"ماؤں ” کا عالمی دن ۔۔۔۔۔۔۔ ماں اور سرمائے کی آخری کشمکش ! سرمائے کی جیت مامتا کی توہین۔۔۔۔ اب کون نا ہنجار ھے جو ماں اور مامتا کی توہین برداشت کر سکتا ھے۔؟
آج ماں یا ماؤں کا عالمی دن ھے۔ اس نظام میں اب تک جتنے بھی دن عالمی سطح پہ مسلمہ و معتبر ہیں۔ آج کا دن ان سے معتبر و افضل ھے ۔۔۔۔۔۔ کسی بھی دن کو محض رسماً منانا یا رسم بنا دینا اس دن کی اہمیت و افادیت کو بالکل ہی ختم کردیتا ھے۔ ھم جس طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں یا جس نظامِ زر میں سانسیں گن گن کے وقت پورا کر رہے ہیں اس میں تو یہ بات اور زیادہ صادق آتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔
عظیم مفکر، نظریہ دان ، فلسفی اور انقلابی کارل مارکس نے کہا تھا کہ ” سرمایہ نسلِ انسانی کی نَس نَس کو نچوڑ کے پروان چڑھتا ھے مگر المیہ ھے کہ یہ انسانوں کے درمیان اپنے سوا اور کوئی رشتہ باقی رہنے ہی نہیں دیتا "۔ نظامِ سرمایہ میں ہر چیز بکنے کیلئے بنائی جاتی ھے یا ہوتی ھے۔ اس لئے اس نظام میں ہر رشتہ ، ہر احساس، ہر جذبہ، ہر رسم ، ہر سوچ اور ہر فکر بکاؤ ہوتی ھے۔ اور اس کی قیمت لگتی ھے۔۔۔۔۔ مگر سماج کے طبقات میں تقسیم ہو کر آج تک کی اس تقسیم کی شدت میں صرف ایک بے لوث رشتہ باقی رہ گیا ھے اور وہ ھے ماں اور اس کی مامتا کا رشتہ ۔۔۔۔۔۔۔
سرمایہ داری بڑی ظالم اور بڑی بے رحم ہے۔ یہ بڑی شدت اور تیزی سے ماں کی مامتا سے بر سرِ پیکار ھے۔ یہ پیسے اور زر کی ناداری سے مجبور ایک ماں کو اپنے بچوں کی بالکل معمولی سی معمولی بنیادی خواہشوں، حسرتوں اور ضروریاتِ زندگی کو پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے اس ماں کے ہاتھوں اپنے بچے نہر میں پھینکوانے، بچوں کی گردن اپنی ماں کے ہاتھوں سے دبوچنے اور ایک ماں کو اپنے ہی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے زہر پلوانے تک لے آئی ھے۔۔۔۔
مگر دوسری طرف ایک ماں اور اس کی مامتا ھے کہ جس نے سرمایہ داری کی خباثت اور ذلت کے ہاتھوں شکست تسلیم نہیں کی ھے۔ کیونکہ جب وہ اپنے بچوں کو نہر میں پھینکتی ہے، ان کا گلہ دباتی ھے اور ان کو زہر دیتی ھے تو سب سے پہلے اپنے ان بچوں کو نہلاتی ھے، ان کے کپڑے بدلتی ھے ان کے بال سنوارتی ھے ، ان کی مانگ نکالتی ھے۔ ان کو چومتی ھے، بار بار گلے لگاتی ھے۔ روتی ھے ، اشک بہاتی ھے اور پھر ان کو نہر میں پھیکنے کے بعد خود بھی ساتھ چھلانگ لگا دیتی ھے۔ ان کو زہر دینے کے بعد خود بھی زہریلی گولیاں پھانک لیتی ھے اور ان کی گردنیں دبوچنے کے بعد خود بھی چھت کے کسی پنکھے سے جھول جاتی ھے۔۔۔ اس طبقاتی نظامِ سرمایہ کے ہاتھوں مجبور ماں نے اس نظام میں رہتے ہوئے اپنی اولاد اور انسانیت سے سرخرو ہونے کا شاید آخری طریقہ اور وسیلہ اپنی جان قربان کر دینے میں ہی سمجھ رکھا ھے جو آخری تجزئیے میں ماں اور مامتا کی توہین کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔
آئیے اس دن کی مناسبت سے اس طبقاتی نظامِ سرمایہ کی شدت و خباثت کے ہاتھوں اب تک مجور ہو کے اپنے جان پر کھیل جانے والی سبھی ماؤں کا بدلہ لینے کیلئے ان ماؤں کو خراج پیش کرتے ہوئے زندہ بچ جانے والی اور آنے والی ماؤں کی مامتا کے تقدس اور تحفظ کا حلف لیتے ہوئے عہد کریں کہ ھم اس طبقاتی نظامِ سرمایہ کو اس کی جڑوں سمیت اکھیڑ کر ختم و برباد کریں گے۔ اور ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں لا کر اپنی ماؤں کے سر فخر سے بلند کرتے ہوئے ، فتحیابی سے ان کے چہروں پہ روشنی اور ان کے لبوں پہ خوشی کے قہقہے بکھیر دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر