ایک سال قبل یہ ترجمہ شروع کیا تھا، سوچا تھا کہ چند دن میں مکمل کرلوں گا، لیکن اس دوران مختلف بیماریوں نے گھیرا تو کویڈ-19 کے دوران بے روزگاری کی لہر نے تباہی مچادی اور نظیر. اکبرآبادی کی نظم "مفلسی” مجسم ہوکر سامنے آگئی
جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
اور اس دوران
ان الفقر کاد الکفر (فقر کفر تک پہنچا سکتا) بھی یاد آتا رہا
ٹوبے ایم ہورتھ جو خود باعتبار پیشہ پریسٹ ہیں مسیحی مذھب کے پرچارک ہیں نے ہندوستان میں مجالس عزا کی تاریخ اور اس کی شکل و صورت کے ارتقاء کا معروضی بنیادوں پر جائزہ لیا ہے-
ٹوبے ایم ہورتھ نے مجالس عزا کے تاریخی ارتقاء اور انسیویں صدی کے آخر اور بیسویں کی ابتداء میں مجلس عزا اور خطبے کی جو صورت گری ہوئی اس کا جائزہ لیا ہے –
میرے لیے ٹوبے ایم ہورتھ کی اس کتاب میں ایک چیز اور بڑی دلچسپی کا باعث تھی اور وہ یہ کہ ٹوبے ایم ہورتھ نے یہ جائزہ بھی لیا کہ شیعی مجلس عزا کی صورت اُس وقت کیا تھی جب ایران میں صفوی سلطنت، جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی سلطنت اور شمالی ہندوستان میں سلطنت اودھ کی طرف سے اسے سرکاری سرپرستی میسر تھی اور اُس وقت کیا تھی جب یہ سرکاری سرپرستی میسر نہ رہی-
ہورتھ کی تحقیق یہ ہے سرکاری سرپرستی کے زمانے میں مجالس عزا نوابین، اشراف اور امراء کے ہاں ہی ہوا کرتی تھیں لیکن جب سرکاری سرپرستی نہ رہی تو مجالس عزا زیادہ عوامی ہوگئیں اور ان کی ساخت و پرداخت میں بھی تبدیلیاں واقع ہوئیں-
ٹوبے ایم ہورتھ کی کتاب کا پہلا باب تو انتہائی شاندار اور ہندوستان میں شیعہ مسلم شناخت کے ساتھ مجالس عزا کی جڑت جاننے کے لیے اہم دستاویز ہے-
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر