دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کابینہ کے فیصلے ۔۔۔ ظہوردھریجہ

ترامیم کے مطابق تمام محکمے عوامی آگہی مہم ( کورونا ، ڈینگی وغیرہ ) کے اشتہاروں کی ادائیگیاں براہ راست میڈیا ہاؤسز کو کریں گے
پنجاب کابینہ نے اشتہارات اور جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے بعض اہم فیصلے کئے ہیں۔ ان فیصلوں کے مطابق سرکاری ایڈورٹائزنگ پالیسی میں مزید ترامیم کر دی ہے جس کے مطابق میڈیا ہاؤسز کو ادائیگیوں کے حوالے سے ڈی جی پی آر کے اختیارات میں تبدیلی کی گئی ہے۔
ترامیم کے مطابق تمام محکمے عوامی آگہی مہم ( کورونا ، ڈینگی وغیرہ ) کے اشتہاروں کی ادائیگیاں براہ راست میڈیا ہاؤسز کو کریں گے ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی پی آر ان ادائیگیوں میں لین دین کا ذمہ دار نہ ہوگا ۔ یہ فیصلہ آدھا تیتر ، آدھا بٹیر کے مترادف ہے کہ ادائیگیوں کے حوالے سے کچھ اداروں کو ڈی جی پی آر کے تعلق سے آزاد کیا جاتا ہے تو کیا یہی آزادی دوسرے ادارے طلب نہیں کریں گے ، ایک ہی پالیسی ہونی چاہئے ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 20 لاکھ کے کم مالیت کے ٹینڈر نوٹس پیپرا اور محکمے کی اپنی ویب سائٹ پر مشتہر ہونگے۔ مسئلہ مالیت کا نہیں بلکہ طریقہ کار کا ہے۔ اگر ویب سائٹ کا چلن عام ہو جاتا ہے تو 20 کروڑ مالیت والے بھی یہی خواہش کریں گے اور حکومت خود یہ گوارا نہیں کرے گی کہ اشتہارات کا ہتھیار اس کے پاس نہ ہو۔
پنجاب کابینہ نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لئے بزنس آف رولز میں جو ترامیم کی ہیں ان کی رو سے ہوم سیکرٹری سمیت 16 سیکرٹریز تعینات کئے جائیں گے ۔ کہا گیا ہے کہ سیکرٹری با اختیار ہوں گے، سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ جنوبی پنجاب 40 کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبے کی منظوری دے سکے گا۔ البتہ میگا پراجیکٹس کی منظوری کا اختیار چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پنجاب کے پاس رہے گا ۔ وفاق اور صوبے کی دو وزارتوں کو اہم سمجھا جاتا ہے، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور فنانس۔
جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ میں جو اداروں کی تفصیل دی گئی ہے، ان میں محکمہ خزانہ شامل نہیں۔ جب سول سیکرٹریٹ کو فنڈز فراہم کرنے والا محکمہ ہی نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ وہ ایک ایک پائی کیلئے تخت لاہور کا محتاج ہوگا ۔
میں حکومت کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب میں احتجاج کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے ، وسیب کے لوگ سول سیکرٹریٹ کو مسترد کر کے صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ مگر حکومت نے صوبے کا وعدہ پورا کرنے کی بجائے سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا ہے اور وہ بھی عجیب و غریب کہ یہ سول سیکرٹریٹ ملتان اور بہاولپور کے درمیان تقسیم ہے اور اختیارات بھی برائے نام ہیں ۔
سول سیکرٹریٹ میں خزانہ کے علاوہ اطلاعات و ثقافت کا محکمہ بھی شامل نہیں ۔ وسیب کے میڈیا ہاؤسز طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہاولپور ، ملتان اور ڈی جی خان میں وزارت اطلاعات کے دفاتر موجود ہیں ، ان شہروں میں آرٹس کونسلیں بھی کام کر رہی ہیں مگر وزارت اطلاعات کا سیکرٹری یا ایڈیشنل سیکرٹری جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ میں نہ آنے سے مسئلے تو حل نہیں ہونگے جیسا کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران وسیب کے فنکاروں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، اطلاع یہ تھی کہ آرٹسٹ فنڈ کی جو لسٹیں وزارت اطلاعات کو موصول ہوئیں ان میں پورا صوبہ ایک طرف تھا اور لاہور ایک طرف۔ چونکہ لاہور میں دارالحکومت ہے ، سب وہاں اپروچ کر لیتے ہیں اور اپنے نام ان لسٹ کرا لیتے ہیں جبکہ چولستان ، تھل اور دامان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے فنکاروں کو کون پوچھتا ہے ؟
حکومت نے سول سیکرٹریٹ کے لولی پاپ کے ساتھ اس بات کی بڑی تشہیر کی کہ لوگوں کو کاموں کے سلسلے میں لاہور نہیں جانا پڑے گا۔ چھوٹی سی مثال صحافی برادری کی ہے ، ایک چھوٹا سا کام ہے ریگولرٹی سرٹیفکیٹ۔ یہ پریس لاز برانچ جاری کرتی ہے جو کہ لاہور میں ہے، اخبارات اور رسائل اسی شعبے میں جمع کرا کے رسید حاصل کی جاتی ہے ، وہ بھی لاہور میں ہے ۔
ایکریڈیشن کارڈ ہے وہ بھی لاہور سے جاری ہوتا ہے۔ اخبار کا آڈٹ کرانے کے بعد سنٹرل میڈیا لسٹ میں شامل ہونے کے لئے این او سی حاصل کرنا ہوتا ہے ، اس کا دفتر بھی لاہور میں ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے دوسرے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے لاہور ہی جانا پڑے گا ۔ ڈسٹرکٹ راجن پور کے کسی محکمے نے اشتہار شائع کرانا ہے تو اسے بھی لاہور جانا پڑتا ہے ۔
اب بھی اسے لاہور ہی جانا پڑے گا تو یہ دعویٰ باطل ہوجاتا ہے کہ اب جنوبی پنجاب کے لوگوں کو کاموں کیلئے لاہور نہیں جانا پڑے گا ۔ سول سیکرٹریٹ میں آدھے سے بھی کم محکمے آ رہے ہیں ، اشک شوئی کیلئے چلو اتنا ہی کر دیا جاتا کہ جو محکمے سول سیکرٹریٹ میں نہیں جا رہے ، وہاں ان محکموں کے افسران کو اتھارٹی دے دی جاتی مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ سب گورکھ دھندہ ہے، وسیب کے محروم اور غریب انسانوں کو گورکھ دھندوں میںپھنسانے کی بجائے ان کو صوبہ دیا جائے اور صوبہ بھی اسی طرح جیسا کہ دوسرے صوبے ہیں ۔ وسیب کا صوبہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں نہ برتر ہونا چاہئے اور نہ ہی کمتر ۔

About The Author