( جینا ھے تو لڑنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ جینا ہوگا ، لڑنا ہوگا )
کرونا پر رونا اور ہدایات و بھاشن دینا کافی نہیں ھے۔ بلکہ اس میں روز افزوں اضافے کے تمام اسباب کی روک تھام کی سوچ و بچار اور اقدامات اٹھانے کی ضرورت ھے۔ اس کیلئے لوگوں کی حرکت، اجتماع، سرگرمیوں وغیرہ کو محدود کرنے کیلئے لاک ڈاؤن اگرچہ ضروری ہے مگر یہ کافی نہیں۔ اس کیلئے کھلم کھلا بدمعاشی /مگر نظر نہ آنے والے کیموفلاج جیسے عوامل اور کرداروں کی سرکوبی لازم ھے۔۔
یہ درست ھے کہ کرونا پھیلانے کی ایک وجہ لاشعوری طور پر ایسے لوگ ہیں جو کرونا سے متاثر ہیں اور کرونا کے مریض ہیں۔ اور وہ یا تو خود اس مرض، اس مرض کی شدت اور نقصانات سے لاعلم ہیں اور یا لاشعوری طور پر شکار ہیں۔ مگر دوسری طرف اس کرونا مرض کو مصیبت اور موت بنانے والے پیسے کے وہ سب پجاری ہیں جو شعوری طور پر منافعوں کی ہوس میں انسانیت سے گر کر جانوروں کا روپ دھار چکے ہیں۔ جنہوں نے کرونا کی بڑھتی رفتار کیساتھ ساتھ اپنے ورد وظائف میں اضافہ، پیشانیاں رگڑ کر نیک نظر آنے کے نشانات کو نمایاں کرنے اور اپنے مخیر ہونے کے ناٹک بھی تیز کر دئیے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میڈیسن(انسانی زندگی بچانے والی ادویات) بنانے، ان کی ترسیل اور ان کو فروخت کرنے والے سرمایہ دار ہیں۔ یہ ان ہی کی کرم فرمائی ھے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں کرونا کیسز رپورٹ ہونے اور ان میں اضافے کی خبروں آنے پر یہ انسانیت کش سرشت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی آمدن کو دن دگنے اور رات چوگنے اضافوں کی ہوس کیساتھ کیل کانٹوں سے لیس ہوکر میدان میں آ گئے۔ یہ انہی کی ہی ماہرانہ واردات کا نتیجہ ھے کہ ملک میں جس قدر تیزی سے کرونا مرض بڑھتا جارہا ھے، ان کے منافعوں میں تیز ترین اضافہ ہوتا جا رہا ھے۔ لیکن پھر اسی قدر شدت سے کرونا کے مرض کے علاج سے متعلقہ ادویات ختم بھی ہوتی جارہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
انسانوں کو موت کی طرف تیزی سے دھکیلنے والی مرض کرونا اور اس مرض کو تجارت بنا کر منافعوں کے اضافوں کی ہوس میں اس مرض کو پھیلانے والوں کے بارے حکومت اور کچھ کرے نہ کرے اتنا تو کرے کہ کرونا کے ٹیسٹ اور علاج سے متعلق ضروری سامان ماسک، سینیٹائزر، دستانے، حفاظتی کٹس، تھرمامیٹرز، چیکنگ آلات اور جملہ ادویات کو راتوں رات گم کردئیے جانے کی وجہ سے ان طبی سہولیات و ضروریات کی عدم دستیابی پر ادویات بنانے،سپلائی کرنے اور فروخت کرنے والوں کا ریکارڈ چیک کرکے ان سب ذمہ داروں کو فوراً گرفتار کر لیا جائے۔ ایسے سب اداروں، سب کمپنیوں اور سب میڈیکل سٹورز مالکان کے گھروں اور سٹاک رومز پر چھاپے مار کر ادویات برآمد کر کے ایسے مجرموں کے میڈیکل سٹورز بند(سِیل) کر کے لائسنسز منسوخ کردئیے جائیں۔ اور تمام ادویات ساز لیبارٹریوں/کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کر ادویات سرکاری ہسپتالوں کو مفت فراہم کی جائیں۔ اور ان ادویات کی خرید و فروخت کو جرم قرار دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ اقدامات ہیں کہ جن پر عمل کرتے ہوئے کرونا مرض کی نحوست کے بڑھتے قدم روک کر انسانی اموات کے اعداد وشمار کو بہت حد تک کم بلکہ ختم کیا جا سکتا ھے ۔۔۔۔۔
اور اگر حکومتِ وقت ایسا کرنے سے پس و پیش کرتی ھے ، سرمائے کے پجاری اپنے بھائی بندوں کی معاونت و حفاظت کرتی ھے تو پھر پاکستان کے محنت کش طبقے کے کروڑوں لوگوں کا فرض بنتا ھے کہ وہ ان حکمرانوں اور حکمران طبقے کے مٹھی بھر لوگوں کو شریکِ جرم سمجھ کر میدانِ عمل میں آئیں۔ ان کے خلاف احتجاج اور مظاہرے منظم کریں۔ بے گناہ اور بے بس موت کے ہاتھوں خود کشی کا مرتکب ہونیکی بجائے لڑ کر مرنے کا عزم کر لیا جائے تو پھر دیکھنا کہ خود موت کس طرح عام لوگوں کی محافظ بن سکتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے دل کی گہرائیوں سے اس وقت کی تیاری کیلئے نعرہ لگائیں کہ
جینا ھے تو لڑنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔ جینا ہوگا لڑنا ہوگا ۔۔۔۔۔ جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ