھنے کے لئے ایک نئے تجربے سے گزرتی ہے۔ یہ سب کچھ بتایا نہیں جاتا‘ نہ اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو تعلیم ہم دے رہے ہوتے ہیں اور جس قسم کا نصاب وضع کیا گیا ہوتا ہے اس کے پیچھے علمی فلسفہ کارفرما ہوتا ہے کہ ہم نے کیسا انسان معاشرے کو دینا ہے۔ جامعات کا مقصد علم کے مسافروں کو ایک نہیں کئی راہوں سے روشناس کرانا ہوتا ہے۔ ایک علم سے نہیں‘ سب علوم سے واقفیت دلانا ہوتی ہے۔ ایک سچائی نہیں‘ سب سچائیوں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے‘ اور ایک ایسا انسان پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جو اپنا راستہ خود بنا سکے‘ اپنی سچائی خود تلاش کر سکے۔ وہ ذہنی آزادی حاصل کرے‘ کسی کا محتاج نہ ہو‘ سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکے‘ اور ہاں سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کی جا سکیں‘ کہ سچ بولے‘ حلال کمائے‘ اور صادق و امین بن کر رہے‘ کسی کی حق تلفی نہ کرے۔ یہ باتیں دنیا کی ہر جامعہ کے وژن اور تعلیمی فلسفے میں موجود ہوتی ہیں۔
نصف صدی کا مشاہدہ ہے‘ لیکن پھر بھی میں کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا‘ نہ اس کے لائق ہوں کہ ہم اپنے مشن میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جامعات کی دنیا بھی انسانی دنیا ہے‘ فرشتوں کی نہیں۔ اس کا تعلق بھی سیاست سے ہے‘ سماج سے ہے‘ اور اس تہذیب سے‘ جس کی سرپرستی پر یہ قائم ہے۔ یہ کوئی علیحدہ دنیا نہیں۔ اس کا مخصوص زاویہ دانش وری ہے۔ فارسی میں جامعات کو دانش گاہ بھی کہتے ہیں‘ اور طالب علموں کو دانش جو۔ اس راہ سے گزرنے والا ہر طالب علم کچھ نہ کچھ دانش وری لے کر ہی جاتا ہے‘ کسی حد تک سنور کر نکھر کر‘ پہلے سے بہتر انسان بن کر۔ وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چار سال کے عرصے میں بہت کچھ سکھایا جا سکتا ہے‘ کوئی نہ سیکھ سکے تو زیادہ دیر ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
گلے شکوے تو سبھی کو ہیں کہ ہماری جامعات میں کچھ نہیں ہو رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ دوسرا رخ دیکھنے کے لئے کبھی ہمارے پاس آ بیٹھیں۔ آپ ضرور صاحبِ علم ہوں گے‘ لیکن جو اس روشنی کے مسافر ہیں‘ ذرا ان کے ساتھ کچھ لمحے گزار کر دیکھیں‘ مجھے یقین ہے کہ جب آپ کھلے دل‘ کھلے ذہن اور تعصبات کی گرفتاری سے آزاد ہو کر دیکھیں اور سوچیں گے تو تصویر کا پہلا رخ بھول جائیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر