وفاقی حکومت نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے قومی ایکشن پلان کی جو رپورٹ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں جمع کروائی اس کے مطابق وائرس کی شدت میں اضافے کا خطرہ ہے۔
25اپریل تک 50ہزار کورونا متاثرین میں سے 7ہزار کا مرض شدت اختیار کرسکتا ہے۔
خود وزیراعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
”برا وقت آنے والا ہے“۔
لیکن اس برے وقت میں جس قومی سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے اسے نظرانداز کرتے ہوئے انہوں نے پی ٹی آئی کے لوگوں سے کہا کہ وہ میدان عمل میں اُتر کر انتخابی حلقے محفوظ کرسکتے ہیں۔
کورونا کسی کو نہیں چھوڑے گا، وائرس کب ختم ہوگا کسی کو پتہ نہیں۔
وزیراعظم ہفتہ کے روز جب لاہور میں اپنے مخالفین کو سوشل ورک سے بے بہرہ اور سیاست برائے کمائی کا طعنہ دے رہے تھے اس سے چند گھنٹے بعد ذرائع ابلاغ نے حالیہ آٹا اور چینی بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ نشر کر دی۔
اس رپورٹ کے مطابق آٹا چینی بحران کی ذمہ داری وفاق‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب پر عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آٹا بحران باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیاگیا،
وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں کی کاہلی اس کی وجہ تھی، افسران وسیاسی شخصیات کے علاوہ شریف فیملی کے ایک نئے رشتہ دار چودھری منیر نے اس سے فائدہ اُٹھایا‘ یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹا چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ بتاتی ہے کہ چینی ایکسپورٹرز نے حکومت سے سبسڈی لینے کیساتھ قیمتوں میں اضافے سے بھی فائدہ اُٹھایا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس سبسڈی کیلئے وفاقی کابینہ نے باضابطہ طورپر انکار کردیا تھا پنجاب حکومت نے شوگرمافیا کو وہ سبسڈی دیدی۔
جہانگیر ترین نے 56کروڑ‘ المعیز گروپ نے 40کروڑ، خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمرشہر یار نے 45کروڑ 20لاکھ روپے کی سبسڈی لی۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں کے دوران شوگر مل مالکان کو مجموعی طور پر 25ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اس میں سے 3ارب روپے کی سبسڈی 2019ء میں اور 22ارب کی 2015ء سے 2018ء کے سالوں میں دی گئی خسرو بختیار کے بھائی کی کمپنی نے چار ارب‘ جہانگیر ترین کی کمپنی نے 3 ارب‘ ہنزہ گروپ نے 2.8 ارب‘ فاطمہ گروپ نے 2.3ارب‘ شریف گروپ نے 1.4 ارب جبکہ اومنی گروپ نے 90کروڑ کی سبسڈی حاصل کی۔ چینی بحران سے فائدہ اُٹھانے والوں میں چودھری مونس الٰہی بھی شامل ہیں۔
گندم بحران سے فائدہ اُٹھانے والوں میں سابق وفاقی وزیر محبوب سلطان نے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا۔
رپورٹ میں پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چودھری کو بحران کاذمہ دارقرار دیاگیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیاوفاقی حکومت گندم اور چینی بحران پیدا کرکے مالی فائدہ اُٹھانے والوں اور ان فوائد کیلئے معاونت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرے گی؟
ایک رائے یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے ہفتہ کے روز لاہور میں
”مخالفین کیلئے برا وقت آگیا ہے“
کی بات کرکے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے گو یہ رائے زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکی لیکن اسے نظرانداز کرنا مشکل ہوگا
گندم اور چینی بحران کی رپورٹ نے تحریک انصاف کے ”صاف چلی شفاف چلی“ کے نعرے اور کرپشن سے پاک پاکستان کے دعوؤں کو دھندلا سا دیا ہے۔
ستم یہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی بھی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ 1985ء سے سیاست کاروبار ہے، کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کے شوقین بلا وجہ کروڑوں روپے کی شخصیات اور جماعتوں پر انوسمنٹ نہیں کرتے۔
ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت کورونا وائرس سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے کیلئے عوام اور مخیر حضرات سے زیادہ سے زیادہ تعاون طلب کر رہی ہے دو اہم سوال اس کے سامنے ہیں،
اولاً یہ کہ عوام اور مخیر حضرات کی فراہم کردہ رقومات کے خرچ ہونے کی نگرانی کون کریگا کیونکہ اگریہ خالصتاً خدمت خلق کا کام ہے تو پھر وزیراعظم نے یہ کیوں کہا کہ تحریک انصاف کے لوگ اپنے حلقوں میں اُتریں اور انتخابی حلقے مضبوط بنا لیں؟
اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ کیا حکومت کورونا وائرس سے پیدا شدہ مسائل سے انسانی بنیادوں پر نمٹنے کی بجائے اس سے سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے ثانیاً یہ کہ پی ٹی آئی کے رہنما اپنے اپنے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو کورونا ٹائیگر فورس میں شامل کرنے کیلئے مخصوص افراد کی لسٹیں کیوں فراہم کر رہے ہیں؟۔
دوسرا معاملہ اس رپورٹ کے حوالے سے جو وفاقی حکومت نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے
ان سطور میں تواتر کیساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ وفاق کا قائم کردہ ادارہ کورونا وائرس کے مریضوں کے پھیلاؤ کی شدت کے حوالے سے درست اعداد و شمار نہیں دے رہا۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق اگلے 20دنوں میں سات ہزار سنگین کیس سامنے آسکتے ہیں۔ یہاں بہت ادب کیساتھ پوچھنا پڑے گا کہ کیا رپورٹ تیار کرنے والوں نے وزیراعظم کو اس حوالے سے بریف نہیں کیا وہ تو اب بھی روز اول کی طرح لاک ڈاؤن کی مشکلات ہی بیان کر رہے ہیں؟
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وائرس سے پیدا شدہ حالات اور مسائل کی سنگینی کے باوجود ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کا عملہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا، کھلے بندوں جعلی سینی ٹائزرز فروخت ہو رہے ہیں۔
اسی طرح ماسک کا معاملہ ہے، ہم ایسے بد قسمت سماج میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں جہاں ایک طبقہ صورتحال کو مالی فائدے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے تو دوسرا طبقہ ان حالات سے سیاسی مستقبل تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ دیہاڑی دار محنت کشوں اور دوسرے کچلے ہوئے طبقات کی ٹھوس انداز میں مدد کرنے کا کوئی حتمی منصوبہ ابھی تک بن نہیں پایا۔
دکھ، مایوسیوں، مسائل اور وبا کے خوف سے بھرے اس ماحول میں بلوچستان حکومت کا یہ پروگرام قابل قدر ہے کہ حالیہ دنوں میں بیروزگار ہونیوالے سفید پوش خاندانوں کے نوجوانوں کو عوامی بھلائی کیلئے بنائی جانے والی خدمت خلق ٹیم میں باقاعدہ تنخواہ پر رکھا جائے گا تاکہ وہ اس عملی جدوجہد میں شریک ہوں جو خالص اللہ کی رضا کیلئے ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور ماتحت اداروں کو کسی تاخیر کے بغیر عملی اقدامات اُٹھانا ہوں گے تقریریں اور اعلانات بہت ہوچکے ثانیاً یہ کہ دیگر اقدامات کیساتھ ساتھ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیاوفاقی حکومت گندم اور چینی بحران پیدا کرکے مالی فائدہ اُٹھانے والوں اور ان فوائد کیلئے معاونت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرے گی؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ