چین چاہے جتنا زور لگا لے فیشن اور ٹرینڈز کلچر کی ابتداء اب بھی امریکا سے ہی ہوتی ہے۔ ہانگ گانگ میں کئی ہفتے مظاہرے ہوتے رہے، خبر تو بنی مگر دنیا کا ٹرینڈ نہیں۔
مگر جب امریکا کے گلی محلے جلے تو شعلے لندن تک پہنچے اور تپش یہاں پاکستان، بھارت تک محسوس کی گئی۔ دیسی لوگ بھی سیاہ فاموں کا غم محسوس کر رہے ہیں۔ آپ اسے حق کا ساتھ دینا بھی کہہ سکتے ہیں اور فیشن بھی۔
ہم منافق آج بات کریں گے ‘ بلیک لائیوز میٹر‘ پر۔ چونکہ ہمارے یہاں تو ہر طرح کا تعصب ختم ہو چکا ہے، نہ گورے کو کالے پر سبقت ہے اور نہ ہی مزارعے اپنے زمیندار کے بلا معاوضہ غلام ہیں۔ ہماری لڑکیوں پر گورا ہونے کا معاشرتی دباؤ نہیں، سب کو گہرے سانولے رنگ پر فخر ہے۔ اس لیے آئیں جارج فلوئیڈ سمیت ہر سیاہ فام کے حق میں آواز بلند کریں۔
ہم صوبوں، زبانوں، ذاتوں اور خاندانوں کے نام پر بٹے لوگ کس سہل انداز میں اپنے بیچ پڑی دراڑیں لیپا پوتی سے چھپا لیتے ہیں۔ اس لیے یہ سفید جھوٹ کہتے ہمیں کوئی شرمندگی نہیں کہ سید، غیر سید، مخدوم، راجپوت، آرائیں، صدیقی، زیدی، بگٹی، اورکزئی اور ان جیسے ہزارہا نسلی نام صرف ہماری پہچان ہیں۔ صد شکر خدا کہ نسلی امتیاز کا گھٹن زدہ ماحول ہمارے لوگوں میں نہیں۔ اس لیے آئیں امریکا میں نسلی امتیاز کی لعنت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
ہم ریا کاروں کے دیس میں ہر جانب سلامتی کی دعائیں ہیں، ہر طبقہ مساوات کے رنگ برنگے نکتی دانوں سے منہ میٹھا کر رہا ہے۔ کراچی کے کسی اپارٹمنٹ کی انتظامیہ یہ نہیں کہتی کہ یہاں فلاں کمیونٹی کے علاوہ کوئی گھر نہیں لے سکتا۔ بھارت میں مسلمان محفوظ ہیں، دلت محفوظ ہیں بلکہ یوں کہیے کہ چوڑے چمار نام کا طبقہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا تو پھر ‘چمار لائیوز میٹر‘ یا پھر ‘ مسلم لائیوز میٹر‘ کے بیہودہ نعرے بھلا کیوں لگائیں؟ آئیں نعرہ لگاتے ہیں ‘بلیک لائیوز میٹر‘
ہم ہر طرح کی نسلی، فرقہ وارانہ، لسانی اور صوبائی تعصبات سے پاک صاف لوگ ہیں۔ الطاف حسین حالی کی مسدس کی صورت ہم باہم شیر و شکر ۔ شیعہ سنی بھائی بھائی، مہاجر سندھی بھائی بھائی، پشتون پنجابی بھائی بھائی۔ اسی لیے آئیں ہم سے ہزاروں میل دور مینیاپولِس میں گورے پولیسے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے کالے جارج فلوئیڈ کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔
ابھی دو دن پہلے انگلینڈ کے شہر برسٹل میں ایک سیاہ فام افریقی اداکار الفریڈ فیگون کے سیاہ مجسمے پر بلیچ پھینکا گیا۔ بلیچ کی تیزی نے دھات کے سیاہ مجسمے کو سفید کر دیا اور خبر بن گئی۔ ان بے خبروں کو کوئی بتائے ایشیائی لڑکے لڑکیاں اپنے گندمی اور سانولے رنگوں کو سفید کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے چہروں پر بلیچ استعمال کر رہے ہیں لیکن اس کا ذکر بھی جانیں دیں۔ آئیں ہم اس سیاہ فام کے دھاتی مجسمے کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔
یہ فئیرنس کریم کیا ہوتی ہے ہم بھلا کیا جانیں ؟ بیوٹی پارلرز کے مینیو کارڈ پر ‘ وائٹننگ فیشل‘ جیسا کچھ نہیں لکھا ہوتا۔ نہ مارکیٹنگ کے سائنسدان بھارت میں آیوروید کی شکتی کا جھانسہ دیتے ہیں نہ ہی پاکستانی بیوٹی انڈسٹری میں بکری اور بھیڑ کے دودھ سے سر سے پاوں تک رنگ گورا کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ ہم اپنےگہرے پکے سانولے بلکہ سیاہی مائل سانولے رنگ میں ہی خوش ہیں بھائی۔ آئیں ان بیچارے سیاہ فاموں کے حق میں گلے خشک کرتے ہیں۔
‘بلیک لائیوز میٹر‘ کا نعرہ جتنا کسی کالے کے لیے ضروری ہے، اتنا ہی سفید نسل کے لیے بھی۔ نسلی تعصب کے خلاف لندن، سڈنی، پیرس اور امریکا ہر دوسرے شہر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں شامل افراد کی رنگت دیکھیں، آپ کو سرخ فام میکسیکن ، سفید فام امریکی، گندمی رنگ دیسی اور زردی مائل چھوٹی آنکھوں والے ایشین سب نظر آئیں گے۔
پیارے ہم وطنو! اب ذرا اک نظر اپنے گھر کے اندر بھی۔ یہاں اگر حسیبہ قمبرانی اپنے بھائی کی لاش وصول کر کے اپنے گھر کے دیگر لاپتہ افراد کی زندگی کی بھیک مانگتی ہے تو’بلوچ لائیوز میٹر‘ کا نعرہ نہیں لگا۔ کراچی میں لاپتہ شیعہ افراد کے حق میں ان کے اپنے لواحقین کے علاوہ کون تھا، جو پریس کلب کے باہر ان کا ساتھ دیتا، جو دیوبندی اٹھائے گئے ان کا کیا بنا؟ بتائیں نسلی اور لسانی تعصب سے پرے کون سڑکوں پر انصاف کی خاطر رُلے گا ؟ جواب سب کو پتا ہے۔
ان دوہرے معیار کے ماروں سے پوچھو، کشمیر تو تم سے کچھ دور بھی نہیں تھا۔ پھر کیوں نہیں ‘ کشمیری لائیوز میٹر‘ کا نعرہ لگ سکا؟ تم سے ایک تحریک تک نہ چلائی گئی۔ چین میں ایغور مسلمانوں پر زندگی کتنی تنگ ہے۔ بتاو کب تم نے ‘ ایغور لائیوز میٹر‘ کا نعرہ لگایا؟ بولو تو سہی کہ آج بھی بھارت اور پاکستان میں لڑکیاں اپنے حق اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہیں پھر کیوں کوئی انقلاب نہ آ سکا کہ ‘عورت لائیوز میٹر‘ ؟
تو بات دراصل وہی ہے، جو اس تحریر کا آغاز ہے۔ یعنی ہمارے انقلاب بھی مستعار ہیں، ہماری تحریکیں بھی کرایے کی ہیں۔ ہمارے نعرے بھی نقل شدہ ہیں اور ہمارے مطالبے بھی دیکھا دیکھی کے۔ ہمارے مظاہرین بھی متعصب ہیں اور تماش بین بھی۔ ہمارے ٹرینڈز بھی اتنے ہی کھوکھلے ہیں، جتنا کہ کسی سماجی تبدیلی کے لیے ہماری سوچ۔
جب تک ہم کوئی ایسا معاشرہ نہیں بن جاتے، جہاں اپنے حق کے لیے تحریک چلانے کو ہم خود ہی کافی ہوں، جب تک ہماری تحریکیں مقامی نہیں بلکہ عالمی ایجنڈوں پر اک شور کی صورت اٹھیں گی اور جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گی، تب تک آئیں ہم امریکی پولیس کے ٹُھڈ کھاتے سیاہ فاموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔
بلیک لائیوز میٹر
بلیک لائیوز میٹر
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ