نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چکرا اور سرائیکی وسیب ( پہلا حصہ)۔۔مژدم خان

سرائیکی وسیب میں ہر عمل کے عمل میں آنے سے پہلے اس عمل کے محرکات تصوراتی ہوتے ہیں

مژدم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چکرا مثبت و منفی توانائی کو کہتے ہیں
گزشتہ تحریر میں میں بتا چکا ہوں کتنے قسم کا چکرا ہوتا ہے اور اُس چکر کے کیا کیا چکر ہوتے ہیں،
سرائیکی وسیب میں ہر عمل کے عمل میں آنے سے پہلے اس عمل کے محرکات تصوراتی ہوتے ہیں، مثلاََ فرد کے مر جانے اور دفن کرنے کے فوراََ بعد
دفن کرنے والوں کا کھانا (کاندھیں دا ٹکر) جو کہ صرف میٹھا کھانا ہوتا ہے
کھانے کے تین تصور ہیں جو اپنی اساس میں وجودی و مابعد الطبیعی ہیں
پہلا میٹھا (مٹھا) دوسرا نمکین (چَہرا) تیسرا کھٹا کڑوا ( کھٹا یا کوڑا)
میٹھا موت کی خوشآمد کے لئے پکایا جاتا ہے اس کا مابعدالطبیعی تصور یہ ہے کہ موت کسی کو مارنے کے بعد چالیس دن تک روح کے ساتھ روے زمین یا اُس خانوادے کے ارد گرد پھرتی رہتی ہے، اِس لئے چالیس دن تک مختلف پکوان پکائے جاتے ہیں جن میں میٹھا لازم ہوتا ہے، جمعہ راتوں کی صورت میں
کاندھیوں ( دفن کرنے والوں کو ) میٹھے کے بجائے چَہرا نمکین اس لئے نہیں کھلایا جاتا کہ کہیں موت چَہری نہ ہو جائے (چَہری یعنی confidential گھاٹی یا قریبی نہ بن جائے چَہری یاری نہ لگ ونجے یا چہری نہ تھی ونجے یا چَہرا نہ تھی ) وسیب میں حیات بعد الموت کا اصولی تصور روحانی ہوتا ہے (روحانی سے میری مراد ہے کہ متوازی وجودی و مابعد الطبیعی )
یعنی اِس دنیا میں روحیں بھی رہتی ہیں اور انسان بھی
کھٹا اس لئے نہیں کھلایا جاتا کہ کہیں موت کھٹی نہ ہو جائے (موت کے دانت کھٹے نہ ہو جائیں ) یعنی غصہ نہ ہو جائے دوسرا بیزار نہ ہو جائے
کیونکہ تصور یہ ہے کہ ہر کھانا جو وقف کیا جاتا ہے یا مجمع کو خیرات کے طور پر کھلایا جاتا ہے وہ مرنے والے تک پہنچتا ہے کیونکہ مردہ کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ موت کو بھی ساتھ کھانا کھلائے یا کھلائے گا، ( زندوں کے ہر عمل سے مردہ واقف ہوتے ہیں اور مردہ ملنے جلنے بھی آتے رہتے ہیں بھنوروں کی صورت میں ) جن کا استقبال پانی کے چھٹوں سے کیا جاتا ہے
دفن کرنے والوں کی قبرستان سے واپسی کے وقت گھر کی دہلیز پر پانی سے چھنڑکاؤ کیا جاتا ہے جو ایک طرح کڑا بن جاتا ہے جس کو پھلانگ کر کاندھی (دفن کرنے والے ) گھر میں داخل ہوتے ہیں
تصور یہ ہے کہ پانی کا وہ کڑا موت کو روک لیتا ہے گھر میں داخل ہونے سے
مگر موت چالیس دن گھر کی دہلیز کے باہر انتظار کرتی رہتی ہے
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

About The Author