اکتوبر 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تبدیلی کا نوحہ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

‏خارجہ پالیسی کو اگر دیکھیں تو پچھلے سال بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا لیا

‏تبدیلی کے نام پر آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً دو سال ہونے والے ہیں۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لئے دو سال کا عرصہ کافی سمجھا جاتا ہے۔ دو سال کے عرصے میں اگر چیزوں کو مکمل طور پر ٹھیک نہ بھی کیا جا سکے تو معاملات کو درست سمت دینے کے لئے اتنا وقت کافی ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی دو سالہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس میں ذرا سی بھی بہتری نظر آئی ہو بلکہ معاملات پہلے سے بھی خراب تر ہو چکے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں معاملات مزید ابتری کی طرف گامزن ہیں اور یہ خطرہ پیدا ہوچکا ہے کہ نالائق اور نااہل حکومت معاملات کو ایسی نہج پر نہ لے جائے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۔

‏اگر موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی، خارجہ پالیسی، گورننس، قانون سازی، کرپشن پر کںٹرول، مہنگائی پر کنٹرول، پولیس ریفارمز یا کسی بھی شعبہ یا معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو ناکامیوں کی ایک مکمل داستان نظر آتی ہے۔

‏حال ہی میں اگلے مالی سال کے لئے بجٹ کی منظوری دی گئی ہے، بجٹ کی تفصیل میں جائے بغیر صرف فنانس بل میں فراہم کئے گئے معاشی اعشاریوں کو ہی اگر دیکھ لیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملات کتنے گھمبیر ہو چکے ہیں۔ مشیر خزانہ کی طرف سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار کو اگر بنیاد بنایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دور حکومت میں نامساعد حالات کے باوجود ملکی معیشت روبہ زوال نہیں تھی بلکہ موجودہ صورتحال سے کہیں بہتر حالات تھے۔ پیپلز پارٹی نے 2008 میں جب حکومت سنبھالی تو گروتھ ریٹ ایک فیصد سے بھی کم تھا جس کو پیپلز پارٹی کی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ، دو بڑے سیلاب، سوات آپریشن کے مہاجرین کی بحالی، مخالف عدلیہ اور مخالف اسٹیبلشمنٹ کے باوجود پانچ سالوں بعد جب حکومت ختم ہوئی تو 4.4 فیصد تک بڑھا چکی تھی جسے بعد میں ن لیگ کی حکومت نے اگلے پانچ سالوں میں مزید اوپر لے جاتے ہوئے 5.8 فیصد تک پہنچا دیا۔ یہاں سے آگے تحریک انصاف کی حکومت شروع ہوتی ہے اور تباہی کی داستان بھی۔ پچھلے سال جون میں اپنے دور حکومت کے پہلے سال کے اختتام پر ہی تحریک انصاف کی حکومت معیشت کو نوز ڈائیو لگوا چکی تھی جب پہلے سال ہی گروتھ ریٹ 5.8 فیصد سے گرتے ہوئے 1.9 فیصد پر آ گیا جبکہ دوسرے سال کے اختتام پر یعنی اس سال جون میں گروتھ ریٹ منفی 0.4 فیصد ہو چکا ہے۔ قرضوں کی صورتحال دیکھیں تو صرف دو سال کے عرصے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار سے زیادہ قرضہ لیا جا چکا ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ ڈالر 170 کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ صنعت کا پہیہ رک چکا ہے۔ حکومت کے اپنے چہیتے وزیر شیخ رشید کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ کرونا ہماری حکومت کے لئے نعمت ثابت ہوا ہے جسکی وجہ سے قرضوں کی قسطیں نہیں دینا پڑیں گی ورنہ تو ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار تھے۔

‏خارجہ پالیسی کو اگر دیکھیں تو پچھلے سال بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا لیا اور ہم اس پر چوں بھی نہ کر سکے اور نہ ہی ہم دنیا کو اپنا نقطہ نظر سمجھا سکے۔ ہاں زبانی جمع خرچ کے طور پر اقوام متحدہ کے اجلاس میں کی گئی ایک تقریر کی خوب داد وصول کی گئی جبکہ سوائے ترکی اور ملائشیا کے کسی ایک اسلامی ملک کی بھی حمایت حاصل نہ کی جا سکی۔

‏گورننس کے معاملات کو اگر دیکھیں تو بیوروکریسی مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے۔ جس طرح افسران کو نیب کے ذریعے ہراساں کیا گیا ہے اس سے بیوروکریسی کوبہت غلط میسج گیا ہے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ وزیراعظم کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا، بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کو جس طرح سے بدکا دیا گیا ہے اب اس کا خمیازہ بھی حکومت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پولیس ریفارمز بھی تحریک انصاف کا وعدہ تھا جس پر پہلے دن ہی یو ٹرن لے لیا گیا۔

‏کرپشن کنٹرول کرنے اور کرپشن فری حکومت کے دعویدار حکمرانوں کے میگا کرپشن سکینڈلز مختلف عدالتوں میں سٹے آرڈرز کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ان میگا کرپشن سکینڈلز میں پشاور میٹرو کیس، مالم جبہ ریزارٹ کیس، فارن فنڈنگ کیس، ادویات سکینڈل، شوگر آٹا سکینڈل، آئی پی پیز اور حالیہ پٹرول سکینڈل عمران خان کی صداقت اور امانت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ ایک سکینڈل کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوتی کہ ایک اور نیا کرپشن سکینڈل سامنے آ جاتا ہے۔

‏موجودہ دور حکومت میں آڈیٹر جنرل کی پہلی آڈٹ رپورٹ کے مطابق پچھلے دو سال میں چالیس وزارتوں اور ڈویژنوں میں 270 ارب روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے، یاد رہے ان میں سے بیشتر وزارتوں کا قلمدان ڈائریکٹ وزیراعظم کے پاس ہے، ہر خرابی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹھہرانے والے عمران خان کے لئے یہ رپورٹ یقیناً لمحہ فکریہ ہونی چائیے۔

‏تحریک انصاف اپنے دور حکومت کے پہلے دو سالوں میں ہی اپنے انتخابی وعدوں کو یا تو مکمل پس پشت ڈال چکی ہے یا ان کی تکمیل میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر صرف انتخابی تقریروں تک ہی محدود رہے۔

‏پہلے دو سالوں کی مسلسل ناکامیوں کے باعث حکومتی ممبران اور اتحادیوں میں بھی بے چینی کے اثرات واضع نظر آنے لگے ہیں اور یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ موجودہ حکمران ملک چلانے کی نہ تو اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کو درپیش مسائل کا صحیح ادراک ہے اس لئے اس حکومت کا مزید ساتھ دینا نہ صرف ملک کے لئے بہتر نہیں ہو گا بلکہ آئندہ کے لئے ان کا عوام میں جانا بھی مشکل ہو جائے گا۔

About The Author