نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"سئیں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہؒ” ۔۔۔حیدرجاوید سید

سرائیکی قوم پرست سیاست کے عملی آغاز سے قبل سرائیکی لوک سانجھ کے نام سے ایک تنظیم وسیب بھر میں قائم تھی۔

سرائیکی قومی تحریک کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ مرحوم کا ذکر اور ان کی جدوجہد کا تذکرہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

1960 ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جب پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو ترقی پسند عوام دوست رہنما کے طور پر میدان سیاست میں اترے تو ابتدائی دنوں میں جو لوگ بھٹو کے منشور اور شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوئے تاج محمد خان لنگاہ ان میں سے ایک تھے۔ 1977ء میں انہوں نے خورشید حسن میر کے ساتھ مل کر عوامی جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی ۔
بعدازاں وہ وفاقی سیاست سے الگ ہوئے اور دوستوں سے طویل صلاح مشورے کے بعد1980ء کی دہائی میں انہوں نے سرائیکی صوبہ محاذ کے نا م سے اتحاد بنایا۔
اس اتحاد کی خصوصیت یہ تھی کہ مختلف الخیال لوگ اپنی اپنی سیاسی و مذہبی جماعتوں میں رہتے ہوئے بھی سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ تھے۔
سرائیکی صوبہ محاذ کے قیام کے دو روشن پہلو ہیں ۔
اولاََ یہ کہ بہاولپور صوبہ محاذ کے رہنماؤں ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ اور سیٹھ عبیدالرحمان نے سابقہ ریاست کو صوبہ کا درجہ دلوانے کی جدوجہد ترک کرکے سرائیکی قومی شناخت پر وفاقی اکائی یعنی صوبے کے قیام کی جدوجہد میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تنظیم کو سرائیکی صوبہ محاذ میں ضم کر دیا۔
دوسری وجہ مختلف الخیال جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کا سرائیکی صوبے کے قیام پر اتفاق رائے تھا۔
ان دو وجوہات کی بنا پر محاذ کو سرائیکی وسیب میں بے پناہ عوامی تائید حاصل ہوئی۔
سرائیکی قوم پرست سیاست کے عملی آغاز سے قبل سرائیکی لوک سانجھ کے نام سے ایک تنظیم وسیب بھر میں قائم تھی۔ قومی شعور، تاریخ و ثقافت اور دھرتی سے جڑنے کا جذبہ اسی لوک سانجھ نے بیدارکیا جس کی وجہ سے سرائیکی صوبہ محاذ اور بعد ازاں اگلے مرحلے پر قائم ہونے والی اولین سرائیکی قوم پرست پارٹی (گوکہ اس سے قبل سرائیکی نیشنل پارٹی اور سرائیکی قومی تحریک کے نام سے دو تنظیمیں موجود تھیں مگر یہ فعال سیاسی جماعتیں کم اور نظریاتی دوستوں کا اجتماع زیادہ تھیں) کے قیام پر تربیت یافتہ اور باشعور قوم پرست سیاسی کارکن میسر آئے۔

سرائیکی صوبہ محاذ سے سرائیکی پارٹی کے قیام تک کے درمیانی عرصہ میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے سرائیکی تحریک کا راستہ روکنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایا۔
1984ء میں ایک ریاستی ادارے کی سرپرستی میں جھنگ میں انجمن سپاہ صحابہ کا قیام بظاہر ایرانی انقلاب کے ردعمل کے طور پر پیش کیا گیا لیکن سچائی یہ ہے کہ اے ایس ایس کے قیام کے بعد جھنگ سے صادق آباد کے درمیان سرائیکی وسیب میں سال بھر کے اندر 60سے زیادہ افرادکے قتل نے وسیب کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی۔

یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ انجمن سپاہ صحابہ کے قیام کے ابتدائی عرصہ میں سب سے زیادہ نقصان سرائیکی صوبہ تحریک کو پہنچا۔
مختلف الخیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جو لوگ صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے صوبے کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے تھے ان میں سے کچھ اپنی جماعتوں اور فوجی حکام کے دباؤ پر محاذ سے لاتعلق ہو گئے۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے سرائیکی قوم پرستوں کی وسیب گیر جماعت بنانے کے لئے صلاح مشورے کیے اور بالآخر پاکستان سرائیکی پارٹی کے نام سے نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔

تاج محمد خان لنگاہ ترقی پسند نظریات کے حامل وکیل اور درمیانے درجہ کے وراثتی زمیندار تھے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی سیاسی فعالیت کے لئے موروثی جائیداد بیچ کر جدوجہد کے اخراجات پورے کئے۔
لاریب وضع داری، مہمان نوازی، دوست پروری اور دیانت و شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھے
البتہ اپنی جدوجہد اور خدمات و قربانیوں کے باوجود ان جیسی شخصیت پارٹی کو ایسا ادارہ نہ بنا سکی جو نئی نسل کے سیاسی کارکنوں کی تربیت کر کے سیاسی عمل کو نیا خون فراہم کر سکتا۔

بہرطور یہ تاج لنگاہ ہی تھے جنہوں نے خطے کی دوسری اقوام کے ساتھ سرائیکی قومی سوال پر مذاکرات و مکالمہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب مظلوم اقوام کا اتحاد پونم قائم ہوا تو سرائیکیوں کو الگ قوم تسلیم کرتے ہوئے پونم کا حصہ بنایا گیا۔
سیاسی سفر کے دوران بلاشبہ ان سے فیصلوں میں بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئیں ۔

مثال کے طور پر نیشنل الائنس میں سرائیکی پارٹی کی شرکت ایک عاجلانہ فیصلہ تھا۔ اسی طرح سرائیکی پارٹی کے سربراہ کا پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان پر قومی اسمبلی کے ایک حلقہ میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینا بھی درست نہیں تھا۔

ان دو سیاسی غلطیوں کے باوجود تاج محمد خان لنگاہ ایک سچے اور اجلے قوم پرست رہنما تھے۔ ایک مرحلہ پر انہوں نے معروف دانشور ارشاد احمد امین کے تعاون سے وسیب گیر سیاسی الائنس کے قیام میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ دونوں دوستوں کی کوششیں رنگ لائیں اور سرائیکی وسیب کی40کے قریب ادبی ، ثقافتی و سیاسی و سماج سدھار تنظیموں نے اعلان ملتان جاری کرتے ’’سرائیکی قومی رابطہ کونسل‘‘ کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کیا۔ صوفی تاج محمد گوپانگ جو اس وقت سرائیکی پارٹی کے سینئر نائب صدر تھے رابطہ کونسل کے سربراہ اور یہ تحریر نویس سیکرٹری جنرل جبکہ ارشاد امین کوآرڈینیٹر منتخب ہوئے۔

ہمسایہ اقوام سے مکالمے اور مختلف مواقع پر سرائیکی قوم کا مقدمہ پیش کرنے میں انہوں نے انتھک جدوجہد کی۔
سرائیکی قوم پرست سیاست اور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں ان کی خدمات کے پیشِ نظر انہیں بابائے سرائیکستان کا مقام حاصل ہے۔

اپنی ذات میں اکل کھرے تاج لنگاہ وسیع المطالعہ اور جہاندیدہ سیاسی رہنما تھے۔ آج ان کی برسی بھی ہے اور اولین قوم پرست سیاسی جماعت سرائیکی پارٹی کا یوم تاسیس بھی۔

سرائیکی وسیب کے عوام اور بالخصوص کچلے ہوئے طبقات کو امیدہے کہ سرائیکی پارٹی 1973ء کے آئین کے اندر رہتے ہوے ایک ایسے عمرانی معاہدے کے لئے جدوجہد کرے گی جو سرائیکیوں کو وفاق پاکستان کی ایک قومی اکائی کا درجہ دلائے۔

سرائیکی پارٹی کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ یک قومی ریاست کے رجعت پسندانہ تصور کو ترک کر کے پاکستان کو پانچ قومیتی فیڈریشن کا درجہ دیا جائے اور قومو ں کی جغرافیائی حدود کے وسائل پر قوموں کا اولین حق تسلیم کیا جائے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ تاج محمد لنگاہ کی بے وقت موت سے سرائیکی تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔

گو آج سرائیکی قوم پرست سیاست میں متعدد جماعتیں سرگرم عمل ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیرہ سے صادق آباد تک سرائیکی وسیب کے دونوں مقبوضہ حصوں کو متحد کر کے قومی اکائی کے قیام کی شعوری جدوجہد کو بالغ نظری سے آگے بڑھایا جائے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ وسیب میں آباد آبادی کے دوسرے طبقات کو بھی اعتماد میں لے کر جدوجہد میں شریک کیا جائے۔
اللہ مغفرت فرمائے لنگاہ صاحب سرائیکی وسیب کے چندے آفتاب تھے اور ہمیشہ رہیں گے

About The Author