جماعت اسلامی بہاولپور کے زیر اہتمام بہاولپور صوبہ بحالی کے مسئلے پر بہاولپور میں آل پارٹیز کانفرنس ہوئی ، اے پی سی کا کہنا ہے کہ ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا بہاولپور صوبہ کی بحالی ہے ، بہاولپور کے عوام صوبہ بحالی سے کم پر سمجھوتہ نہیں کریں گے کہ 1970ء میں بہاولپور صوبہ کو ایل ایف او کے تحت ختم کیا گیا ۔
حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور کبھی صوبہ نہیں رہا ۔ جب بہاولپور صوبہ نہیں تو بحالی کس بات کی ؟ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ 1970ء میں ایل ایف او کے تحت بہاولپور صوبہ کو ختم کیا گیا ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ 22 نومبر 1954ء کو وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی طرف سے ون یونٹ کا اعلان کیا گیا اور یکم جولائی 1970ء میں صدر یحییٰ خان نے ون یونٹ کا آرڈر معطل کر کے نہ صرف یہ کہ سندھ ، پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبے بحال کر دیئے بلکہ نیا صوبہ بلوچستان بھی بنا دیا ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ون یونٹ سے پہلے بہاولپور صوبہ نہیں بلکہ ریاست کے طور پر کام کرتی رہی اور ہز ہائی نس صادق محمد خان عباسی ریاست کے نواب کی حیثیت سے اختیارات استعمال کرتے رہے ۔ ریاست بہاولپور اور حکومت پاکستان کے درمیان 1954ء میں ہونے والے معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ جب نواب آف بہاولپور صادق محمد عباسی اور گورنر جنرل پاکستان غلام محمد کے درمیان انضمام کا معاہدہ ہوا تو بہاولپور اس وقت ریاست تھی نہ کہ صوبہ ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ صوبے بحال ہونگے تو بہاولپور کو صوبے کی حیثیت دی جائے گی ، حالانکہ یہ غلط ہے ، اس بات کا معاہدے میں کوئی تذکرہ نہیں ۔ بلکہ معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس معاہدے کے بعد سابقہ تمام معاہدے کالعدم تصور ہونگے ۔ معاہدہ پڑھ کر اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ اس میں نواب آف بہاولپور اور ان کی اولاد کی مراعات کا ذکر تو ہر جگہ ملتا ہے مگر ریاست کے عوام کے حقوق کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں۔
معاہدے میں نواب کی کے پاس ہیرے جواہرات ، زیورات ، تمسکات وغیرہ کا مالک و مختار صرف نواب آف بہاولپور کو قرار دیا گیا ہے، حالانکہ ریاست کی ہر چیز عوام کی ملکیت ہوتی ہے ریاست کا بادشاہ صرف امین ہوتا ہے ۔ نواب آف بہاولپور صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ محمد قمر الزمان عباسی کی کتاب ’’ بہاولپور کا صادق دوست ‘‘ (مطبوعہ جولائی 1992 ) کے صفحہ 184-185 پر ’’ بہاولپور کے انضمام کا معاہدہ ‘‘ شائع ہوا ہے ۔ جسے من و عن پیش کر رہا ہوں ۔
اسے پڑھئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ بہاولپور صوبے کا ذکر کہاں ہے ؟ معاہدے کا اقتباس یہ ہے : دسمبر 1954 کے سترویں دن آج گورنر جنرل آف پاکستان اور ہز ہائی نس امیر بہاولپور کے درمیان کیا گیا۔ بہاولپور ریاست اور ڈومین آف پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے کہ متذکرہ ریاست کے علاقوں کو ریاست سے علیحدہ کر کے ڈومنین آف پاکستان میں شامل کر دیا جائے اور ان علاقوں کو متذکرہ ڈومنین کے مجوزہ یونٹ میں ضم کر دیا جائے جس کا نام مغربی پاکستان ہے۔
آرٹیکل نمبر 1: ہزہائینس امیر بہاولپور اپنا اقتدار اعلیٰ اور اپنے حقوق اختیارات اور اتھارٹی بطور ایک حکمران ریاست بہاولپور اور حکومت پاکستان کے حوالے کرتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی وہ اپنے تمام علاقے، اتھارٹی ، دائرہ اختیار اور متذکرہ ریاست کے اختیارات ڈومینن کی حکومت کے حوالے کرتے ہیں ۔ اس کا اطلاق اس دن سے ہوگا جس کا تعین گورنر جنرل پاکستان کریں گے ۔ اس کے بعد اس دن کو متذکرہ دن کہا جائے گا ۔ اس دن سے ڈومنین حکومت متذکرہ ریاست اور علاقوں پر حکومت کے تمام اختیارات اتھارٹی اور قانون دائر بروئے کار آئے گی ۔ اس سلسلے میں وہ اپنی مرضی کے طریق کار اور ادارے سے کام لے گی ۔
آرٹیکل نمبر 2: (۱)۔ ہز ہائینس امیر بہاولپور اپنے شاہی اخراجات کے لئے حکومت پاکستان سے سالانہ 32 لاکھ روپے لینے کا استحقاق رکھتی ہے ۔ یہ رقم ہر قسم کے ٹیکس سے فری ہوگی اور یہ رقم امیر بہاولپور ان کے خاندان کے تمام اخراجات پورے کرنے کیلئے ہوگی ، جس میں باڈی گارڈ، مہمان نوازی ، اقامت گاہوںاور شادیاں اور تمام خاندانی تقریبات کا خرچہ شامل ہے ۔ (۲)۔ متذکرہ رقم امیر بہاولپور چار مساوی اقساط میں ہر سہ ماہی کے آغاز میں پیشگی دے دی جائے گی ، متذکرہ رقم کی ادائیگی کی ضمانت پاکستان دیتی ہے ۔
آرٹیکل نمبر 3: اس معاہدے کی تاریخ تک ہزہائینس کے پاس جو جواہر ، زیورات ، تمسکات اور دیگر منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ہے ( جو جائیداد کا حصہ نہیں) وہ اس کے پوری طرح مالک ہیں ، اور انہیں ہر طرح استعمال کر سکتے ہیں ۔اگریہ تنازعہ پیدا ہوتا ہے کہ جائیداد کا کوئی حصہ ہز ہائی نس کی ذاتی جائیداد کا حصہ ہے یا ریاست کی جائیداد کا تو اس کا فیصلہ گورنر جنرل پاکستان کریں گے جن کا فیصلہ حتمی اور سب کے لئے ہوگا۔
آرٹیکل نمبر 4: اس معاہدے سے فوراً پہلے تک ہز ہائی نس امیر ‘ ہز ہائی نس اور ہز ہائی نس کے بچے جو ذاتی مراعات ، خطابات ، ریاست کے اندر یا اس سے باہر رکھتے ہیں وہ حاوی رہیں گے۔
آرٹیکل نمبر 5 : حکومت پاکستان اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ گدی کی وراثت ریاست بہاولپور کے قانون اور روایات کے مطابق ہوگی اور ان کے ذاتی حقوق ، مراعات اور امیر کے خطابات قائم رہیں گے ۔
آرٹیکل نمبر 6: یہ معاہدہ گورنر جنرل پاکستان اور ہز ہائی نس امیر بہاولپور کے درمیان ہونے والے تمام معاہدوں اور الحاق کی دستاویزات کو کالعدم قرار دیتا ہے تصدیق کے طور پر گورنر جنرل پاکستان اور ہز ہائی نس امیر بہاولپور نے آج دسمبر 1954ء کے سترھویں دن اس پر دستخط کئے ہیں ۔ حرف آخر کے طور پرعرض کروں گا کہ بہاولپور میں جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں بہاولپور صوبہ بحالی کے نام پر سیاست کر رہی ہیں ، ان جماعتوں کے تمام اکابرین سے اتنی گزارش ہے کہ وہ بہاولپور کی سیاست کرنے سے پہلے تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں ، کم از کم تین سو سال پہلے جب سابق ریاست بہاولپور کے علاقہ جات ملتان کا حصہ تھے اور ریاست بہاولپور جب دسمبر 1954ء تک پاکستان میں ضم ہونے سے پہلے تک ریاست تھی نہ کہ صوبہ ۔بحالی کا لفظ آئینی طور پر ریاست کے زمرے میں تو آ سکتا ہے ، صوبے کے طور پر نہیں ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر