بدقسمتی سے میں آپ بلکہ ہم سبھی ابھی تک کورونا کا مسلک، مذہب، آبائی وطن اور ذات پات طے نہیں کر پائے، سچ پوچھیں تو چند جعلی خبروں، غلط اعداد وشمار اورپھر”ڈھٹائی” کیساتھ ان پر تجزیئے تبصرے اور محض حکومت سے نفرت میں اس پر لیگی سورماؤں کے بیانات نے سماجی وحدت کو جتنا نقصان پہنچایا انتا نقصان وہ مسلح تنظیمیں نہیں پہنچا پائیں جنہوں نے افغان جہاد کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔
مجھے معاف کیجئے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم اگر کورونا سے بچ کر اگلے سفر پر روانہ ہو بھی لئے تو سماجی وحدت کا جو نقصان ہو چکا اس کا اگلی نصف صدی میں بھی ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔
ساڑھے چار دہائیوں سے صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری کرتے اس محنت کش کے سامنے یہ دوسرا موقع ہے جب ”کسی“ نے میڈیا کے بڑے حصے کو مخصوص مقاصد کیلئے استعمال کیا اور بڑے بڑے جغادریان آزادی اظہار وجمہوریت اس میں بہہ گئے۔
کچھ لوگوں نے اس گندے کھیل میں اس لئے بھی حصہ لیا کہ انہیں زعم ہے کہ وہ حکومتیں بناتے گراتے ہیں، کچھ بیروزگار بدلے کی بھاؤنا لئے میدان میں اُترے اور کچھ نے مالکان کی وفاداری میں وہ سب کیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔
سچ یہ ہے ڈگریاں، عہدے، سماجی رتبہ تینوں مل کر بھی اندر موجود جہالت کو ختم نہیں کرسکتے۔
وبا کے اس موسم میں جہالت مآبی کے جوہر دکھانے والوں نے اپنی مقبولیت کا لطف تو لے لیا لیکن تاریخ کا کوڑے دان ان کا مستقبل ہے۔
وبا پھیلی اور دنیا میں ہزاروں انسان کھا گئی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ہمارے ہاں پورے ملک میں کورونا کے اب تک 1763مریض سامنے آچکے، اموات کی تعداد23 ہوگئی۔ طبی عملہ اپنی شکایات سنا رہا ہے کہ حفاظتی کٹس فراہم نہیں کی گئیں، چند ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں ڈاکٹر صاحبان عام سا سفید شاپر چہرے پر چڑھائے دستانے پہنے طبی خدمات فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
روزانہ سپہر کے بعد ٹی وی چینلوں پر کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے نام پر بریفنگ دینے والے خود کتنے تجربہ کار ہیں اور معاملات کوکتنا سمجھتے ہیں اس کیلئے آپ مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی بھی کسی بھی تین دنوں کی بریفنگ کے دوران ہوئی گفتگو سن لیجئے ایمان تازہ ہو جائے گا۔
کن خصوصیات اور قابلیتوں پر انہیں مشیر صحت مقرر کیا گیا یہ غالباً وہ خود بھی نہیں جانتے۔
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا تواتر کیساتھ اعلان کرنے والے ہمارے محبوب وزیراعظم کا مخمصہ کیا ہے؟
وہ پچھلی شب بھی یہ کہہ رہے تھے کہ اگر چین جیسے حالات ہوتے تو میں لاک ڈاؤن کر دیتا۔
صاف لگ رہا ہے کہ وفاق اور صوبے ایک پیج پر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر صوبوں کے اعلان کردہ لاک ڈاؤن میں گڈز ٹرینیں بھی چل رہی ہیں مگر وفاق ہمیں سوموار کی سپہر بتا رہا تھا کہ گذزٹرانسپورٹ کیلئے شاہراہیں کھول دی گئی ہیں، گڈز ٹرینیں بند نہیں ہوں گی۔
کچھ اور اعلانات بھی ایسے ہوئے جن پر صوبے پہلے سے عمل کر رہے ہیں۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ وزیراعظم کو روزمرہ کے معاملات سے کون بریف کرتا ہے؟۔
اگلی شب انہوں (وزیراعظم) نے کورونا کا مقابلہ ایمان اور ٹائیگر فورس سے کرنے کا اعلان کر دیا۔
ایمان کا اپنا دائرہ اور حدود وتقاضے ہیں مگر بیماریوں کا علاج ادویات سے ہوتا ہے۔
تلوار کا زخم صرف دعاؤں سے نہیں بھرتا زخم پر مرہم لگانا اور گاہے اس کا آپریشن ضروری ہوتا ہے۔
لوگ اپنے اپنے مذہبی طریقہ ہائے عبادات کے مطابق خالق ہستی سے دعائیں ضرور مانگتے ہیں مگر فقط دعاؤں سے کام نہیں چلتا، رہی ان کی اعلان کردہ ٹائیگر فورس تو جس طرح کی ٹائیگر فورس سوشل میڈیا اور سیاسی میدانوں میں موجود ہے اسی طرح کی ہی فورس ہوگی،
فرشتوں کی نئی نسل وہ (وزیراعظم) کہاں سے لائیں گے۔
سینیٹر رضا ربانی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی بات درست ہے، موجودہ حالات میں ٹائیگر فورس کی سیاست درست نہیں ہوگی، مناسب ہوگا کہ محلہ کمیٹیاں بنائی جائیں۔ قطعی طور پر غیرسیاسی ان کمیٹیوں کے ذریعے مستحقین تک امداد پہنچائی جائے۔ صورتحال خدا نخواستہ مزید خراب ہو تو اس کیلئے بھی خدمت عوام وپاکستان کے نام سے رضاکار فورس بنائی جائے مخصوص سیاسی شناخت نہ دی جائے۔
ان سطور کے لکھے جانے کے وقت اور لاک ڈاؤن ختم ہونے میں چار سے چھ دن باقی ہیں، وزیراعظم کی تین تقاریر اور تین پریس بریفنگ یہ بتاتی ہیں کہ وفاق اور صوبوں میں بھائی چارے اور تعاون کی وہ فضا موجود نہیں جو ہونی چاہئے۔
زیادہ بہتر ہوگا کہ برداشت اور تعاون کو فروغ دیا جائے، نفرت کی وہ سیاست جسے پی ٹی آئی نے زندہ وتابندہ کر دیا ہے اسے ملک اور 22کروڑ لوگوں کے مفاد میں دفن کر دیا جائے۔
حالات بہت مشکل بلکہ مشکل تر ہیں، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سماجی ومعاشی تلپٹ ہونے جارہا ہے۔
سفید پوش طبقات سڑک پر آنے والے ہیں، کچلے ہوئے طبقات کی زندگی مزید بھیانک ہونے کو ہے، ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔
ستم بالائے ستم مہنگائی کا نیا سیلاب گو اس سے یورپ وامریکہ تک محفوظ نہیں مگر ہمارے یہاں تو باوا آدم ہی نرالہ ہے، 800روپے والا آٹے کا تھیلہ 1150روپے تک فروخت ہورہا ہے، سبزیوں اور دالوں کی قیمت میں لگ بھگ 30فیصد اضافہ ہوا،
دوسری اشیائے ضرورت بھی مہنگی ہوئیں۔
ملک بھر میں اضلاع کی سطح پر موجود انتظامی افسران انجمن تاجران کیساتھ ملکر اصلاح احوال کیلئے مؤثر قدم اُٹھائیں، معاشی طور پر دیہاڑی دار مزدور، یومیہ اُجرت والی فیکٹریوں کی لیبر اور تین تین ماہ سے پنشن نہ ملنے والے بدترین حالات کا شکار ہیں، کچھ ان کے بارے میں سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی کا خیال رکھنے کی ذمہ داری لے لے تو لاریب ہم سختیوں کے دنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ