نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زبانوں کو دو دھاری تلوار بنائے لوگ۔۔۔ حیدر جاوید سید

اس سوال کا دوٹوک جواب ہے ”جی بالکل نہیں“۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا صارفین سے لوٹی گئی اس رقم کی واپسی ممکن ہوگی؟ جواب پھر نفی میں ہے۔

ابتلا کے ان دنوں میں تواتر کیساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ جن کی زبانوں کو دہن کے اندر آرام فرمانا چاہیے وہ زبان کو تلوار بنائے مخالفین پر حملہ آور ہیں۔
اس غیرسنجیدگی کے اثرات معاشرے میں صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
بے حساب لوگ اب بھی دو باتوں پر بضد ہیں۔
اولاً یہ کہ پانچ وقت کا وضو کورونا سے محفوظ رکھنے کا حتمی علاج ہے۔
ثانیاً جونہی گرمی بڑھی کرونا مر جائے گا۔
میڈیکل سائنس ہر دو باتوں کی تصدیق نہیں کرتی۔
بطور مسلمان ہم آقائے صادقؐ کی اس حدیث کو جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں
”صفائی نصف ایمان ہے“ لیکن اس نصف ایمان کے منفرد مظاہرے ہماری گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر بکھرے پڑے ہیں اور یہ صرف لاک ڈاؤن کے دوران کی صورتحال نہیں اس سے قبل اور قبل از بھی یہی حالات تھے۔
ہم بچپن سے سنتے پڑھتے آرہے ہیں کہ سرکار دوعالمؐ نے ارشاد فرمایا
”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نا جانا پڑے“ ایک اور ارشاد گرامی ہے کہ ”علم حاصل کرنا ہر مرد وزن پر واجب ہے“
پچھلے بہتر سالوں کے وفاقی بجٹ اُٹھا کر دیکھ لیجئے، 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے اس لئے ایک دہائی کے صوبائی بجٹس بھی اور غور کیجئے کہ تعلیم کیلئے کتنا بجٹ رکھا جاتا ہے سالانہ؟
مشکل سے دو اڑھائی فیصد، حصول علم کے واجب والے ارشاد گرامی قدر کی ایک تفسیر یہ کر لی گئی کہ اس کا مطلب دین کی تعلیم ہے۔
خدا بھلا کرے اس تفسیر کے حاملین کا معاذاللہ یہ زیادہ سیانے دانا وبینا ہیں۔
حضور! علم علم ہوتا ہے اور تعلیم تو ہمیں فقط درِعلم تک پہنچاتی ہے، تب ہم اپنے لئے علمی شعبہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ چلیں خیر پھر کسی وقت اس موضوع پر تفصیل کیساتھ بات کریں گے،
فی الوقت تو یہ ہے کہ جن کی زبانوں کو دہن کے اندر آرام کرنا چاہئے تھا وہ زبان کو تلوار بنائے گھاؤ پر گھاؤ لگا رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے مروجہ رویوں کا رزق بھی دشنام طرازی ہی ہے۔ اس دشنام طرازی کے بہت سارے ادوار دیکھ بھگت کر یہاں تک آن پہنچے ہیں، فرق یہ ہے کہ پہلے یہ خال خال ہوتی تھی اب باقاعدہ ٹرینڈز بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔

ناگوار نہ گزرے تو عرض کروں ہم سکہ بندپاکستانی مسلمانوں نے ہر جدید ایجاد سے منفی کام لیا اور منفی رویوں کا تازہ ہتھیار سوشل میڈیا ہے یا پھر سیاپا فروشی کے پیک آور۔
دکھ، مسائل اور وبا کے ان دنوں میں جس اتحاد واتفاق کی ضرورت تھی وہ دوردور تک دکھائی نہیں دیتا اس پر ستم یہ ہے کہ ریاست خود منفی رویوں کی حوصلہ افزائی کی مرتکب ہوئی۔
پچھلے دنوں چینی اور گندم سکینڈل کی رپورٹ آئی تھی، اب بجلی بنانے والے اداروں (نجی اداروں) کی لوٹ مار کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ آئی پی پیز (بجلی بنانے والے ادارے) نے 50ارب روپے لگا کر 415ارب روپے کما لئے، مجموعی طور پر 4802ارب روپے لوٹے گئے۔ صارفین کی جیبوں پر ڈاکے پڑے۔
کیا یہ لوٹ مار حکومتی اداروں کی سہولت کاری کے بغیر ممکن تھی؟
اس سوال کا دوٹوک جواب ہے ”جی بالکل نہیں“۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا صارفین سے لوٹی گئی اس رقم کی واپسی ممکن ہوگی؟ جواب پھر نفی میں ہے۔
وزیراعظم کمیشن بنا رہے ہیں، اس کمیشن نے 90دن میں حتمی رپورٹ دینی ہے، یقین کیجئے یہ 90دن جنرل ضیاء الحق والے 90دن ثابت ہوں گے جو گیارہ سال سے کچھ اوپر چلے تھے۔
وجہ یہی ہے کہ کیا سابق وحاضر حکومتی ادارے اور اہلکار ٹھوس بنیادوں پر تحقیقات ہونے دیں گے؟
مشکل بہت ہے، کیوں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ پچھلے برس ادویات کی قیمتوں میں 15سے 19فیصد والے اضافے کے معاملے سے آگاہ ہیں۔ حکومتی اجازت کا فائدہ اُٹھا کر 15سے 19فیصد کی بجائے ادویہ ساز اداروں نے 200فیصد تک ادویات کی قیمتیں بڑھا لیں۔
وزیراعظم نے نوٹس لیا، اس وقت کے وزیرصحت کو منصب سے ہٹا دیا گیا، ہم سب نے انصاف پروری پر خوب تالیاں بجائیں لیکن کیا وزیراعظم کے تینوں وعدے پورے ہوئے؟
اولاً قیمتوں کو حکومتی اجازت کے مطابق 15سے 19فیصد اضافے کی سطح پر واپس لانا، ثانیاً زائد وصول کی گئی رقم صارفین کو واپس دلانا، ثالثاً ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرنا۔
معاف کیجئے گا تینوں کام نہیں ہوئے بلکہ وزارت سے رخصت کئے گئے صاحب کو حکمران جماعت میں اہم منصب عطا کر دیا گیا۔ کسی دن آپ تین بڑے کاروباروں ادویات سازی، شوگر ملوں اور آئی پی پیز کے مالکان بارے غور کیجئے گا، تینوں کاروبار کرنے والوں کے بڑے بڑے نام آپ کو ہمیشہ اپنے وقت کی حکمران جماعت میں دکھائی دیں گے، کچھ لوگ جو اپوزیشن کی جماعتوں میں ہوتے ہیں ان کا معاملہ بھی خواجہ آصف اور فاروق ایچ نائیک کی رشتہ داری جیسا ہوتا ہے۔
یا پھرجیسے پیر پگاڑا، مخدوم احمد محمود، یوسف رضا گیلانی اور جہانگیر ترین اور خانیوال کے کھگے آپس میں رشتہ دار ہیں۔
یہ دو مثالیں عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کاروباری خاندانوں کی باہم رشتہ داریاں بھی ہیں اور مشترکہ مفادات بھی۔
اچھا چلیں اس سوال پر غور کیجئے یہ نیب والوں نے کل اعلان کیا کہ چینی گندم سکینڈل پر قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ یہ ادارہ سال بھر سے ادویہ ساز کمپنیوں کی ثابت شدہ لوٹ مار پر کیوں خاموش ہے؟
جواب مل جائے تو مجھے بھی آگاہ کیجئے گا۔
اب چلتے چلتے رفعت اللہ یوسفزئی کے ای میل مکتوب پر بات کر لیتے ہیں۔
رفعت یوسفزئی مشرق کے پرانے قاری ہیں، اکثر اوقات ای میل کے ذریعے مسائل سے آگاہ کرتے اور کبھی سوالات پوچھتے ہیں۔ اس بار اُن کا سوال ہے کہ
”شاہ جی! ہمارے علاقے میں یہ تاثر عام ہے کہ کورونا وائرس ایک سازش کے تحت پھیلایا گیا ہے تاکہ مغرب کے ادویہ ساز اداروں کو آگے چل کر انسداد کرونا ویکسین اور ادویات فروخت کر کے کھربوں روپے کمانے کا موقع ملے“۔

شکر ہے کہ رفعت نے یہ نہیں کہہ دیا کہ کورونا وائرس ایجاد تو مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے ہوا ہے مگر پردہ داری کیلئے اہل کفر نے اپنے ایک لاکھ سے زیادہ بندے مروا لئے۔
ان سطور میں روزاول سے سازشی تھیوریوں کی نفی کرتا چلا آرہا ہوں تو اسی طرح دیسی اور روحانی ٹوٹکوں کی بھی۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ وائرس جانوروں سے انسانوں کو لگا ہے۔
مزید تحقیق سے ہی یہ بات سامنے آئے گی کہ کیا پالتو جانوروں سے یا ہر قسم کا جانور غذا بنا لینے کے شوق نے اس وائرس کو جانوروں سے انسانوں میں منتقل کیا؟
اب تک کی اطلاع کے مطابق برطانیہ ویکسین بنانے کے قریب پہنچ چکا۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے برطانیہ میں آزمائشی طور انسانوں پر اسے آزمایا جائے گا، نتائج کے بعد ہی کام آگے بڑھے گا، فی الوقت اس کا علاج زیادہ سے زیادہ احتیاط میں ہے باقی سب دعوے ہیں کھوکھلے دعوے۔

About The Author