عشق کرنے والے اس کی غم ناکی میں بھی فرحت محسوس کرتے ہیں –
اس مقام تک کم ظرف و کج رو کی رسائی کہاں۔ یہ تو وہ اعلیٰ مرتبہ ہے جو منتخب لوگوں (عاشقوں اور فقیروں) کو ملتا ہے۔
وہی تو خود کو عشق میں گم کر دیتے ہیں – عاشق کے لئے اس کے باطن میں کئی دروازے کھلتے ہیں۔ صدق و یقین اور قربانی کے لئے ہمہ وقت تیار لوگ ہی اللہ کو پسند ہیں۔
کامل مرشد کا ہونا ضروری ہے ۔ صرف فقیروں کے پیچھے پھرتے رہنا کامیابی کی ضمانت نہیں –
ہجر کے پرندے اڑنے کا فیصلہ کر لیں تو کون روک سکتا ہے۔ ہم تو عشق کے میدان جنگ میں اتر چکے۔ میدان سے بھاگنا۔سورماوں کی عزت کو مٹی میں رول دیتا ہے۔
اندر کے ناسور کا علاج ڈھونڈتا پھرتا ہے یہ سوچ کہ ناسور ہوا تھا کیوں۔ مرشد کو بھول جانے والے اپنی یادوں کا میلہ سلامت رکھنے کے خواہش مند ہیں –
بھید کے تالے کی چابی عاشقوں کو ملتی ہے ۔ ہر ہوا خور عشق کے راستے پر کب چل پاتا ہے۔ وارث شاہ عشق نہ ہو تو ریاضت رائیگاں جاتی ہے اور نہ برداشت کیے ہوئے دکھ اور نہ ہی مشکل میں گزری ہوئی راتیں بے ثمر تھہرتی ہیں۔ تمہاری کل جائیداد تو قبر جتنی زمین ہے بُھنے دانے بیجو گے تو فصل کیسے اُگے گی۔
لوگ نہ جانے محل ماڑیاں کیوں بناتے ہیں۔ بڑی بڑی چاردیواریاں کھڑی کرنے والوں سے پوچھو گونگا حافظ قرآن بن سکتا ہے اور اندھا جگنو کو دیکھ سکتا ہے۔
وارث شاہ اس کے سوا کون بے جو بےکسوں اور کمزوروں کی خبرگیری کرتا ہے۔ جن کے دل میں ہمیشہ کھوٹ رہتا ہے وہ کبھی سچ کی راہ پر قدم نہیں رکھتے ہیر کے جادو نے وارث شاہ کو مور کی طرح نچا کر رکھ دیا عقل و ہوش باقی نہیں رہی۔
پنجاب کے لافانی شاعر سید وارث شاہ کی تاریخ پیدائش بارے فقط اندازے ہی ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے شاہکار “ہیر وارث شاہ” کو ۱۱۸۰ ہجری میں مکمل کیا – محققین نے اسی سے اندازہ لگایا کہ وہ ۱۱۳۵ سے ۱۱۴۰ کے درمیان اسی بستی میں پیدا ہوئے جو جنڈیالہ شیر خان کے نام سے معروف ہے۔
جنڈیالہ شیرخان (ضلع شیخوپورہ) میں سید قطب شاہ کے ہاں جنم لینے والے وارث شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ان کے والد سید قطب شاہ صاحب صاحب نظر عالم تھے۔ بعدازاں وہ مزید تعلیم کے لیے قصور میں مولوی غلام مرتضی کے مدرسے میں داخل ہوئے ۔ اس مدرسہ میں وارث شاہ سے لگ بھگ نصف صدی قبل حضرت سید بلھے شاہ رح بھی زیر تعلیم رہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ مولوی غلام مرتضیٰ کو زمانہ طالب علمی میں اپنے روشن فکر شاگرد بابا بلھے شاہ سے بہت زیادہ انس رہا لیکن بعد ازاں انہوں نے نہ صرف اس پر ملال کیا بلکہ بھلے شاہ کی وفات پر انہوں نے بھی دوسرے ملاوں کی طرح انکی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں بلھے شاہ کی وفات کے تیسرے دن بستی چراغ شاہ قصور کے درویش کامل حضرت سید زاہد حسین شاہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔
جناب اکرم شیخ اور دوسرے محققین میں اس امر پر اتفاق ہے کہ چونکہ مولوی غلام مرتضیٰ کا مدرسہ قصور کے پٹھان حکمران خاندانوں کی اعانت سے قائم تھا اور بلھے شاہ ر ح
نا صرف مقامی پٹھان حکمرانوں کے مخالف تھے بلکہ ان حکمرانوں کے سرپرست مغل دربار کے ایک بڑے ناقد اس لیے انہوں نے مدرسے کے لیے چندہ دینے والوں کی ناراضگی مول لینے کے بجائے اپنے شاگر د اور اس کی فکر سے براءت کا اعلان کر دیا۔
سید بلھے شاہ اور سید وارث شاہ نصف صدی کے وقفے سے ایک مکتب اور استاد کے شاگرد ہوئے۔ اس لیے اس تاریخی حوالے کو تحریر کرنے کی ضرورت آن پڑی۔ ورنہ تصوف و حکمت کے طلبہ و متاثرین اس امر سے آگاہ ہیں کہ
بلھے شاہ۔۔ منصور (حسین بن منصور حلاج) کے وارث اور ملامتی صوفیاء کے سرخیل تھے۔
جبکہ وارث شاہ باکمال شاعر اور عالم
مولوی غلام مرتضیٰ کے مکتب سے تعلیم مکمل کر چکنے پر وارث شاہ ملکہ ہانس نامی قصبہ کی مسجد میں پیش امام بن گئے۔
یہیں انہوں نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ہیر
(“ہیر وارث شاہ “)مکمل کی۔
ایک روایت کے مطابق انہوں نے اپنی تخلیق سب سے پہلے مولوی غلام مرتضیٰ کو پیش کی جسے انہوں نے پسند کیا۔ ملکہ بانس کی خاتون بھاگ بھری سے ان کے عشق کی داستان کو صدیوں سے پر لگے ہوئے ہیں ہیں لیکن سنجیدہ محققین کو عشق وارث شاہ کے اس قصے کو درست تسلیم کرنے میں ہمیشہ تامل ہی رہا اس کی بنیادی وجہ بڑی صاف ہے وہ یہ کے سید وارث شاہ ایک پابند شریعت عالم اور پیش نماز تھے۔
اپنے استاد کے ہاں ان کے لیے پسندیدگی کی اصل وجہ بھی یہی رہی ۔
ہمیں معروف محقق اور بلھے شاہ کے فکری رجحانات پر ” کافر کافر آکھدے” نامی کتاب کے مصنف اکرم شیخ کی اس تحقیق سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ “بلھے شاہ” حسین بن منصور حلاج کے قتل کا قصاص مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ وارث شاہ تعلیم مکمل کر چکنے پر سب سے پہلے حضرت بابا فرید گنج شکر کی خانقاہ پر حاضری دے کر اُنہیں اپنا مرشد تسیم کرتے ہیں۔
بابا فرید وحدت الوجود کے پرچارک تو تھے لیکن ملامتی صوفیاء سے اُنکا کوئی تعلق نہیں تھا۔
یقیناً اس صورت میں وارث شاہ نے ارادت کے لیے جس در کا انتخاب کیا عمر بھر تقلید کو بھی لازم سمجھا۔
یہی وہ قابل غور نکتہ ہے جو یہ سمجھاتا ہے کہ وارث شاہ کی شاعری کی ہیر اور رانجھا بھاگ بھری اور وارث شاہ نہیں بلکہ وارث شاہ اور “وہ” ذات ہے جسے ہر کوئی اپنا رانجھا سمجھتا ہے لیکن اسکے لیے قربان ہونے کو تیار نہیں۔
وارث شاہ کی ہاں ایک اور بات بڑی نمایاں ہے اور وہ ہے اپنے نسب کا فخریہ یعنی شاہ زندگی بھر سید ہونے کے احساس سے سرشار رہے۔
جبکہ اس کے برعکس بلھے شاہ ذات پات کے تو سرے سے قائل ہی نہیں بلکہ وہ تو انسانی سماج کے اس عہد میں ( اپنے عہد) میں پائی جانے والی ہمہ قسم کی چھوت چھات، نسبوں، طبقوں
اور گھمنڈ کے شدید مخالف ہیں –
اپنی اس انسان دوست فکر کے موجب ہی بلھے شاہ یہ کہتے دکھائی دیتےہیں
“جو کوئی ہمیں سید کہے اسے دوزخ کی سزا ملے گی ”
اس طور ہمیں وارث شاہ کو ان کی اپنی فکر اور شاعری کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا
ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے وارث شاہ جس طورخود اپنے نسب کے فخر کو درست سمجھتے تھے اسی طرح وہ اپنی دینی تعلیم کی بدولت پیش نماز مقرر ہونا بھی
آسان انداز میں یہ کہ وارث شاہ تین باتوں کے سبب اپنے استاد کے محبوب شاگرد ٹھہرے۔
(اس دور میں اس کا معیار مسجد کا پیش نماز اور خطیب ہونا ہی تھا)
اور ثالثاً باکمال شاعری۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی شاعری میں موجود فکر کو سمجھنے میں صدیوں کے ساتھ اِس میں جنم لینے والے صاحبان کمال نے بھی غلطی کی ۔
یہی غلطی برصغیر پاک و ہند کی بلند پایہ شاعر ادیب افسانہ نگار اور عاشق کلام وارث شاہ امرتا پریتم سے بھی ہوئی –
اسی موجب انہوں نے بٹوارے کے ہولناک عذابوں کے درد سے بھری وہ شاہکار نظم “اج آکھاں وارث شاہ نوں” کہی۔
حضرت وارث شاہ کی ذات شاعری فکر اور سلسلہ طریقت کے حوالے سے موجود چند فکری مغالطوں پر بالائی سطور میں پیش کی گئی معروضات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک صاحب فکر صوفی نہیں تھے
ان کی فکر بڑی روشن اور مسافت واضح ہے۔
شاہ ایک بلند پایہ شاعر خطیب عالم اور صوفی تھے البتہ وہ ملامتی صوفی ہرگز نہیں ہیں –
ان کی فکر اور شاعری آج کی طرح کل بھی “اس” سے ملاقات کے خواہشمندوں کو راہ دکھاتی رہے گی
سید وارث شاہ گیلانی سید تھے غالبا اسی سبب وہ اپنے جد امجد حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی کا ذکر ہمیشہ .دلنشیں انداز میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وارث شاہ بھید کے تالے کی چابی تلاش کرنے کو اس کے کام میں مداخلت سمجھتے اور کہیں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں
” سب کے جاگنے کی باتیں سفید جھوٹ ہے
جاگتا تو فقط پروردگار ہے”۔بے شرم سر چڑھ کر بولتا ہے۔ عزت دار غیرت سے زمین میں دھنس جاتے ہیں۔ منصور نے عشق کا بھید ظاہر کیا تھا تو اس کو سولی چڑھا دیا گیا – ملک عشق کی رسم تو خاموشی ہے۔
جو بولے گا وہ قتل ہوگا – “شرابی اور بھید کھولنے والے کے ایمان پر سوال کیسے”۔ “بد شرست انسان کی نیک صحبت میں بھی فطرت تبدیل نہیں ہوتی”۔ ” ہم دل سے برائی مٹا چکے ہیں اب دوبارہ “سینے اودھیڑنے” کا کام نہیں کریں گے” “شام صبح کی نماز قضا ہونے پر شیطان خوشی سے رقص کرتا ہے تو شیطان کو موقع دیے بغیر رحمن کو راضی
کرلے”۔
“عورتیں تو خدا کی رحمت کی کان ہیں”۔ “آباد گھر عورتوں سے ہی اچھے لگتے ہیں”۔
“ہے علم تو اس اندھے باز کی طرح ہے جسے تیتر پکڑنے کے لیے اڑایا جاتا ہے”۔
” ہیر کو روح٫ چاک کو جسم٫ پانچوں۔۔۔۔ تمہارے پانچوں حواس قاضی حق کی ملامت اور ۔۔۔۔ تمہارے اعمال۔۔۔۔۔ تمہارے کاندھوں پر سوار منکر نکیر۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر