سلطنت عثمانیہ کے وقت مسلمانوں میں یہ رواج تھا کہ روٹیاں پکانے کے تنور پر ایک ٹوکری لٹکتی رہتی ۔جب کوئی گاہک روٹی خریدنے آتا تو عام طور پر وہ دو روٹیاں خریدنے کے بدلے چار روٹیوں کی قیمت ادا کرتا۔
اس طرح دو روٹیاں وہ گھر لے جاتا اور دو روٹیاں تنور والا اس نیکیوں کی ٹوکری میں ڈال دیتا اس کے بعد جب کوئی غریب ضرورت مند تنور پر آتا تو اس ٹوکری سے تنور والا اس کو ضرورت کے مطابق روٹیاں اٹھا دیتا ۔اس طرح نہ دینے والے کا پتہ چلتا نہ لینے والے کی سیلفی بنتی اور عزت نفس مجروح ہوتی۔ یہ ایک سنہری روایت تھی جس کو مسلمانوں نے چھوڑ دیا البتہ بعض ہوٹلوں میں اب بھی روایت زندہ ہے ۔
کھانا کھانے والے صاحب حیثیت لوگ ایک کی بجاۓ دو کھانے کے پیسے ادا کرتے ہیں اور ہوٹل والا بعد میں کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتا ہے۔ ترکی میں بعض بیکری والے جو اشیا بچ جاتی ہیں دکان کے باہر ایک فریج میں رکھ دیتے ہیں اور فری لکھ دیتے ہیں اس طرح ضرورت مند خود فریج سے اٹھا لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے دردمند لوگ بھوکوں کو کھانا کھلانے کا کام جاری رکھے ہوۓ ہیں۔
ایدھی مرحوم نے غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے لیے دسترخوان کا بندوبست کیا پھر اس میں بہت سے لوگ اور نجی تنظیمیں شروع ہو گئیں اور اللہ کے نام پر کھانے کا بندوبست کرنے لگے۔ راولپنڈی میں ہمارے دوست عبدالعزیز صاحب باغبان اور بیلیورز تنظیم کے ذریعے کمیٹی چوک پر کھانا تقسیم کرتے تھے جس کو میں وہاں تھا تو خود دیکھتا رہتا۔ ملک ریاض کا دسترخوان بھی چلتا تھا۔
کراچی کی خدا کی بستی میں ایک خاتون روزانہ کھانا پکا کر تقسیم کرتی ہے۔ ڈیرہ میں سینیٹر وقار صاحب دال روٹی کی دیگیں پکا کر شھر کے مختلف پوانٹس پر ایک گاڑی کے ذریعے تقسیم کرتے تھے۔ ڈیرہ شھر میں ایک پناہ گاہ ہے جہاں مسکین اور بے سہارا لوگوں کو مفت کھانا اور رہائش ملتی رہی ہے جس کے روح رواں جہانگیر خٹک صاحب تھے۔
جب وزیراعظم عمران خان نے غریبوں کے لیے ملک میں مفت کھانا اور پناہ گاہیں بنانا شروع کیں تو سردار علی امین خان گنڈہ پور نے ڈیرہ میں بھی ایسا ایک ادارہ قایم کیا تھا۔ اب جب کہ لاک ڈاون کی وجہ سے غریب متاثر ہوے تو سردار عمر امین خان گنڈہ پور نے مستحق لوگوں کو رات کی تاریکی میں راشن پہنچانے کا زبردست اہتمام کیا اور یہ جذبہ قابل تعریف ہے۔سید رسول دھپ صاحب صبح راشن کی گاڑی بھر کر نکلتے ہیں اور گلی گلی تقسیم کرتے ہیں۔ ہمارے علاقے کے ڈاکٹر شفیق بلوچ بھی اس خدمت میں پیش پیش ہیں۔
وجاہت عمرانی نے اپنے علاقے کے غریب لوگوں میں راشن تقسیم کیا۔ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے راشن تقسیم کرنے کا کام جاری ہے۔ ہماری فوج کی طرف سے بھی GPO کے پاس لوگوں میں پکا پکایا کھانا روزانہ تقسیم ہو رہا ہے . فوج تو مصیبت کی ہر گھڑی میں ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور یہی ایک ادارہ جس پر لوگ فخر کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کا الخدمت ادارہ تو ان دنوں بہت ہی عمدہ کام کر رہا ہے جس کو حکمرانوں نے بھی سراہا ہے۔ کچھ ہمارے ۔نگہبان ۔ کے دوست اعجاز خٹک۔ابولمعظم ترابی اور احساس تنظیم کے احباب بھی ان دنوں راشن پہنچانے میں کافی مستعد نظر آے جن کی کاوشوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ فہرست نامکمل ہے مگر مجھے پکا یقین ہے کہ ڈیرہ کے سارے سیاسی لیڈر اور سماجی کارکن اپنے طور پر غریبوں کی امداد ضرور کر رہے ہونگے لیکن اگر اپنے کارکنوں کے ذریعے منظم انداز میں کام کریں تو بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔
چونکہ میں خود لاک ڈاون کی وجہ سے گھر بیٹھا ہوں اس لیے ساری سرگرمیوں کا مجھے علم نہیں۔ ہمارے ڈاکٹر ۔نرسیں۔ ہیلتھ ورکر ۔انتظامیہ۔پولیس اور فوج جان ہتھیلی پر رکھ کر قوم کی خدمت کر رہے ہیں جن کو قوم سلوٹ کرتی ہے۔ اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قوم کے اس کڑے وقت میں صرف ان احباب کا فرض ہے کہ وہ نیکی کا کام کریں اور ہم سب بری ہیں ؟ نہیں بھائی کرونا ایسی مصیبت ہے کہ ہر شخص اپنی چاروں طرف کے دس دس گھروں کو دیکھے اور ضرورت مندوں تک پہنچے۔ میرے بھائیو یہ وقت بھی جلد گزر جاے گا ان شاء اللہ۔ مگر اس کی یادیں باقی رہینگی۔
اس دنیا میں ہر زوال کے بعد کمال ہے۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔ ہر ہار کے بعد جیت ہے۔ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانا ہے اور ہر غروب کے بعد نیا آفتاب طلوع ہوتا ہے بشرطیکہ کہ آدمی اپنی شام کو صبح میں تبدیل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کا مالک کوئی انسان نہیں بلکہ خدا ہے جو تمام طاقتوں سے زیادہ طاقت رکھنے والا ہے۔جس وقت حالات آپ کو محرومی سے دوچار کرتے ہیں یا کوئی جھونکا آپ کے چراغ کو بجھا دیتا ہے عین اس وقت خدا یہ کہ رہا ہوتا ہے کہ میری دنیا میں ہر محروم ہونے والے کو دوبارہ دیا جاتا ہے اور ہر بجھے ہوۓ چراغ کو از سر نو روشن کیا جاتا ہے۔اس خدائی امکان کو اپنے حق میں واقعہ بنانے کی شرط صرف ایک ہے کہ آدمی اپنی متاع کو کھونے کے بعد اپنی ہمت کو نہ کھوۓ وہ ہر دفعہ گرنے کے بعد دوبارہ کھڑا ہو کے جدوجھد شروع کردے۔
شام کے بعد دوبارہ صبح کو ظہور میں لانے کے لیے کائیناتی طاقت درکار ہے پھر جس دنیا میں اتنے بڑے واقعہ کا ظہور ممکن ہو وہاں یہ چھوٹا واقعہ ظہور میں کیوں نہیں آے گا کہ پوری انسانیت کو اللہ مشکل سے نکال دے۔ لوگوں کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ۔۔جو کچھ ہو چکا ۔۔اس کو جانتے ہیں۔۔جو کچھ ہو سکتا ہے ۔۔اس کو نہیں جانتے ۔۔
یہی وجہ ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر لوگ دوسری بات کو جانیں تو کبھی مایوس نہ ہوں کیونکہ اس دنیا میں مایوسی وقتی ہے اور امید دائیمی ۔۔۔
؎جھوکاں تھیسن آباد ول۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ